پچھلے ہفتے بہت سی باتیں ہوئیں اور سب ہی  سنانے کو جی چاہتا ہے۔

امریکا جو ہمارا محبوب بھی ہے اور دشمن جاں بھی، جہاں پہنچنے کو ہر کسی کا جی چاہتا ہے مگر گالی بھی اسی کو دی جاتی ہے۔ عجیب محبت و نفرت کا رشتہ ہے۔۔۔

25،30 برس پہلے پاکستانی عوام ان ممالک میں شامل تھے جو ویزالاٹری میں درخواست ڈال سکتے تھے۔ سچ پوچھیے تو لاٹری وغیرہ پر یقین کچھ کم ہی تھا کہ ہمارا کبھی 4 پیسے کا انعام نہیں نکلا کجا امریکی ویزا اس لیے درخواست ڈالنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ لیکن ہم چونکے اس دن جب صاحب کے کزن نے بوریا بستر لپیٹا یہ کہتے ہوئے کہ لاٹری میں نام آ گیا ہے۔

بہت لوگ امریکا گئے، وہاں آباد ہوئے مگر امریکا جانے کا مطلب یہ نہیں تھا  کہ اپنی اولاد کو امریکی بننے کی چھوٹ دے دی جائے، خاص طور پہ بیٹیوں کو۔۔۔ بھلے وہ امریکی اسکول جائیں، امریکی بچوں کے ساتھ پڑھیں، دن رات اس کلچر میں رہیں مگر صاحب ان کا رہن سہن طور طریقہ اماں ابا کے آبائی وطن جیسا ہی ہونا چاہیے۔ اماں ابا کیوں پرواہ کریں کہ اسکولز میں ساتھی بچے ان کا مذاق اڑاتے ہیں، 21ویں صدی میں رہتے ہوئے پچھلی صدی میں زندگی بسر کرنے کی جستجو، پاگل پن ہی تو ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تھیلی وقت سے پہلے کیوں پھٹ گئی؟

ہم میں سے بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ٹین ایج سے گزرتا بچہ طبعی طور پہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہوتا ۔۔۔ نہ وہ بچہ ہے اور نہ بڑا ۔۔۔ بیچ میں کہیں جھولتا ہوا، تبدیلی کے پل سے گزرتا بچہ کس قدر خوفزدہ اور شکوک وشبہات کا شکار ہے، یہ کوئی نہیں جان پاتا۔ اور اگر یہ بچہ ایشیائی ہو تو مرے پہ سو درے ۔۔۔ ایشیائی ماں باپ کی خونخوار نظریں، دن رات کی نصیحتیں، بچوں کو بدیس سے واپس دیس لے جانے کی ترکیبیں، جلد از جلد نکاح پڑھوانے کے منصوبے تاکہ ان کی لڑکی کہیں ویسی امریکی نہ بن جائے جنہیں دیکھ کر وہ لاحول پڑھتے ہیں ۔۔۔ ناسمجھ لوگ، پودا بدیسی زمین میں لگا کر چاہتے ہیں کہ پھل دیسی آئے۔ ایک اور ستم ظریفی یہ کہ بیٹوں کی طرف سے آنکھ بند کر لی جاتی ہے کہ غیرت وغیرہ کا مسئلہ نہیں ہوتا مگر بیٹیوں کی طرف سے چوکنی آنکھیں مزید کھول لی جاتی ہیں کہ کہیں کوئی پرندہ بھی نہ پر مارے۔

یہ تمہید کیوں باندھی گئی ہے وہ تو ہم بعد میں بتائیں گے پہلے یہ سن لیں کہ پچھلے ہفتے نیٹ فلیکس پر adolescence نامی ڈرامہ ریلیز ہوا جس نے سب والدین کے پاؤں نیچے سے زمین نکال دی۔

13 سالہ بچہ اپنی ہی عمر کی کلاس فیلو لڑکی کو قتل کردیتا ہے۔  وجہ ٹین ایج بچوں میں رونما ہونے والی جنسی تبدیلیاں، خود کو نااہل سمجھنے کی غلط فہمی، ساتھی بچوں کی طرف سے تضحیک، تحقیر اور مذاق، سوشل میڈیا ایپس اور استعمال ہونے والے وہ اشارے اور زبان ہیں جو میں اور آپ سمجھ ہی نہیں سکتے۔ جب سمجھ نہیں سکتے تو بچوں کو سمجھا کیا سکتے ہیں؟

مزید پڑھیے: نومولود کو دھاتی چمچ پسند نہیں!

