Daily Ausaf:
2025-09-18@14:12:08 GMT

رہبروں کے تیور

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

پیشہ ورانہ مصروفیات نے راقم کو کافی وقت گزر جانے کے بعد اپنے قارئین سے مخاطب ہونے کا موقع فراہم کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ وقفہ کی ایک اور بہت اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دراصل اب محسوس ہوا ہے کہ آپ کے اردگرد اجتماعی غیر یقینی ‘ الجھائو اور انتشار کے براہ راست اثرات انفرادی طور پر آپ کے دل اور دماغ پر اثر انداز ہوئے ہیں … سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس موضوع پر اپنے قارئین سے خیالات کا اشتراک کیا جائے ‘ اپنے ارد گرد جہاں روشنی کی امید اور وطن کی مٹی کا درد لئے کئی افراد سے سامنا ہوتا ہے وہاں عقل سے عاری بڑے نام بلکہ نام نہاد ’’سیاسی‘‘ زعماء کے ’’زریں خیالات‘‘ اور ’’اقوال‘‘ سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی ایسی کشتی کے سوار ہیں جس کا ملاح آنکھوں سے آندھا اور عقل سے بہرا ہے … نہ کشتی کا کمال ہے اور نہ ملاح کی خولی‘ بس چلی جارہی ہے خدا کے سہارے… اپنے ذاتی مفادات پر معاشرے‘ افراد اور طبقات اس طرح پہرہ دیتے دکھائی دے رہے ہیں جیسے اس کی تخلیق کا مقصد حیات ہی یہی ہو … ایک انسان کی حرص‘ مال سے محبت‘ اقتدار سے عشق‘ طاقت سے جنون کی حد تک لگائو‘ ذاتی تشہیر اور نجانے کیا کیا … اس حد تک بھی ہوسکتا ہے؟ اور و ہ یہ اپنے مشاہدہ کی مدد سے اس بات کا احساس بھی نہ کرسکے کہ اس کی نظروں کے سامنے ماضی قریب کے ’’فرعون‘ شداد اور قارون‘‘ اس ہماری نظروں سے اوجل ہوئے جیسے وہ اس دنیا میں آئے ہی نہ تھے … راقم کسی مبلغ کی طرح اپنے قارئین کو کوئی نصیحت نہیں کر رہا بلکہ دراصل اس امر کی ضرورت پر زور دینے کی کوشش کررہا ہے کہ انسانی جسم میں روح کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اگر کوئی شے ہے تو وہ احساس ہے انسان اور چوپائے یا جانو ر سے اس کی تخصیص کرتا ہے۔ آپ اور میں احساس کے دروازے پر دستک دیں گے تو وہ در کھلے گا جس کے نتیجے میں ہم ایک جانور کی سی خصوصیات والی زندگی سے نکل کر خوشحالی‘ تہذیب ‘ امید اور روشنی کی اس شاہراہ سے لطف اندوز ہوں گے جو برسوں سے اپنا رخ ہم سے موڑے ہوئے ہے۔
ذر ا سوچئے خود غرضی کی انتہا یہ ہے کہ اگر انفرادی زندگی میں انحطاط‘ پسماندگی‘ غربت‘ جہالت‘ تنگ دستی‘ کمزور معیشت اور اس جیسے بے شمار منفی عناصر ہماری ذاتی زندگی میں شامل ہوں گے تو کیا ہم ان سے نکلنے اور ایک روشن مستقبل کی فکر میں دن اور رات ایک نہیں کر دیں گے؟ مگر نجانے کیوں جب بھی بات ریاستی خوشحالی او ر اجتماعی مفاد کی آتی ہے تو ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں‘ ہمارے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے اور دماغ مائوف ہو جاتے ہیں۔
کیا بلوچستان سے لے کر خیبر تک ہم اپنی جاگتی آنکھوں سے لگی ہوئی آگ کو نہیں دیکھ پارہے … گو کہ ہمارے ’’زعماء‘‘ کی انا اور بے حسی نے اس آگ کی تپش سے انہیں ایک ’’حفاظتی حصار‘‘ میں لیا ہوا ہے کہ وہ اسے محسوس نہیں کر رہے ‘ آخر کب تک؟… یاد رکھیئے انا کی جنگ کو اصول کا نام دے کر ہمارے ’’اکابرین‘‘ ’’اشرافیہ‘‘ اور مقتدر حلقے‘‘ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ وہ بہت بڑے ’’افلاطون‘‘ ہیں اور ان کی ’’بصیرت بھری آنکھ‘‘ جو کچھ دیکھ رہی ہے وہ عوام نہیں سمجھ سکتے… یقین جانئے ان کی اس خوش فہمی کو دور کرنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ حالات چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہیں کہ دراصل ان کی اس ’’خوش فہمی‘‘ کا اختتام ایک بہت بڑی ’’غلطی فہمی‘‘ پر پہلے ہوچکا ہے … نتائج آپ کے