Islam Times:
2025-11-03@14:33:49 GMT

حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کا وعدہ

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کا وعدہ

مزاحمتی دھڑے کی وفاداری کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت کے پاس جنوبی لبنان پر قبضے کے خاتمے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یا تو مذاکرات کے ذریعے، یا فوجی آپریشن کے ذریعے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان میں حزب اللہ کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ نے زور دیا ہے کہ صہیونی حکومت کے پاس جنوبی لبنان سے قبضہ ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں؛ چاہے وہ مذاکرات کے ذریعے ہو یا فوجی کارروائی کے ذریعے۔ فارس نیوز کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے وفاداری برائے مزاحمت بلاک کے سربراہ محمد رعد نے جمعرات کے روز اس بات پر تاکید کی کہ کسی بھی طریقے سے، صہیونی حکومت کے قبضے کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے حزب اللہ کی خواتین عہدیداروں کے ایک گروپ سے ملاقات کے دوران کہا کہ حزب اللہ لبنان میں موجود تھا، موجود ہے اور رہے گا۔ یہ قبضے، ظلم اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ 1982 میں اپنی تشکیل کے بعد سے لبنانی عوام کے لیے ایک کامیاب نمونہ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ نے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں کیونکہ اس نے 1993، 1996 اور 2000 میں دشمن کو شکست دی۔ اسی طرح 2006 میں عالمی جنگ کا سامنا کرتے ہوئے اسرائیل کو شکست دی۔ اس وقت اسرائیل لبنان میں پانچ پہاڑی علاقوں پر قابض ہے۔

صہیونیوں کا کہنا ہے کہ جب تک حزب اللہ اپنے ہتھیار نہیں ڈال دیتا اور لبنانی فوج سرحدی علاقوں کا کنٹرول نہیں سنبھال لیتی، وہ ان علاقوں سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ لبنانی فوج نے ابھی تک صہیونیوں کے خلاف کوئی عملی کارروائی نہیں کی، اور لبنانی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ سفارتی ذرائع اور مذاکرات کے ذریعے اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ صہیونی حکومت صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے، اس لیے فوجی کارروائی کے ذریعے صہیونی افواج کو ان اسٹریٹجک علاقوں سے نکال باہر کرنا ہوگا۔

محمد رعد نے صہیونی حکومت کی جارحانہ اور نسل پرستانہ فطرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی جانب سے طوفان الاقصی آپریشن (اکتوبر 2023) کو دشمن کے لیے ایک تکلیف دہ ضرب قرار دیا اور کہا کہ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ دشمن اپنی ہوش کھو بیٹھا۔ اس کے فوراً بعد امریکہ نے فضائی حملے شروع کیے، سیٹلائٹس اور اسمارٹ میزائل اسرائیل کی مدد کے لیے بھیجے گئے۔

نیٹو کے تمام رکن ممالک نے بھی اپنی خفیہ معلومات صہیونیوں کے ساتھ شیئر کیں تاکہ لبنان کے خلاف اسرائیلی حملوں میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کی مزاحمت نے اسرائیل پر حملہ کرنے کا فیصلہ لبنان کے دفاع اور غزہ کے عوام کی حمایت میں کیا۔ اسرائیل نے لبنان پر بڑے پیمانے پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ حزب اللہ کو ختم کیا جا سکے، لیکن وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس لیے اس نے جنگ کو ملتوی کیا اور اسے پیجر بم دھماکوں جیسے حملوں کے ذریعے قتل و غارت کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔

27ستمبر کو لبنان میں ریڈیو کمیونیکیشن ڈیوائسز (پیجرز) کے دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد شہید اور 4000 سے زائد زخمی ہوئے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ لبنان میں دھماکوں کا سبب بننے والے پیجرز اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے تیار کردہ تھے اور انہیں اسرائیل میں اسمبل کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ یہ پیجرز اسرائیل میں بارودی مواد سے لیس کیے گئے تھے تاکہ استعمال کرنے والے افراد کے دونوں ہاتھ ضائع ہو جائیں اور وہ اسرائیل کے خلاف لڑنے کے قابل نہ رہیں۔

محمد رعد نے مزید کہا کہ حزب اللہ جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے، حالانکہ اسے معلوم ہے کہ دشمن اس معاہدے پر عمل نہیں کرے گا۔ حزب اللہ لبنان کے دفاع کے لیے پرعزم ہے اور وہ ہر ممکن قدم اٹھائے گا تاکہ اسرائیل کو جنوبی لبنان سے نکالا جا سکے۔انہوں نے یہ کہتے ہوئے اختتام کیا کہ موجودہ مرحلے میں حزب اللہ کی ترجیحات سفارت کاری، مزاحمت یا دونوں طریقوں سے قبضے کو مکمل طور پر ختم کرنا، لبنان کی تعمیر نو، لبنان کی خودمختاری کا تحفظ، ڈھانچے کی اصلاح اور قومی شراکت پر تاکید کرنا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کہا کہ حزب اللہ صہیونی حکومت انہوں نے لبنان کے کے ذریعے کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

کس پہ اعتبار کیا؟

اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین  تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط  بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔

ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔

ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل  کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔

ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار  فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔

حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔

ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔

خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 افراد شہید
  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 فلسطینی شہید
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • اسرائیل  نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ناصر اسپتال کے حوالے کردیں