قتل کی تحقیق کرنے والے پولیس آفیسر کو جب قتل کرنے کی وجہ ڈھونڈنے میں ناکامی ہوتی ہے تو اس کی  مدد کرنے کے لیے اسی کا ٹین ایجر بیٹا سامنے آتا ہے جو باپ کو اِدھر اُدھر سر پٹختے دیکھ کر جان چکا ہے کہ ہماری دنیا کی بات باپ کی سمجھ میں آنے والی نہیں خواہ وہ Detective ہی کیوں نہ ہو۔

سوچییے برطانوی پولیس آفیسر ان اشاروں کی زبان نہیں سمجھتا تو ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟

21ویں صدی کے اس دور میں سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور مختلف gadgets  نے پوری دنیا کی نئی نسل کو آپس میں جوڑ تو دیا ہی ہے لیکن وہ ایک نئی دنیا میں بھی داخل ہو گئے ہیں جس کے متعلق والدین کچھ نہیں جانتے۔ کسی سے بھی کچھ چھپا ہوا نہیں اور کوئی بھی کچھ بھی دیکھ سکتا ہے۔ مختلف گھروں / کلچر / معاشروں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے تو یہ اور بھی مشکل ہے کہ گھر کے بڑوں کا پریشر بھی برداشت کریں اور باہر کے ساتھیوں کی طعن و تشنیع بھی۔

لمحہ فکریہ ہے لیکن کیا کیا جائے؟ جدید دنیا کے آندھی کی مانند بدلتے تقاضوں سے بچے تو بوکھلائے ہوئے ہیں ہی، ساتھ میں جاہل والدین نے زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔  لیکن کیا اس کا حل یہ ہے کہ بچوں کو موت کے گھاٹ اتار کر سمجھا جائے ہم پُگ گئے اور عزت بچ گئی۔ ایسا کرنے والے کو احمقوں کی جنت کا باسی ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

لیکن کیا کریں وطن عزیز سے اٹھ کر ایسے بے شمار احمقان دنیا بھر میں اپنی جنت بنا چکے ہیں جنہیں رہائش کے لیے تو جدید دنیا چاہیے مگر لوازمات پچھلی صدی والے، جس میں بیٹی کو نکیل ڈال کر بھیڑ بکری کی طرح ہانکا جاتا تھا۔ وقت پہ چارہ، ادھر ادھر جانے کی پاداش میں ہاتھ میں پکڑی سوٹی کا بے دریغ استعمال  اور ضرورت پڑنے پر قربانی۔

لیکن ہوا کا رخ بدلنے کے ساتھ ساتھ جدید دنیا کی بچی کو علم ہے کہ وہ دوسرے درجے کی شہری نہیں۔ جتنی ڈھیل اس کے بھائی کو دی جاتی ہے وہ بھی اسی کی مستحق ہے۔

آغاز میں ہم نے جو تمہید باندھی تھی، اس کی طرف آتے ہیں۔

نیویارک میں پیدا ہونے والی پاکستانی ماں باپ کی 14 سالہ بیٹی پاکستان واپس لا کر قتل کر دی جاتی ہے۔ 25 برس پہلے پاکستانی باپ امریکی لاٹری کے ذریعے امریکا پہنچا، ٹیکسی ڈرائیونگ سے روزی کمائی، 3 بیٹیوں کا باپ بنا اور پھر یاد آ گیا کہ اس کی خاندانی روایات کے مطابق لڑکیوں کو اس قدر ڈھیل نہیں دی جا سکتی۔

