ورلڈ کرکٹرز ایسوسی ایشن کی کھیل کے موجودہ ڈھانچے میں تبدیلی کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
ورلڈ کرکٹرز ایسوسی ایشن (ڈبلیو سی اے) نے کرکٹ کے موجودہ اسٹرکچر میں تبدیلی کے لیے تجاویز دے دی ہیں۔
ورلڈ کرکٹرز ایسوسی ایشن نے 64 کرکٹرز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے رپورٹ تیار کی ہے جس میں کرکٹ کے موجودہ اسٹریکچر اور گورننگ میں تبدیلی کی تجاویز دی گئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ سائیکل کے اختتام پر کرکٹ کا نیا اور واضح کیلنڈر تشکیل دیا جائے، انٹرنیشنل کرکٹ اور لیگ میچز کے لیے طے ونڈوز رکھی جائیں۔
ڈبلیو اے سی نے تجویز دی ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے ہر سال 21، 21 روز کی 4 ونڈوز رکھی جائیں، باقی کیلنڈر کو فری ونڈو قرار دے کر اس میں ڈومیسٹک لیگ کی اجازت دی جائے.
عالمی کرکٹرز کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ عالمی کرکٹ تیزی سے کلب بمقابلہ کلب کے فارمیٹ کی طرف جا رہی ہے لہٰذا فرنچائز کرکٹ بڑھتے رجحان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی اہمیت کو برقرار رکھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلیئرز کو فرنچائز سے معاہدہ کرنے کے لیے ہوم بورڈ کی این او سی کی شرط ختم کی جائے، فرنچائز ٹیمیں انٹرنیشنل ونڈو میں پلیئرز کو نیشنل ڈیوٹی کے لیے ریلیز کرنے کی پابند ہوں گی۔
یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ دو طرفہ سیریز کے میچز کو بامقصد رکھنے کے لیے ہر فارمیٹ میں ڈویژن کی بنیاد پر مقابلے کیے جائیں۔
ڈبلیو سی اے کے مطابق ٹیسٹ کرکٹ کے 2 سالہ سائیکل میں 12 ٹیمیں 2 ڈویژن میں مقابلہ کریں، ڈویژن ون میں 8 اور ٹو میں 4 ٹیمیں ہوں.
تجاویز میں کہا گیا ہے کہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے لیے 4 ٹیموں کے درمیان مقابلے ہوں جبکہ ہر ٹیم اپنے ڈویژن میں موجود دوسری ٹیم سے اس فارمیٹ کا کم از کم ایک میچ کھیلنے کی پابند ہو۔
ڈبلیو سی اے نے تجاویز دی ہیں کہ موجودہ اسٹرکچر میں ٹیموں کے درمیان مقابلوں کا کوئی بیلنس موجود نہیں، آئی سی سی کی آمدن کی تقسیم کو شفاف بنایا جائے، چھوٹی ٹیموں کی مدد کے لیے سینٹرل پول رکھا جائے اور انٹرنیشنل کرکٹ خودمختار اور آزاد اسپورٹس باڈی کے طور پر ری اسٹریکچر کی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹرنیشنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے لیے
پڑھیں:
بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہواور بھارتی کوششوں سے اس میں سیاست نہ گھسیٹی جائے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے بریانی بنے اور اس میں گوشت نہ ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ بریانی خوشبو دیتی ہے اور بھارت کی سیاست میدان میں بدبو۔
آخر کب تک پاکستان ہی کھیلوں میں ’مہان اسپورٹس مین اسپرٹ‘ دکھاتا رہے اور بھارت بار بار سیاست کی جھاڑو پھیرتا رہے؟
ذرا کھیلوں کے مقابلوں کی ایک فہرست تو بنائیں اور دیکھیں کہ جہاں جہاں پاکستان کی شرکت ہوتی ہے تو کیسے بھارتی حکام کھیل سے کھلواڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اور کرکٹ میں سیاست تو بھارتیوں کو محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔
لگتا ہے بھارتی بورڈ نے کرکٹ کے ضابطے کی کتاب کو الماری میں رکھ کر سیاست کا منشور لا کر پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ٹاس کے وقت ہاتھ ملانے سے انکار، میچ کے بعد کھلاڑیوں کو ڈریسنگ روم میں بند کرنا اور پھر فتح کو فوج کے نام کر دینا۔ یہ کھیل کم اور نالی کے کنارے لگایا گیا سیاسی پوسٹر زیادہ لگتا ہے۔
