UrduPoint:
2025-06-09@03:08:12 GMT

ٹرمپ کے جوہری مذاکراتی خط کا جواب دے دیا، ایران

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

ٹرمپ کے جوہری مذاکراتی خط کا جواب دے دیا، ایران

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2025ء) ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ارنا پر وزیر خارجہ عباس عراقچی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے خط کے '' سرکاری جواب میں‘‘ موجودہ صورتحال کے بارے میں ایران کی پوزیشن کی مکمل طور پر وضاحت پیش کی گئی ہے۔

عراقچی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ایران کی طرف سے جوابی خط عمان کو بھیجا گیا ہے جس نے ماضی میں امریکہ اور ایران کے سفارتی تعلقات کی عدم موجودگی میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے تاہم جواب کے متن اور اس کی نوعیت کی تفصیلات نہیں بتائیں نہ ہی یہ واضح کیا کہ یہ خط کب بھیجا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا بیان

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو ان دونوں کیریبیئن خطے کے دورے پر ہیں۔

(جاری ہے)

اس دورے کے لیے پروازکے دوران جہاز پر صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا امریکہ کو ایران کا کوئی خط موصول ہوا ہے، تو ان کا جواب تھا،''میں ابھی اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔

‘‘ انہوں نے تاہم کہا کہ امریکہ توقع کر رہا ہے کہ ایران کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے آئے گا اور یقیناً اُس وقت صدر ٹرمپ یہ فیصلہ کریں گے کہ ان کا اگلا قدم کیا ہوگا۔

چین، روس اور ایران کا تہران پر پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے 2018 ء میںایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک طے شدہ معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا، اب کہتے ہیں کہ وہ تہران کے ساتھ سفارتی بات چیت چاہتے ہیں۔

ٹرمپ نے ایران کو خط کب بھیجا؟

امریکی صدر نے مارچ کے اوائل میں یہ انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طرف تہران پر اضافی پابندیوں کے اپنے پروگرام کو ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کے اظہار کے ساتھ آگے بڑھایا اور ساتھ ہی ایران کو دھمکی دی کہ اگر اس نے مذاکرات سے انکار کیا تو اُس کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے گی۔

ایرانی وزیر خارجہ عراقچی کے بقول،''ہماری پالیسی یہ ہے کہ 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ اور فوجی کارروائی کے خطرے کے تناظر میں براہ راست (واشنگٹن کے ساتھ) بات چیت نہیں کی جائے گی، لیکن بالواسطہ مذاکرات جیسے کہ ماضی میں ہوئے تھے، جاری رہ سکتے ہیں۔‘‘

ٹرمپ کا عراق کو ایران سے بجلی خریدنے کی چھوٹ ختم کرنے کا فیصلہ ’غیر قانونی‘، تہران

ایران امریکی سفارتی تعلقات کی تاریخ

ایران اور امریکہ کے درمیان 1980 ء سے سرکاری سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

تاہم، دونوں ممالک نے تہران میں سوئس سفارت خانے، جو ایران میں امریکی مفادات کی نمائندگی کرتا ہے کے ذریعے بالواسطہ طور پر روابط قائم رکھے۔ عمان نے بھی ماضی میں امریکہ اور ایران کے مابین ثالث کا کردار ادا کیا اور کسی حد تک قطر نے بھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مذکورہ خط متحدہ عرب امارات نے ایران کو پہنچایا تھا۔

ایران نے امریکہ اور چین سمیت بڑی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کے بعد 2015 میں اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کے معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔

امریکہ مذاکرات میں بے پروائی برت رہا ہے، ایرانی سپریم لیڈر

مغربی حکومتوں کو کئی دہائیوں سے شبہ ہے کہ تہران جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔ اس الزام کی ایران تردید کرتا رہا ہے۔ تہران اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام فقط سویلین مقاصد کے لیے ہے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں عالمی جوہری معاہدے سے امریکی انخلا کے بعد ایران ایک برس تک اس معاہدے کا بہ ظاہر احترام کرتا رہا۔

