ایف آئی اے کا مقدمہ ،سی ڈی اے لینڈ ڈائریکٹوریٹ کے افسران کو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
ایف آئی اے کا مقدمہ ،سی ڈی اے لینڈ ڈائریکٹوریٹ کے افسران کو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 26 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے دائر مقدمے میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) لینڈ ڈائریکٹوریٹ کے افسران کو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا۔ عدالت نے ملزمان آصف امداد اور حاجی ارشد کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔
واضح رہے گزشتہ دنوں وفاقی تحقیقاتی ادارہ(ایف آئی اے)اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے کارروائی کرتے ہوئے اراضی کی بنیاد پر غیر متعلقہ لوگوں کو پلاٹ آلاٹ کرنے والے سی ڈی اے (کیپٹل ڈیلوپومنٹ اتھارٹی )کے 4افسران کو گرفتار کیا تھا،
ایف آئی اے حکام کے مطابق اسلام آباد کے مختلف موضع میں ایکوائر کی گئی اراضی کی بنیاد پر غیر متعلقہ لوگوں کو پلاٹ آلاٹ کرنے کے معاملے میں اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے مقدمہ درج کر کے سی ڈی اے کے 4 افسران آصف علی خان، امداد علی، علی مصطفی اور ارشد محمود کو گرفتار کیا گیا۔
گرفتار ملزمان سی ڈی میں بطور ایڈشنل ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر، سٹیٹ منیجمنٹ آفیسر اور اسسٹنٹ تعینات تھے۔
حکام کا مزید کہنا ہے کہ ملزمان نے کرپشن کرتے ہوئے غیر مستحق افراد کو اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں 43 پلاٹس الاٹ کئے،ملزم نے دیگر ساتھیوں کی ملی بھگت سے اربوں روپے مالیت کی پلاٹس غیر متعلقہ لوگوں کو آلاٹ کئے،مجموعی طور پر 46 ملزمان کو مقدمے میں نامزد کیا گیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ایف ا ئی اے افسران کو سی ڈی اے
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس میں کرپشن الزامات، حیران کن موڑ سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی گمشدگی اور کرپشن الزامات کا کیس ایک نیا اور ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عدالت میں پولیس، وکیلِ صفائی اور درخواست گزار کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل نے اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف باقاعدہ کرپشن کیس درج ہو چکا ہے، ان کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے اور ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عثمان نے خود اپنے تحریری بیان میں تسلیم کیا کہ وہ جاری انکوائری کے باعث روپوش تھے۔ پولیس کے مطابق عثمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مشہور ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رضوان عباسی نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عثمان کو 15 دن تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں گرفتاری ظاہر کی گئی۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے عثمان کو اغوا کیا گیا اور ان کی گرفتاری بعد میں ظاہر کر کے قانونی کارروائی کا لبادہ اوڑھا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کے دستخط زبردستی لیے گئے اور ان کے تحریری بیان کی ہینڈ رائٹنگ بھی ان سے مطابقت نہیں رکھتی۔
وکیل نے الزام لگایا کہ اغوا کے شواہد موجود ہیں، جن میں ایک ویڈیو بھی شامل ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چار افراد نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ ایک عام طریقہ کار بنتا جا رہا ہے کہ پہلے کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی گرفتاری ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اب مقدمہ درج ہو چکا ہے اور عثمان جسمانی ریمانڈ پر ہے، اس لیے عدالت کے لیے اسے یہاں طلب کرنا ممکن نہیں، تاہم وکیل نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ واقعہ اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں پیش آیا، اس لیے ہائی کورٹ کو معاملے پر سماعت کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ملزم کے خلاف باقاعدہ انکوائری اور ایف آئی آر دونوں موجود ہیں، اس لیے بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔ وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر عثمان نے واقعی رشوت لی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے، مگر کسی شہری کو اغوا کر کے یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