Express News:
2025-09-18@14:10:21 GMT

جعلی کمپنی کے ذریعے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری بے نقاب

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

کراچی:

ڈائریکٹوریٹ کسٹمز پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ساؤتھ نے جعلی کمپنی کے ذریعے کروڑوں روپے مالیت کے ٹیکس چوری کو بے نقاب کرتے ہوئے میسرز سلیمان انڈسٹریز کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کاروائی کا آغاز کردیا. 

ڈائریکٹر پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کسٹمز ساوتھ شیراز احمد کے مطابق پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی جانب سے بعد از کلئیرنس آڈٹ کے دوران تحقیقات مذکورہ کمپنی کے کاروباری کاموں کی چھان بین کی گئی تو کمپنی کی مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی ہوئی جس پر ڈی جی پی سی اے ڈاکٹر ذوالفقار علی چوہدری نے کمپنی کی جانب سے مینوفیکچرنگ اسٹیٹس کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کی ہدایات جاری کی گئیں.

 

مزید پڑھیں: کسٹم نے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کی لیب رپورٹ غلط قرار دیدی

بعدازاں محکمہ کسٹمز، سیلزٹیکس اور انکم ٹیکس کے دستیاب اعداد و شمار کے تناظر میں آڈٹ ٹیم کو ابتدائی جانچ کے دوران ہی متعدد تضادات نشاندہی ہوئی، ان بے ضابطگیوں پر جب کمپنی کے مینوفیکچرنگ سائٹ کا فزیکلی معائنہ کیا گیا تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ رجسٹرڈ پتے پر دیے گئے کوئی بھی مشینری موجود نہیں اور کمپنی کے پاس مینوفیکچرنگ کی کوئی بھی مطلوبہ سہولت میسر نہیں تھی.

لیکن کمپنی کی جانب سے درآمدی مرحلے پر کسٹم ڈیوٹی و دیگر ٹیکس کی چھوٹ اور رعایتی ٹیکس کی شرحوں کا دعویٰ کرنے کے لیے اپنی مینوفیکچرنگ اسٹیٹس کا غلط استعمال کیا جارہا تھا. 

مزید پڑھیں: ٹیکس فراڈ، ناقص کارکردگی، مس کنڈکٹ پر ایف بی آر کے دو عہدیداروں کو سزا

تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مذکورہ کمپنی درآمد شدہ ایمبرائیڈری مشینوں سمیت رعایتی ٹیرف کی حامل دیگر اشیاکی مقامی فروخت میں بھی ملوث پائی گئی کمپنی کی جانب سے درآمد ہونیوالی اشیا کا حجم بھی اس کی مالی حالات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا جس نے سے پی سی اے ٹیم کو کمپنی کی ممکنہ منی لانڈرنگ کی سرگرمیوں کی تحقیقات شروع کرنے پر مجبور کیا. 
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ کمپنی کی بے قاعدگیوں سے درآمدات کی غیر قانونی فنانسنگ ہوئی اور 135 درآمدی گڈز ڈیکلیریشنز پر 2ارب 40کروڑ مالیت کی ایمبرائیڈری مشینیں درآمد کرکے 21 کروڑ 80 لاکھ روپے کی ڈیوٹی وٹیکسوں کی چوری کی گئی. 

مزید پڑھیں: آلاصف اسکوائر میں کسٹمز اور رینجرز کی کارروائی، اسمگل شدہ غیرملکی سگریٹس، نسوار برآمد

کمپنی کے معائنہ سے پتہ چلا کہ میسرز سلیمان انڈسٹریز نے کبھی بھی اپنی دستاویزات میں دیے گئے مینوفیکچرنگ پتے پر کام نہیں کیا۔پی سی اے ساو ¿تھ نے کسٹمز ایکٹ مجریہ 1969 کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے، جبکہ بوگس ادارے کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ مجریہ 2010 کے تحت تجارت پر مبنی مالی جرائم کے لیے ممکنہ الزامات کا بھی سامنا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی جانب سے کمپنی کے کمپنی کی

پڑھیں:

کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-6

 