سامنے ہیں راقم کو ان کی نشاندہی کرنے کی زحمت نہیں کرنی پڑ رہی ‘ کیونکہ کسی بھی حکمت عملی کے درست او ر غلط ہونے کا صرف ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے نتائج جسے ہم انگریزی زبان میں “End Results” کے نام سے موصوم کرتے ہیں … اور اگر اب بھی ’’ہم سب نے‘‘ اپنی غلطی کا اعتراف نہ سہی‘ نشان دہی بھی نہ کی تو اور اپنی اپنی ذاتی اور ادارتی انا کی پشت پر ہٹ دھرمی کے سرکش گھوڑے پر سواری سے ’’لطف اندوز‘‘ ہوتے رہے تو پھر آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہر شاخ پر کون ’’براجمان‘‘ ہے اور پھر یہ بھی آپ کے علم میں ہوگا کہ ’’انجام گلستان‘‘ کیا ہوگا؟… کتنے دکھ درد اور افسوس کی بات ہے کہ ہم نے تو غربت‘ جہالت‘ معاشی پسماندگی‘ آبادی کے مسائل‘ ماحولیات‘ زراعت کی ترقی‘ صنعتوں کے قیام‘ اپنی تہذیب اور تمدن‘ ترویح اور سب سے بڑھ کر بین الاقوامی برادری میں اپنے مقام اور کردار پر بات کرنی تھی!! یہ ہم کن مسائل کاشکار ہوگئے؟ مالیاتی لوٹ مار‘ اقتدار کی حوس‘ دہشت گردی‘ درندگی صفت‘ سیاسی سوچ‘ امن و امان‘ قرض لے کر قرض ادا کرنا … یہ تو نہ تھے ہمارے موضوعات!!! افسوس صد افسوس ‘ ہمارے اسلاف نے تو ہمارے کچھ اور اہداف مقرر نہ کئے تھے … آج کی تاریخ میں جب راقم آپ سے مخاطب ہے ‘ جاگیردارانہ سوچ بلکہ یوں کہیئے برائے نام ’’ڈگریوں والے علم‘‘ کے لبادے لپٹی جاہلانہ سوچ‘میرے اور آپ کے سامنے ایک خوفناک جن کی طرح کھڑی یہ کہہ رہی ہے کہ بھاڑ میں گئی اس ملک کے نوے فیصدعوام کی غربت‘ توانائی اور روزگار کے مسائل‘ وغیرہ وغیرہ۔
مجھے تو اپنی انا کی تسکین اور مفادات کے حصول کے لئے ’’ایندھن‘‘ درکار ہے … نجانے کب تک ہم ان کی ان ’’ضروریات‘‘ کے سامنے ہاتھ بندھے مودب کھڑے رہیں گے اور بے حسی کے چنگل سے حقیقی آزادی حاصل کر پائیں گے جسے گزشتہ دنوں ہم نے منایا بھی ہے مگر فی الوقت ہم اجتماعی اور ریاستی سطح پر ایک ریگستان میں بے سمت شتر بے مہار کی طرح بھٹک رہے ہیں او ر صورتحال یہ ہے کہ۔
کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں معلوم
ہاتھ اٹھالئے سب نے دعا نہیں معلوم
موسموں کے چہرے سے زردیاں نہیں جاتی
پھول کیوں نہیں لگتے خوشنما نہیں معلوم
رہبروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں
کب کہاں پہ لٹ جائے قافلہ نہیں معلوم

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نہیں معلوم کے سامنے نہیں کر ہے اور کی طرح

پڑھیں:

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔


حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔


جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔


یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔


اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔


یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔


لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔


دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔


تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔


مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • علیمہ خان کا انڈوں سے حملہ کرنے والی خواتین کے بارے میں بڑا انکشاف
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • ہمارے احتجاج سے قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی،علی امین گنڈاپور
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے،اسحق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • خیبرپختونخوا کے سرکاری اداروں کی نجکاری اور پنشن اصلاحات کیخلاف ملازمین کا سڑکوں پر آنے کا عندیہ
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین