Express News:
2025-04-25@09:32:24 GMT

سافٹ اسٹیٹ سے ہارڈ اسٹیٹ کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے پاکستان سافٹ اسٹیٹ کے بجائے ہارڈ اسٹیٹ بنے گا۔ اس وقت عام آدمی کا یہی سوال تھا کہ سافٹ اسٹیٹ اور ہارڈ اسٹیٹ میں کیا فرق ہے؟ کچھ دوست اس کو آمریت سے تشبیہ دے رہے تھے، ہر ایک کی اپنی تعریف تھی۔ بہر حال جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں، پاکستان کا سافٹ اسٹیٹ سے ہارڈ اسٹیٹ کی طرف سفر نظر آنے لگا۔ ہم اس تبدیلی کو محسوس کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی پاک افغان سرحد پر نظر آرہی ہے۔

گزشتہ دو دنوں میں دو مقامات سے پاک افغان سرحد سے فتنہ و خوراج نے بارڈر کراس کر نے کی کوشش کی ہے۔ دونوں دفعہ انھیں بارڈر پر ہی مار دیا گیا ہے۔ پہلی جگہ پر گیارہ، دوسری جگہ پر 16فتنہ خوارج کو جہنم واصل کیا گیا۔ پہلے ہم نے بارڈر اس قدر سخت نہیں کیے ہوئے تھے لیکن اب بارڈر پر دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم نظر آرہا ہے، یہ غیرمعمولی پیش رفت ہے، اگر کسی نے پاک افغان سرحد غیر قانونی طور پر کراس کرنے کی کوشش کی تو اسے دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی، کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ طورخم سرحد بھی 27روز بند رکھی گئی ہے۔

ہر قسم کی تجارت بھی بند رہی ہے۔ اب بھی سرحد کو محدود پیمانے پر کھولا گیا ہے، بغیر ویزہ کے کسی کو بارڈر کراس کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ورنہ پہلے تو کوئی بھی شناخت دکھا کر بارڈر کراس کرلیا جاتا تھا ۔ لیکن اب بغیرویزہ کوئی آمد و رفت نہیں۔ تجارت میں بھی سختی کی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں ہم پاک افغان معاملات میں پاکستان کو سافٹ اسٹیٹ سے ہارڈ اسٹیٹ بنتے دیکھ رہے ہیں، یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔

اسی طرح پاکستان سے افغانوں کی بے دخلی کا معاملہ ہے۔ تاحال بھی عمومی رائے یہی ہے کہ ماضی میں بھی حکومت پاکستان نے افغانوں کو بے دخل کرنے کے لیے بہت سی ڈیڈ لائنز دی ہیں۔ لیکن ڈیڈ لائنز گزر جاتی ہیں۔افغان پناہ گزین یہیں رہتے ہیں۔ چند دن کی سختی ہوتی ہے، پھر معاملہ دب جاتا ہے۔

لوگ مثالیں دیتے ہیں کہ نگران دور میں بھی افغان مہاجرین کو نکالنے کی بات ہوئی تھی۔ چند دن بہت شور رہا تھا۔ ہم نے اعداو شمار بھی دیکھے کہ آج اتنے افغان مہاجرین واپس چلے گئے۔ یہ کہا بھی جاتا ہے کہ تب آٹھ لاکھ افغان مہاجرین واپس چلے گئے تھے۔ لیکن کیا وہ واقعی افغانستان چلے گئے یا پھر واپس آگئے کیونکہ اب بھی کہا جارہا ہے کہ ابھی تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں ہیں۔ جب تک بارڈر کراسنگ نہیں رکتی، وا پس جانے والوں کو دوبارہ پاکستان میں داخل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔

سکیور ٹی اداروں اور حکومت کی یہی رائے ہے کہ جب تک یہ افغان پاکستان میں ہیں تب تک پاکستان سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ان سب کا واپس جانا ضروری ہے۔

پاکستان کی یہ خواہش پرانی ہے۔ لیکن پوری نہیں ہوتی۔ یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ پاکستان کے اندر سے بھی ان کے حق میں آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ باقاعدہ ریاست کی پالیسی کو ناکام بنایا جاتا ہے لیکن امید یہی ہے کہ اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ اس بار ر یاست نے افغان مہاجرین و پناہ گرینوںں کو واپس بھیجنے کا مکمل ارداہ کر لیا ہے۔

یہ درست ہے کہ کے پی حکومت ریاست کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے تو کہا ہے کہ ان سب اٖفغانوں کو پاکستان کی شہریت دے دی جائے۔ لیکن شاید انھیں بھی علم ہے کہ یہ پاکستان کی سلامتی ، وحدت اور معیشت کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہوگا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاسی مفادات اپنی جگہ لیکن سب سے پہلے پاکستان ہے۔

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنی والی پی ٹی آئی کی قیادت بھی اس حوالے سے واویلا کر رہی ہے۔ بہرحال لگ رہا ہے کہ ہار ڈ اسٹیٹ کی تعریف میں تمام افغانوں کو پاکستان سے واپس بھیجنا بھی شامل ہے۔ ابھی تو شاید ہمیں نہیں لگ رہا ہے کہ لیکن عید کے بعد ریاست کی جانب سے بڑے آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ہارڈ اسٹیٹ گلی گلی نظرآئے گی، افغانوں کی اطلاع دینے کے لیے خصوصی ہیلپ لائن قائم کی جائے گیاور واپس بھیجنے کے لیے ہر ممکن سختی کی جائے گی۔

ہمارے سامنے ایران کا ماڈل ہے۔ جنھوں نے آرام سے اپنے ملک سے دس لاکھ افغانیوں کو واپس بھیجا ہے۔ کسی ایرانی سیاسی یا مذہبی جماعت،دانشوروں یا سیاسی لوگوں نے اس کی مخالفت نہیں کی اور نہ طالبان حکومت کو جرات ہوئی کہ وہ ایران سے احتجاج کر سکے۔ ہمیں ایران سے سیکھنا ہے۔ یہ کوئی نا ممکن کام نہیں ہے،ممکن ہے۔ صرف ریاست کی سنجیدگی اور جرات چاہیے۔ کیا وہ سنجیدگی اور جرات اب ہے۔ یہی بڑا سوال ہے۔

بہر حال لگ یہی رہا ریاست اس ایشو پر کوئی دباؤ برداشت کرے گی نہ کسی مصلحت کا شکار ہوگی۔ بارڈر بند کیے جا رہے ہیں، افغانوں کو نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ان کی جائیدادیں اور کاروبار ضبط کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان کے بینک اکاؤنٹس بھی بند کر دیے جائیں گے۔ ان کے پاس جو عارضی کاغذات ہیں، وہ ختم کر دیے جائیں گے۔

اس کے ساتھ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی سخت کیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں یہ درست بات ہے کیونکہ جب تک بارڈر کھلے ہیں تب تک دہشت گردی پر کنٹرول ممکن نہیں،ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب پاک افغان بارڈر پر نقل وحرکت بند کردی جائے۔ افغانوں کو واپس نہ بھیجا جائے اور وہ دوبارہ نہ آسکیں، یہ بارڈر سیل کرنے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

 ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھ سکتے کہ افغان حکومت تعاون نہیں کر رہی۔ ہمیں اپنے بل بوتے پر یہ کام کرنا ہوگا۔ پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی نمایندے حال ہی میں تین روز کابل رہ کر آئے ہیں۔ دہشت گردی کو لے کر سنجیدہ مذاکرات ہوئے ہیں، بریک تھرو کی خبریں آرہی ہیں۔ کہا جا رہاہے کہ افغان وزیر تجارت عید کے بعد پاکستان آئیں گے۔ لیکن پاکستان کا تجارتی تعاون افغانستان کا دہشت گردی سے تعاون سے مشروط ہے۔ لیکن کیسے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

کیا افغان حکومت مطلوب دہشت گردوںکو پاکستان کے حوالے کرے گی؟ مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ کیا ان کو وہاں گرفتار کیا جائے گا؟ مجھے وہ بھی ابھی ممکن نظر نہیں آتا۔ کیا پاکستان سرجیکل اسٹرائیکس کرے گا؟ مجھے یہ ممکن نظر آتا ہے۔ اس پر افغان خاموش رہ سکتے ہیں۔ یا محدود رد عمل دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ افغان حکومت کے لیے ایک مشکل فیصلہ ہے۔ بہر حال دہشت گردی سے لڑائی کے لیے افغانستان کے تناظر میں پاکستان کا سافٹ اسٹیٹ سے ہارڈ اسٹیٹ کا سفر نظر آرہا ہے۔ یہ غیر معمولی تبدیلی ہے۔ اس کے اثرات بھی غیر معمولی ہی ہوںگے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغان مہاجرین افغانوں کو پاک افغان ا رہی ہے جاتا ہے جائے گی رہے ہیں کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا دور

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں جو افغان سرزمین سے آنے والے خوارج کی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان قیادت کو بارہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت وعدوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں سے آگے عملی طور پر دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ادھر پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جو روسی مداخلت کے بعد کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپس بھیجنا شروع کر دیا تو طالبان قیادت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کابل دورے کی دعوت دی تاکہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کے قیام کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔

 اس پس منظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے ایک روزہ سرکاری دورے پرکابل گئے جہاں انھوں نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے تفصیلی مذاکرات کیے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کے افغانستان سے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو افغان حکومت کے سامنے رکھا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد اس بات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ سطح پر روابط برقرار رکھے جائیں گے۔

علاوہ ازیں مختلف شعبوں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ طے ہوئی کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو دونوں ممالک مشترکہ طور پر فوری کارروائی کریں گے۔ افغان حکومت اس سے قبل بھی وعدہ وعید سے کام لیتی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے گی۔

پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کے اہم ملک شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور دیرینہ تاریخی، تہذیبی اور مذہبی روابط بھی قائم ہیں۔ محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور ظہیرالدین بابر دونوں کے مشترکہ ہیروز ہیں۔ اس قدر طویل اور مضبوط تاریخی و تہذیبی مشترکہ اقدار کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی و تعاون کے جذبوں کے فروغ پانے کی بجائے تعلقات میں سردمہری، عدم تعاون،کشیدگی، نفرت، عداوت اور دشمنی جیسے رویوں کا پروان چڑھنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی دشمنی کا پہلا اظہار اقوام متحدہ میں 30 ستمبر 1947 کے اجلاس میں کیا گیا۔ جب افغان مندوب حسین عزیز نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے ضمن میں واحد مخالف ووٹ ڈالا۔ تاہم پاکستان تلخیوں کو پس پشت ڈال کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پالیسی پر اخلاص نیت کے ساتھ کاربند رہا۔ اسی باعث جب دسمبر 1979 میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں برسر اقتدار حفیظ اللہ امین حکومت کا خاتمہ کر کے کابل کے تخت پر ماسکو کی پسند کا آدمی حکمران بنا دیا گیا۔ روسی ہوائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

برادر اسلامی ملک اور دیرینہ رشتوں کے احترام میں پاکستان نے کشادہ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کی میزبانی کو صدق دل سے قبول کیا۔ آج بھی جو افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو نقصانات ہو رہے ہیں، حکومت انھیں خوش دلی سے برداشت کر رہی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین کا استعمال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کی سلامتی و بقا ہر شے پر مقدم ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پاک افغان تازہ معاہدے پر اخلاص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے ہر صورت روکے گی، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی جیسے خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کی سالمیت سب سے مقدم ہے، سینیٹر ایمل ولی خان
  • مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں وسائل کسی اور کو دینے کی شق نہیں، وزیر قانون کے پی
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • پاکستان کے زر مبادلہ کے سیال ذخائر کی صورتحال
  • گردشی قرض کا خاتمہ، بینکوں سے 1275 ارب روپے قرض کیلئے بات چیت جاری ہے، اسٹیٹ بینک
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنالیا ہے لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا، وزیرخزانہ
  • پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