Islam Times:
2025-09-18@14:04:35 GMT

قدس کی فتح میں خون کا راز

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

قدس کی فتح میں خون کا راز

اسلام ٹائمز: ظالموں نے ہمیشہ ان سروں کو تن سے جدا کیا ہے، جنہوں نے قیام کی کوشش کی ہے اور ان زبانوں کو کاٹ ڈالا ہے، جو ظالموں کیخلاف گویا ہوئیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ خاک پر گرے سرخ لہو نے ہمیشہ ظالموں کو ذلیل و رسوا کیا ہے اور لوگوں کے شعور کی سطح میں اضافہ کیا ہے۔ اسکے برعکس، جنہوں نے سکوت کا روزہ رکھا ہے، وہاں نہ صرف انکا سرخ لہو بے اثر رہا ہے بلکہ وہ تاریخ میں بشریت کیلئے ایک نشانِ عبرت بن گئے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں کس گروہ میں شامل ہونا ہے۔؟ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.

com

انسان فنا کے لئے نہیں بقاء کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ بقاء کے لئے آزادی شرط ہے۔ آزادی و حریت خون کے بغیر ممکن نہیں۔ زندگی، خون سے وابستہ ہے۔ خونِ خدا کے بغیر تاریخ مردہ جسم کی مانند ہے۔ نوک نیزے پر سید الشہداء علیہ السلام کا سر مبارک، خدا اور عاشقوں کے درمیان ایک راز ہے۔ اب یہ راز فاش ہوا ہے، لیکن شہداء کے علاؤہ کوئی اس راز کو نہیں سمجھ سکتا۔ زندگی کی رگوں میں گردشِ خون شیرین ہے، جبکہ معشوق کے قدموں میں بہا دینا اس سے بھی زیادہ شیرین ہے۔ اس لائق وہی لوگ ہیں، جن کے دل عشق سے اس قدر لبریز ہیں کہ اس میں موت کے خوف کو ٹھہرنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہی لوگ ابدی ہیں۔ ان لوگوں کا اشارہ، باتیں مقاومت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ جیسے شہید سید حسن نصراللہ، شہید سلیمانی، شہید یحییٰ سنوار، یہ وہ شخصیات ہیں، جنہوں نے اس راز خون کو فاش کرکے قدس کی آزادی کی بنیاد کو مزید مضبوط کرکے امت کو ایک عصر جدید میں داخل کیا ہے۔ یہ عصر، قدس کی آزادی کا عصر ہوگا۔

اس عصر کا آغاز، سردارانِ اسلام کے سرخ لہو سے ہوا ہے۔ جو بارش کے قطروں کی طرح بےحس اور بے شعور مسلمانوں کے اندر عشق و بصیرت، غیرت و حمیت اور حرّیت کا طوفان بپا کرے گا۔ شہید سید مرتضیٰ آوینی اپنی کتاب "گنجینہ آسمانی" اور "نسیم حیات" میں لکھتے ہیں کہ "زندگی بخش ہوائیں چل رہی ہیں، جو اپنے ساتھ بارش کی خوشخبری لے کر آتی ہے۔ ہوا سمندر کے دور دراز حصوں سے پانی کے قطروں کو جمع کرتی ہے اور لہریں اٹھاتی ہے۔ سمندر کی ہنگامہ خیزی اب قریب آنے والے طوفان کی خبر دے رہی ہے۔ وہ طوفان جو دنیا میں جہالت، ظلم اور استکبار کو انقلاب میں بدل دے گا اور ظالموں اور مستکبرین کو جو ناحق حکومت کرچکے ہیں، زمین بوس کرے گا اور مظلوموں اور مستضعفین کو زمین کا وارث بنائے گا۔"

شہید آوینی مزید لکھتے ہیں کہ "قدس اُس جراحت کا مظہر ہے، جس نے اُمتِ اسلامی کے دل پر وار کیا ہے اور یہ زخم خون کے علاوہ کسی چیز سے دھویا نہیں جا سکتا۔ کاہلی، تن آسانی اور اس پست دُنیا سے دل لگانے والوں کا راہِ قدس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ راہِ قدس، ایک دلیر جنگجو کا راستہ ہے اور دلیر جنگجو ہی کربلائی ہے اور کربلائی میدانِ عشق کا مرکزی کردار ہے؛ وہ سختیوں، مشکلات، سر کٹانے اور جان دینے سے نہیں ڈرتا! *آج میں قدس کی آزادی کے آغاز اور قرآن کے ناقابلِ تسخیر (تغییر) وعدے کی تکمیل کو محاذوں اور محاذوں کے پیچھے دیکھ رہا ہوں۔ سب حق بات ہی کہتے ہیں کہ *قدس کا راستہ کربلا سے ہے۔*"

کربلا کا راستہ آزادی کا راستہ ہے۔ حریت کا راستہ ہے۔ حریت اور آزادی خون کی طالب ہے۔ خون دیئے بغیر قومیں نہ فتح پاتی ہیں اور نہ غلامی سے نکل سکتی ہیں۔ غلامی سے آزادی تک کے درمیان فقط خون کا فاصلہ ہے۔ مستضعفین اگر علمی، فکری، دفاعی اور معاشی میدان میں عَلَم اٹھائیں اور اس راستے میں خون بہا دیں تو ظالمین پر فتح یقینی ہے۔ شہید آوینی اپنی کتاب "نسیم حیات" میں لکھتے ہیں کہ اگر مستضعفین (ایمانی، فکری، علمی، دفاعی اور معیشتی) طور پر مسلح ہو جائیں اور جو کچھ ان کے بس میں ہے، اسے صیہونیت اور دوسرے عالمی آقاؤں کے خلاف جنگ میں بروئے کار لائیں، تو دنیا کا نظام یکسر پلٹ جائے گا اور صالحین کی حاکمیت اور مستضعفین کی وراثت کا زمانہ آن پہنچے گا۔ شہید آوینی اپنی کتاب "نسیم حیات" میں اس کی شرط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "اگر علماء اپنے ازلی عہد و پیمان پر قائم اور وفادار رہیں، تو کوئی بھی ظالم حکومت نہیں کرے گا اور تمام روئے زمین پر عدل و انصاف قائم ہو جائے گا۔"

دنیا میں ظالم کی حاکمیت اس لیے ہے کہ مظلومین اور وہاں کے خواص اور علماء نے سکوت کا روزہ رکھا ہوا ہے اور جمہور کو ظالمین کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کا درس نہیں دے رہے ہیں۔ چاہے وہ غزہ ہو یا کشمیر، پاراچنار ہو یا شام، بلوچستان ہو یا بلتستان۔۔۔۔۔ جہاں بھی خواص اور علماء نے سکوت اختیار کیا ہے، وہاں ظالموں نے ہمیشہ قدرتی وسائل اور ذخائر پر قبضہ کیا ہے۔ ظالموں نے ہمیشہ ان سروں کو تن سے جدا کیا ہے، جنہوں نے قیام کی کوشش کی ہے اور ان زبانوں کو کاٹ ڈالا ہے، جو ظالموں کے خلاف گویا ہوئیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ خاک پر گرے سرخ لہو نے ہمیشہ ظالموں کو ذلیل و رسوا کیا ہے اور لوگوں کے شعور کی سطح میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے برعکس، جنہوں نے سکوت کا روزہ رکھا ہے، وہاں نہ صرف ان کا سرخ لہو بے اثر رہا ہے بلکہ وہ تاریخ میں بشریت کے لیے ایک نشانِ عبرت بن گئے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں کس گروہ میں شامل ہونا ہے۔؟

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جنہوں نے کا راستہ سرخ لہو نے سکوت کہ ہمیں کیا ہے ہے اور کے لئے قدس کی گا اور

پڑھیں:

سرزمین بلوچستان کا وقار، کیپٹن وقار احمد شہید

اسلام آباد:

سرزمین پاکستان شہداء کے خون سے سیراب اور وطن سے وفا کی ان گنت داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔

انہی داستانوں میں ایک بلوچستان کے ضلع لورالائی سے تعلق رکھنے والا جری فرزند کیپٹن وقار احمد شہید بھی ہے جو ملک و قوم کی سرفرازی پر فدا ہوگیا۔

 کیپٹن وقار احمد نے 15 نومبر 2025 کو ضلع کیچ میں دہشتگردوں کیخلاف لڑتے ہوئے دفاع وطن میں جام شہادت نوش کیا۔

کیپٹن وقار احمد شہید نے 4 سال تک دفاع وطن کا مقدس فریضہ سر انجام دیا اور اپنی جان تو قربان کر دی مگر پاکستان کے پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیا۔

کیپٹن وقار احمد شہید کی قربانی ہماری آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے، انکے سوگواران میں والدین اور بھائی شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سپیکر قومی اسمبلی کا حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بھٹ کے انتقال پر اظہار تعزیت
  • کرغیزستان: نئے میڈیا قانون کے تحت دو صحافیوں کو قید کی سزا
  • فکر سے عمل تک، نثار شاہ جی کی جہدوجہد
  • سابق چیئرمین کل جماعتی حریت کانفرنس پروفیسر عبدالغنی بٹ انتقال کرگئے
  • کراچی، گلشن معمار میں فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید
  • یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرس
  • مالدیپ میں متنازع بل منظور، صحافتی آزادی پر قدغن کے خدشات
  • عالمی برادری کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرے، حریت کانفرنس
  • بھارتی سکھ مذہبی آزادی سے محروم، مودی سرکار نے گرو نانک کے جنم دن پر یاترا روک دی
  • سرزمین بلوچستان کا وقار، کیپٹن وقار احمد شہید