نئی امریکی پابندیاں 'غیر قانونی' اور 'غیر منصفانہ'، ایران

امریکی دستبرداری کا فیصلہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی وجہ سے ہوا، جو اس معاہدے میں شامل نہیں تھا اور جسے واشنگٹن ایک خطرہ سمجھتا تھا۔

ک م/ ع ت (اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے کیا تھا کے ساتھ رہا ہے

پڑھیں:

ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول

واشنگٹن+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا  ہے کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، اب انہیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے  کو دیے گئے انٹرویو میں  انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ 1.7ارب افراد کی تقدیرکو غیر ریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ دورِ صدارت میں پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کو اس بہتری کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور، ایلیسن ہوکر سے ایک مفید اور تعمیری ملاقات کی۔ رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے قیام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مکالمے کی راہ ہموار کرے گی۔ وفد نے بھارت کی بلااشتعال جارحیت، مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا میرے بچے یا بھارتی نوجوان نسل پانی‘ کشمیر یا دہشتگردی پر لڑائی لڑیں۔ پاکستان کشمیر‘ دہشتگردی‘ آبی تنازعات کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی۔ اب بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ پاکستانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو  ثبوت ہو یا نہ ہو  اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں  نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان بھارت جنگ میں امریکی کردار کو سراہا۔ امریکی وفد میں کانگریس رکن جیک برگمین، ٹام سوزی، ریان زنکے، میکسن واٹرز، ایل گرین، جوناتھن جیکسن، ہینک جانسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئلار اور دیگر اراکین شامل تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس وفد کو امن کا مشن دیا ہے، اس مشن میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے، جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت اور پاکستان، جنوبی ایشیا اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی۔ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ثبوت ہو یا نہ ہو، اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اراکین کانگریس سے ملاقات میں بلاول زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی بھارتی کی جانب سے یکطرفہ معطلی کے ممکنہ نتائج سے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے۔ اگر بھارت نے  یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے اور اپنی قوت امن کے پیچھے لگا ئے تو وہ بھارت کو سمجھا سکتا ہے۔ مسائل کو حل کرنا ہے تو بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا ئے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔ بعدازاں امریکی کانگریس ارکان نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پا کستانی وفد کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ علاوہ ازیں امن کے مشن نے امریکی کانگریسی استقبالیہ میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ اعلامیہ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں عشائیہ دیا۔ پارلیمانی وفد نے عشایئے میں دو جماعتی امریکی قانون سازوں کے گروپ سے ملاقات کی۔ تقریب میں جیگ برگمین ‘ ٹام سوزی‘ ریان زنکے‘ میکسن واٹرز‘ ایل گرین‘ جارج لیٹمیر‘ کلیوفیلڈز، مائیک ٹرنر‘ رائل مور‘ جوناتھن جیکسن‘ ہینک جانسن‘ انیسٹی پلاکٹ‘ ہنری کیوئلار نے شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے خطے میں امن و استحکام کی  اہمیت کو اجاگر کیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک نیا سٹرٹیجک ’’نیو ایبنارمل‘‘ ترتیب دے رہا ہے۔ یہ نیو ایبنارمل معمول کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت علاقائی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت امن کے بجائے کشیدگی سے نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔    

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے جوہری پروگرام سے متعلق انتہائی حساس دستاویزات ایران کے ہاتھ لگ گئیں
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • جوہری معاہدے پر بڑھتی کشیدگی، ایران کی یورپ اور امریکہ کو وارننگ
  • امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ کردیئے
  • امریکہ کون ہوتا ہے؟
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول
  • افریقی ملک چاڈ کا ٹرمپ کی پابندی پر دوٹوک جواب: امریکیوں کے ویزے روک دیے
  • پوٹن کی ایران، امریکہ جوہری مذاکرات میں ثالثی کی پیشکش
  • ٹرمپ اور شی میں فون کال کے بعد تجارتی مذاکرات آگے بڑھانے پر اتفاق