میر بابر مشتاق

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ سے اپنے مسائل کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملک کے ریونیو کا 65 فی صد اور صوبہ سندھ کے ریونیو کا تقریباً 95 فی صد دیتا ہے، لیکن بدلے میں اسے جو سہولتیں ملنی چاہییں وہ آج بھی خواب ہیں۔ اس شہر کو چلانے والے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائیں گے، جدید انفرا اسٹرکچر فراہم کریں گے اور عوام کو معیاری سہولتیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی بارش کے چند قطروں سے مفلوج ہو جانے والا شہر ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ زمین کو شاداب کرتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور زندگی کو تازگی بخشتی ہے، لیکن بدقسمتی سے کراچی کے عوام کے لیے بارش کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہاں بارش کا مطلب ہے گھنٹوں کا ٹریفک جام، پانی میں ڈوبی سڑکیں، گھروں میں داخل ہوتا ہوا گندا پانی، بیماریاں، کاروبار کی بندش اور ناقص منصوبہ بندی کا کھلا تماشا۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے حکمران صرف دکھاوے کے منصوبے بناتے ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا ریلا آتا ہے، یہ منصوبے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔

کراچی میں 55 ارب روپے کی شاہراہ بھٹو اور 12 ارب روپے کی حب کنال صرف چند دن کی بارش میں بہہ گئیں۔ یہ وہی منصوبے تھے جن کے افتتاحی تقاریب پر حکومت نے کروڑوں روپے لٹائے، میڈیا پر اشتہارات چلائے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن چند دن بعد ہی یہ سب فراڈ بے نقاب ہو گیا۔ شاہراہ بھٹو کا ڈھانچہ بیٹھ گیا، حب کنال ٹوٹ گئی، اور عوام کے اربوں روپے مٹی میں مل گئے۔ یہ کسی ایک منصوبے کی بات نہیں، پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر انہی خامیوں کا شکار ہے۔سندھ حکومت نے ہمیشہ کراچی کے وسائل کو لوٹا اور شہر کو نظرانداز کیا۔ پچھلے پندرہ سال میں صوبائی فنانس کمیشن (PFC) کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ کراچی کو اس کے جائز حق کے 3360 ارب روپے نہیں دیے گئے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور جو منصوبے دیے بھی گئے، ان کا حال وہی ہوا جو شاہراہ بھٹو اور حب کنال کا ہوا۔ کراچی میں بارش کے بعد سب سے زیادہ ناکامی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نظام کی سامنے آئی۔ نکاسی آب کا نظام مفلوج ہو گیا۔ ندی نالے قبضہ مافیا اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ اورنگی نالہ، ناظم آباد، گلشن، گلبہار اور نارتھ ناظم آباد کے شہری بدترین اذیت میں رہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا، گاڑیاں ڈوب گئیں، کاروبار بند ہو گئے اور بیماریاں پھیلنے لگیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بیچارہ مرتضیٰ وہاب چند لاکھ کی نوکری کے بدلے میں کبھی حب کینال پر وزیراعلیٰ کی گندگی صاف کرتا ہے تو کبھی شاہراہ بھٹو پر زرداری کا داغدار چہرہ دھوتا ہے۔ یقین کریں، پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی نجی محفلوں میں ہنستے ہیں کہ کراچی والو کیسا دیا؟ کتنے سستے میں ہمیں یہ چغد مل گیا جو ہمارے کرپشن، تعصب اور بدمعاشی سے لتھڑے گندے چہرے کو صاف کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارا بے اختیار ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ کہے کہ میں با اختیار ہوں، حالانکہ نہ بلڈنگ کنٹرول میں اس کی بات چلتی ہے، نہ واٹر بورڈ میں، نہ سالڈ ویسٹ میں، نہ سڑکیں بنانے کے کلک میں۔ کراچی کے ووٹ کی پیپلز پارٹی کو ضرورت نہیں، بس کراچی کے وسائل کی ضرورت ہے جو وہ سامنے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ بیچارہ میئر نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا…