بیٹی کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ ابا کو پسند نہیں آیا، بیٹی اکاؤنٹ بند کرنے پر راضی نہیں ہوئی سو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس بچی کو اگلی دنیا روانہ کر دیا جائے۔ زمینی خداؤں کی غیرت کے بھی کئی تقاضے ہوتے ہیں جن میں سب سے اہم بیٹیوں اور بہنوں کو موت کے حوالے کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: بچے کا سر بے ڈھب کیوں ہے؟

نیویارک میں رہتے ہوئے تو یہ ممکن نہیں سو بچی کو پاکستان گھمانے کے بہانے لایا جاتا ہے گھومنا پھرنا، شاپنگ کروانا ۔۔۔ بچی بے انتہا خوش نظر آتی ہے اور اس تفریح کی تصویریں و وڈیوز اپنے امریکی دوستوں کو بھیج کر بتاتی ہے کہ وہ کس قدر خوش ہے۔

غالباً ابا بیٹی کو قربان کرنے سے پہلے دنیا / خاندان کو یہ امپریشن دینا چاہتا تھا کہ اسے بیٹی سے کس قدر محبت ہے۔ اس مصنوعی محبت کے ساتھ ساتھ وہ بچی کے ماموں سے مل کر بچی کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔

سنگدلی کی انتہا دیکھیے کہ دو مرد، باپ اور ماموں، 14 برس کی بچی کو قتل کرنے کے منصوبے تیار کر رہے ہیں اور بچی باپ اور ماموں کے ساتھ خوشی اور اعتماد سے دن گزار رہی ہے۔

آخر ڈکیتی کا رنگ دیتے ہوئے بچی کو دن دہاڑے گولی مار دی جاتی ہے اور بچی باپ کو پکارتے پکارتے مر جاتی ہے یہ جانے بغیر کہ وہی اس کا قاتل ہے۔

یہ بھی پڑھیے: میرا یہ حال کیوں ہوا؟ 

نیویارک ٹائمز نے حرا کی کہانی سیاق و سباق کے ساتھ لکھی ہے۔ اور ایک ایسے وقت میں جب پاکستانیوں کو امریکی ویزا دینے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ حرا کے متعلق سوچتے ہوئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاید ایسا کرنا ٹھیک ہی ہے۔

اگر والدین بیٹیوں کو غاروں کے زمانے میں رہ کر پروان چڑھانا چاہتے ہیں تو پھر امریکا جانے کی کیا ضرورت ؟ دیس ہی بھلا، جہاں جب چاہیں خود گردن اتاریں، جب چاہیں کسی اور ظالم کے حوالے کرکے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے اپنی غیرت کے قصے سنائیں چاہے غیرت کی بنیادوں میں بے شمار عورتوں کا لہو ہی کیوں نہ ہو۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

14 سالہ حرا کا قتل امریکا میں پاکستانی لڑکیاں امریکی لڑکی کا پاکستان میں قتل پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کوئٹہ میں باپ کے ہاتھوں بیٹی قتل.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 14 سالہ حرا کا قتل دی جاتی ہے کے ساتھ ہے اور بچی کو قتل کر کی طرف کے لیے

پڑھیں:

ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ

واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )امریکہ کے وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کی جانب سے مبینہ طور پر ایک گروپ چیٹ میں یمن پرحملے کی تفصیلات شیئر کیے جانے کے بعد انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی ان کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں نجی چیٹ گروپ میں امریکی وزیر دفاع کی اہلیہ، بھائی اور ان کے ذاتی وکیل بھی شامل تھے.

(جاری ہے)

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں ہر کوئی ان سے خوش ہے امریکی جریدے کے مطابق وائٹ ہاﺅس حکام نے اس واقعے کی سنگینی کو کم کر کے دکھانے کی کوشش کی ہے تاہم صدرٹرمپ نے اس کی تردید نہیں کی انہوںنے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں وزیر دفاع پر کافی بھروسہ ہے انہوں نے کہا کہ یہ وہی پرانا کیس ہے جسے میڈیا دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے.

