لاہور قلندرز کے بعد فرینڈز آف قلندرز بنارہے ہیں تاکہ ہر شعبے کے ٹیلنٹ کو فروغ دیں، عاطف رانا
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
لاہور قلندرز کے اونر اور سی ای او عاطف رانا کا کہنا ہے کہ لاہور قلندرز کو خریدنے اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں شامل ہونے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں چھپے ٹیلنٹ کو سامنے لایا جائے، یہ کام ہم نے بہت اچھے سے کرلیا اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا مگر اب فرینڈز آف قلندرز کے نام سے ایک منصوبہ ہم شروع کررہے ہیں جس میں ہر شعبے میں موجود ٹیلنٹ کو ہم دعوت دیں گے کہ اپنے ٹیلنٹ کو سامنے لائیں، ہم اسے نہ صرف سپورٹ کریں گے بلکہ دنیا کے سامنے بھی لے کر آئیں گے۔
وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے عاطف رانا نے بتایا کہ 6 اپریل کو مینار پاکستان میں ایک بڑا پروگرام منعقد کیا جارہا ہے جس میں ہر شعبے اور طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ آئیں اور اپنے ٹیلنٹ کا مظاہرہ کریں، اگر ان میں کسی بھی طرح کی صلاحیت ہے تو لاہور قلندرز ان کو سپورٹ کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرے گی۔
لاہور قلندرز کی جیت سے زیادہ اہم پاکستان کی جیت ہےانہوں نے بتایا کہ ابتدا میں لاہور قلندرز مسلسل ہارتی رہی اور ہم پر تنقید بھی ہوئی لیکن ہمیں اس سے زیادہ فرق اس لیے نہیں پڑا کیونکہ ہمارا مقصد لاہور قلندرز کو جتوانا نہیں بلکہ پاکستان کو وہ ٹیلنٹ دینا تھا جو کسی بھی وجہ سے سامنے نہیں آرہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف لاہور ہارتی رہی مگر دوسری طرف ہم نے پاکستان کو فخر زمان دیا جس نے چیمپیئنز ٹرافی کی کامیابی میں اہم ترین کردار ادا کیا، تو بس لاہور قلندرز کی اصل کامیابی یہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی سیزن میں جب ایمرجنگ کیٹیگری میں کھلاڑیوں کو منتخب کرنے کے لیے ہماری باری آئی تو ہمارے پاس انتخاب کے لیے صرف 2 کھلاڑی رہ گئے تھے اور ان میں سے ایک کی عمر 29 سال جبکہ دوسرے کی 31 سال کی اور وہ ایمرجنگ کیٹیگری میں کھیل رہے تھے جبکہ ان دونوں کو سب آتا تھا مگر کرکٹ کھیلنا نہیں آتی تھی۔
عاطف رانا نے بتایا کہ جب اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) سے بات کی تو بتایا گیا کہ پاکستان میں بس یہی ٹیلنٹ ہے مگر ہمیں یقین نہیں آیا، بس یہی وہ موقع تھا جب ہم نے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام شروع کیا جو پورے پاکستان میں کیا گیا اور یہ اسی کا کردار ہے کہ پاکستان کو شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، زمان خان، فخر زمان سمیت کئی بڑے نام ملے۔
حارث رؤف کی تلاش کیسے ہوئی؟حارث رؤف سے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہ اسی ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام میں اپنے دوست کے ساتھ آئے تھے، اور اپنی قسمت کو آزمانے کے لیے انہوں نے بھی بولنگ کی، مگر ہم اس وقت حیران رہ گئے جب وہ 92 میل فی گھنٹہ سے بولنگ کرتے دکھائی دیے۔ اسی وقت ہم نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہمیں اس لڑکے کو گروم کرنا ہے، بس پھر حارث کے والدین سے اجازت لی اور 2 سال ہم نے اس لڑکے پر کام کیا اور آسٹریلیا بھی بھیجا تاکہ بہترین انداز میں ٹریننگ ہوسکے اور دیکھیے آج وہ ٹی20 کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا بولر بن چکا ہے۔
شاہین شاہ آفریدی کی فارم سے پریشانی نہیںجب عاطف رانا سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے کپتان شاہین شاہ آفریدی کی حالیہ پرفارمنس سے پریشان ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں، اگر پریشان ہوتے تو اسے اپنا اہم کھلاڑی قرار نہ دے رہے ہوتے، شاہین میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ جلد اپنی ردھم میں واپس آئے گا۔
عاقب جاوید اب بھی ہمارے ساتھ ہیںعاطف رانا سے پوچھا گیا کہ عاقب جاوید اب آپ کے ساتھ نہیں ہیں تو کیا ان کی یاد آئے گی تو انہوں نے کہا کہ کون کہہ رہا ہے کہ عاقب بھائی ہمارے ساتھ نہیں، ان سے بھائیوں والا تعلق ہے اور وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ ہاں وہ اس وقت پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہیں اور اگر وہاں رہتے ہوئے وہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی تلاش میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں تو اس سے بہتر بات اور کیا ہوگی؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جواد رانا عاطف رانا فہیم پٹیل کرکٹ لاہور لاہور قلندرز وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جواد رانا کرکٹ لاہور لاہور قلندرز وی نیوز لاہور قلندرز پاکستان میں نے بتایا کہ کہ پاکستان انہوں نے ٹیلنٹ کو نہیں ا کے لیے
پڑھیں:
ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
ماہرِ امور خارجہ کا پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماہرخارجہ امور محمد مہدی نے کہا کہ مئی کے حالیہ واقعات نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے تصورات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا امکان معدوم ہوچکا ہے، اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور روایتی جنگ میں بالادستی کا تصور بھی اب ختم ہو چکا ہے، بھارت کی بی جے پی حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ سائوتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیائی ممالک اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد مہدی نے کہا کہ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوابی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے امن کی اہمیت کو سمجھا تھا، مگر مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ خطے کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے موجودہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے سارک اور دیگر علاقائی ڈائیلاگ کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی تحریک اسی صورتحال کا نتیجہ ہے، جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے تو ان کے ردعمل کے طور پر اس قسم کی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو اس تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کیا جو ان کی سیاسی کامیابی کی وجہ بنی۔ محمد مہدی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بیروزگاری کا بحران تو ہر جگہ موجود ہے، مگر ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس کا سامنا کر رہا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی بے چینی اور تحریک اسی صورت حال کا آئینہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلا دیش کی تعلیمی سطح خطے کے کچھ دیگر ممالک سے بہتر سمجھی جاتی ہے مگر وہاں کے معاشی مسائل نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ دوسری جانب افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، جہاں بے روزگاری کی نوعیت اور شدت مختلف ہے، اس لیے ان ممالک میں بنگلا دیش جیسے حالات کا پیدا ہونا کم امکان ہے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
محمد مہدی نے کہا کہ ایران کا بھارت کیساتھ تعلقات میں بھی سردمہری آئی ہے، خاص طور پر جب بھارت نے ایران کیساتھ تعلقات میں تذبذب کا مظاہرہ کیا تو ایران نے بھارت کے رویے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار علاقائی تعاون کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بالخصوص مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتے۔ خطے کی بیوروکریسی اور حکومتی سطح پر اصلاحات تب تک ممکن نہیں جب تک جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ امن و تعاون کے راستے پر نہیں چلتے، اگر یہ ممالک ایک دوسرے کیساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات اور محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کیساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون کی سمت میں قدم بڑھائیں تو خطے میں ترقی اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔
محمد مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کی عوام کے درمیان بے چینی اور تناؤ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گڈ گورننس، شفاف میرٹ اور بہتر معاشی ماڈلز پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سیکرٹری پبلک ایڈمنسٹریشن و جنوبی ایشیائی نیٹ ورک سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، اورغربت کے خاتمے جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025 کا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ بالاکوٹ 2019 کے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019 میں، ہم ردعمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025 میں، ہم تیار تھے۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی اور بنگلہ دیش کی حکومت کے ریٹائرڈ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شریف العالم نے بھی خطاب کیا۔