اینڈی پائی کرافٹ یا بھارتی پائی کرافٹ؟پی سی بی کا موقف بالکل درست ہے۔ میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کھیل کی اسپرٹ کے بجائے بھارتی ’اِسپرٹ‘ میں زیادہ ڈوبے نظر آئے۔
جب ریفری ہی ڈرامہ کرے تو پھر کھیل کہاں بچے گا؟ اسی لیے پاکستان نے دو ٹوک کہہ دیا کہ، صاحب! اگر یہ میچ ریفری تبدیل نہ ہوا تو ہم بھی میچ کھیلنے نہیں آئیں گے۔ یعنی پہلی بار پاکستان نے کرکٹ کے میدان میں وہی رویہ اپنایا جو بھارت دہائیوں سے اپنا رہا ہے، بس فرق یہ ہے کہ پاکستان کی منطق میں وزن ہے، بھارت کی سیاست میں صرف خالی برتن کا ڈھکن۔
بھارتی کپتان کی اسپیچ یا فلمی ڈائیلاگ؟سوریہ کمار یادو کی تقریر تو ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی کچرا فلمی ولن ڈائیلاگ مار رہا ہو
’یہ جیت ہم بھارتی افواج کے نام کرتے ہیں۔۔۔‘
صاحب! اگر کرکٹ بھی جنگی بیانیہ بنانی ہے تو میدان میں گیند کے بجائے توپ گولے لے آئیں۔ خیر پاکستانی عوام نے سوشل میڈیا پر خوب یاد دلایا کہ اصل جنگوں میں بھارت کے ’جیت کے ڈائیلاگ‘ کہاں گم ہو گئے تھے۔
کیا وقت آگیا بھارت کو کرکٹ کے ذریعے فوجی فتوحات کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ شاید بھارتی فوجی تاریخ اتنی پھیکی اور شکست خوردہ بن چکی ہے کہ اب اس کے لیے فلموں کے بعد کھیل میں بھی کمزور ’اسپیشل افیکٹس‘ ڈالنے پڑ گئے ہیں۔
کھیل کی روایات بمقابلہ بھارتی اناہاتھ ملانے کی روایت بھارت کے لیے انا کا مسئلہ بن گئی۔ کھیل ختم ہوا تو کھلاڑی ہاتھ ملانے کے بجائے سیدھے ڈریسنگ روم بھاگ دوڑے اور پھر حیرت کرتے ہیں کہ پاکستان نے تقریبِ اختتامیہ کا بائیکاٹ کیوں کیا؟
بھائی، آئینہ دکھانے کا مزہ تب ہی آتا ہے جب سامنے والا بد شکل خود کو دیکھنے کے لیے تیار ہو۔
اصل نقصان کس کا؟یہ سب جان لیں کہ پاکستان سے نہ کھیلنے کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا پاکستان کو نہیں؟ کیونکہ اسپانسرشپ کا خزانہ پاک-بھارت میچز میں ہی سب سے زیادہ بہتا ہے۔
پاکستان اگر دبنگ اعلان کر دے کہ ’بھارت کھیل کو کھیل سمجھو ورنہ ہم کھیلنا چھوڑ دیں گے‘ تو سب سے بڑا دھچکا بھارت کے ان بڑے اسپانسرز کو لگے گا جو صرف پیسے کے لیے ’مہان کرکٹ‘ کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔
پاکستان کو اب واقعی اسپورٹس مین اسپرٹ کی اسپرٹ چھوڑ کر بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دینا ہوگا۔ پاک بھارت کرکٹ نہیں ہوگی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی اسپورٹس مین اسپرٹ کو کرکٹ کھیلنے والے ممالک اور تجزیہ کار قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔
بھارت کو پیغامبھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ رن سے جیتا جاتا ہے، ڈرامے سے نہیں۔ پاکستان نے عزت و وقار کی قیمت پر کھیلنے سے انکار کر کے بتا دیا ہے کہ کھیل کی اصل روح ابھی زندہ ہے۔
بھارت جتنا مرضی سیاست کے پتھر پھینکے، پاکستان کے پاس جواب میں کرکٹ کی گیند اور میزائل دونوں موجود ہیں۔
اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے، کھیلنا ہے تو کھیل کے اصولوں پر، ورنہ سیاست کے اسٹیج پر جا کر ڈھول پیٹ کر اپنی عوام کو خوش کرتے رہو۔
خیر اس کا جواب بھی ویسا ہی ملے گا جو مئی میں ملا تھا جس پرابھی تک بھارت تلمائے ہوئے ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
wenews ایشیا کپ پاک بھارت میچ پی سی بی وی نیوز