ہیگستھ کی سگنل چیٹ کی خبر سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے شائع کی تھی تاحال ہیگسٹھ نے ان خبروں پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جبکہ وائٹ ہاﺅس کی جانب سے نیویارک ٹائمز کو بھیجے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس چیٹ میں کوئی خفیہ معلومات شیئر نہیں کی گئیں جبکہ نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ”ڈیفنس ٹیم ہڈل“ نامی یہ نجی گروپ ہیگستھ نے خود بنایا تھا اور15 مارچ کو چیٹ گروپ میں بھیجے گئے پیغام میں حوثی جنگجوﺅں پر حملے میں حصہ لینے والے جنگی جہازوں کی تفصیلات اور شیڈول تک شامل تھا.

امریکی وزیردفاع ہیگستھ کی بیوی جینیفر فاکس نیوز کی سابق پروڈیوسر ہیں اور ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے اس سے قبل ہیگستھ کو اپنی بیوی کو غیر ملکی راہنماﺅں کے ساتھ حساس نوعیت کی ملاقاتوں میں اپنے ہمراہ لے جانے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا ہیگستھ کے بھائی اور ان کے ذاتی وکیل ٹم پارلا وزارتِ دفاع کے عہدیدار ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ ان تینوں افراد کو یمن میں امریکی حملے کی پیشگی اطلاع کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اعلیٰ امریکی عہدیداروں کو ”سگنل“ چیٹ گروپ میں حساس معلومات شیئر کرنے پر تنقید کا سامنا ہے اس سے قبل گذشتہ ماہ بھی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے ایک صحافی کو سگنل ایپ کے ایک ایسے گروپ چیٹ میں شامل کر لیا تھا جہاں اعلیٰ امریکی حکام حوثی جنگجوﺅں پر حملے کے منصوبے کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے تاہم یہ گروپ امریکی مشیربرائے قومی سلامتی مائیکل والٹزکی جانب سے بنایا گیا تھا”سی بی ایس“ نیوز نے بھی اپنے ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ اس معاملے میں ہیگستھ نے نجی چیٹ گروپ میں یمن میں جاری فضائی حملوں کے بارے میں تفصیلات شیئر کی تھیں گذشتہ ماہ” دی ایٹلانٹک “میگزین کے چیف ایڈیٹر جیفری گولڈ برگ نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں سگنل میسیجنگ ایپ کے ایک ایسے گروپ میں شامل کیا گیا تھا جس میں قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز اور نائب صدر جے ڈی ونس نامی اکاﺅنٹ بھی شامل تھے گولڈبرگ کے مطابق انہوں نے حملوں سے متعلق ایسے خفیہ فوجی منصوبے دیکھے ہیں جن میں اسلحہ پیکجز، اہداف اور حملے کے اوقات بھی درج تھے اور یہ بات چیت بمباری ہونے سے دو گھنٹے پہلے ہو رہی تھی.

گولڈ برگ کا کہنا تھا کہ امریکی حکام کی قسمت اچھی تھی کہ ان کے نمبر کو گروپ میں شامل کیا گیا تھا ان کے مطابق کم از کم یہ کسی ایسے شخص کا نمبر نہیں تھا جو حوثیوں کا حامی تھا کیونکہ اس چیٹ گروپ میں ایسی معلومات شیئر کی جا رہی تھیں جس کے نتیجے میں اس آپریشن میں شامل افراد کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا.

متعلقہ مضامین

  • لاہور: بندوق کی نوک پر نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی، ویڈیوز بناکر بلیک میل کرنے والا رشتے دار گرفتار
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
  • شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر
  • پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
  • بھارتی اقدامات پر فوری ردعمل دنیا مناسب نہیں ہے
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن: چین کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعلان
  • دھمکی نہیں دلیل
  • ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ
  • اینکر اور ٹک ٹاکر سجل ملک کی مبینہ نازیبا ویڈیو کا معاملہ جھوٹا نکلا
  • اینکر اور ٹک ٹاکر سجل ملک کی نازیبا ویڈیو کا معاملہ جھوٹا نکلا