کراچی کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب سیاسی قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت کے نام پر لوٹ مار کی اور پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے حصے میں محرومیاں، تباہ حال سڑکیں، کچرا کنڈیاں اور بیماریاں آئیں۔ یہ کہاں کی ترقی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے بارش کے چند قطروں میں بہہ جائیں؟ کہاں کی حکمرانی ہے کہ شہری بارش کے پانی میں ڈوب کر بیماریاں برداشت کریں جبکہ حکمران افتتاحی تقریبات اور پریس کانفرنسوں میں خود کو کامیاب قرار دیتے رہیں؟ یہ دراصل جعلی ترقی کے منصوبے ہیں جن کا مقصد صرف کمیشن خوری اور سیاسی تشہیر ہے۔ ایسے حالات میں واحد جماعت جس نے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ نے کراچی کے عوام کو آواز دی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ عوامی حقوق کی جنگ ہے۔ جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو محدود اختیارات میں بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔

صرف دو سال کے اندر جماعت اسلامی نے کراچی میں وہ کام کیے جو پچھلے پندرہ سال میں صوبائی اور شہری حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ 86 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا گیا، جس سے 6 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 9 ٹاؤنز میں سیکڑوں ماڈل اسٹریٹس بنائی گئیں۔ رین واٹر ہارویسٹنگ کے کئی منصوبے شروع کیے گئے۔ 171 تباہ حال پارکس بحال کیے گئے۔ 42 اسکول اپ گریڈ کیے گئے اور ریکارڈ نئے داخلے ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب ہوئیں، جس سے ہزاروں گلیاں روشن ہوئیں۔ 30 ہزار سے زائد گٹر کے ڈھکن اور رنگز نصب کیے گئے۔ بورنگ کا پانی جو صرف 10 منٹ آتا تھا، اب ایک گھنٹے تک مستقل آنے لگا۔ نارتھ ناظم آباد میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا جدید نظام کامیاب ہوا۔ یہ تمام کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی نے سیاست نہیں بلکہ خدمت کی۔ اسی خدمت کی وجہ سے قابض میئر مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی پر تنقید کر کے حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور عوامی ردعمل کے دباؤ سے پریشان ہیں۔ کراچی کے عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ کس نے خدمت کی اور کس نے صرف بیانات دیے۔ میئر کے عہدے کا ادب اور آداب یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ترجیح دیں، لیکن افسوس کہ موجودہ میئر نے اس منصب کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو شہر کے ندی نالوں کو مستقل بنیادوں پر صاف کرنا ہوگا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی مکمل اصلاح ناگزیر ہے۔ نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنانا ہوگا۔ کراچی کو اس کا جائز مالی حصہ دینا ہوگا اور صوبائی فنانس کمیشن کو فوری طور پر بحال کرنا ہوگا۔

کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا ہنگامی ترقیاتی فنڈ فوری جاری ہونا چاہیے، اور اس میں سے ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے ملنے چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی شراکت داری اور نگرانی ضروری ہے تاکہ کرپشن اور ناقص کام کی گنجائش نہ رہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر بارش کے بعد وہی اذیت، وہی بیماریاں اور وہی وعدے دہرا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب کراچی کے عوام مزید دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر بار ان کی محنت کی کمائی کرپشن کے نذرانے میں ضائع کی جاتی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو جعلی ترقی اور کرپشن کے ایجنڈے کو مزید سہنے کے بجائے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو اختیار سے بڑھ کر خدمت کرے۔ جماعت اسلامی نے عملی مثال دے دی ہے کہ دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی کمپنی کو عالمی مارکیٹ سے بیف کے کروڑوں روپے کے آرڈرز مل گئے
  • آزاد کشمیر پولیس کے لیے اینٹی رائیٹ کٹس اور یونیفارم الاؤنس کی منظوری، کروڑوں روپے مختص
  • سوست پورٹ ہڑتال، شرپسند عناصر کی ذاتی مفاد پرستی، اصل حقائق بے نقاب
  • کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
  • خیبر پختونخوا کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ میں کروڑوں کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
  • جعلی فٹبال ٹیم کے ذریعے انسانی اسمگلنگ، جاپان سے 22افراد ڈی پورٹ
  • انسانی اسمگلرز کا نیا طریقہ واردات بے نقاب، ملزم گرفتار
  • محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ خیبر پختونخوا میں کروڑوں کی بےقاعدگیوں کا انکشاف
  • فیس لیس کسٹمز سسٹم سے خزانے کو 100 ارب روپے نقصان کی رپورٹ غلط قرار
  • وزیراعظم نے اسلام آباد میں زمینوں پر قبضے اور جعلسازی کی تحقیقات کیلیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی