مشہور کہاوت ہے کہ کراچی چلتا ہے تو پاکستان پلتا ہے۔ یہ بھی اکثر سننے میں آتا ہے کہ تہواروں کے دوران کراچی میں اربوں روپے کی تجارت ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ کہاوت آج بھی کراچی پر صادق آتی ہے؟ کیا آج بھی عید پر یہاں اربوں روپوں کا کاروبار ہوتا ہے؟ کیونکہ حکومت دعوے کر رہی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔

مذکورہ بالا سوالات کے جوابات جانتے ہیں کراچی کے تاجروں سے کہ وہ اس بار بھی عید اربوں روپے کمانے کی توقع رکھتے ہیں یا صورت حال مختلف ہے؟

کواپریٹو مارکیٹ کے صدر اسلم خان کا کہنا ہے کہ مہنگائی عروج پر ہے اور لوگوں کی گہما گہمی نظر نہیں آئی۔ عوام کے ہاں قوت خرید نہیں رہی ہے۔ تہواروں میں گہما گہمی عروج پر ہوا کرتی تھی لیکن اس سال حالات بہت خراب ہیں۔ اگر مہنگائی کی بات کی جائے تو ہر آئیٹم 25 سے 100 فیصد تک مہنگا ہوچکا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ شہریوں کو جتنا  زیادہ ریلیف دے سکیں دے دیں جس کا فائدہ ہمیں بھی پہنچے گا لیکن یہاں نہ ہم کچھ کر پارہے ہیں نہ ہی شہری گھروں سے نکل پا رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے جب جیب میں کچھ ہے نہیں تو کیا کریں گے لوگ؟

اسلم خان کا کہنا ہے کہ کراچی چلے گا تو ملک چلے گا۔ بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں ہیں۔ اس سے پہلے ریکارڈ تجارت ہوتی تھی اور ملکی معیشت کو فائدہ پہنچتا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ عوام کی اس وقت حالت کیا ہے۔ عوام جب خرچ کرتے ہیں تو ہمارا کاروبار چلتا ہے، ملک کا پہیہ چلتا ہے لیکن عوام اس قابل ہی نہیں رہے کہ ہم یہ کہہ سکیں، اس بار بھی ریکارڈ خریداری ہوئی اور اس کا فائدہ پہنچا ہے۔

کراچی کے تاجر محمد دانش خان نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ 2024 کے مقابلے میں 2025 میں قوت خرید بہت کم ہو گئی ہے جس کی وجہ مہنگائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر میں استعمال ہونے والی ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے۔ اس کا اثر ہمارے تہواروں پر بھی پڑا ہے۔

دانش خان بتاتے ہیں کہ اگر اس کی حقیقت جاننی ہے تو آپ کراچی کی مشہور مارکیٹوں کا رخ کریں جو پہلے کے مقابلے میں آپ کو بالکل خالی ملیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اس معاملے میں دلچسپی لے گی اور مہنگائی پر قابو پا لے گی۔ اگر کوئی جیب میں 2000 ہزار روپے لیکر نکلتا ہے تو اسے وہ آئیٹم خریدنا مشکل ہوتی ہے جس کے لیے وہ گھر سے نکلا ہے۔

تاجر فیصل احمد کا کہنا ہے کہ اس سال 60 فیصد تجارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ حال ہر چھوٹی بڑی مارکیٹ کا ہے۔ گھر کا سربراہ اپنے لیے کچھ لے، بچوں کے لیے کچھ خریدے یا کچن چلائے؟ مہنگائی ہر ایک چیز میں ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں تو آگ لگی ہوئی ہے۔ ایک سفید پوش عزت سے گھر کا چولہا چلا لے، یہی بڑی بات ہے۔

فیصل احمد نے ایک مثال دی کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ شب قدر کا سوٹ جمعۃ الوداع کا سوٹ اور ایسے ہر گھر میں درجنوں سوٹ جاتے تھے۔ اس سے پہلے تو لوگ بانٹنے کے لیے چیزیں خرید لیتے تھے۔ اب کے برس تو یہ عالم ہے کہ اپنی تو دور کی بات بچوں کی ضروریات بھی پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک کسٹمر ایسا بھی ہم نے دیکھا کہ جس کے بچے نے روزہ کشائی میں ملنے والے 100، 100 روپے جمع کرکے عید کا جوڑا خریدا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عید شاپنگ کراچی مہنگائی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: عید شاپنگ کراچی مہنگائی کا کہنا ہے کہ ہوتی ہے

پڑھیں:

 ایک قوم بن کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے،شاہدخاقان عباسی

کراچی: سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں اصلاحات اور نئے صوبوں کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔
سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کے دوران کہا کہ ہر مشکل دور میں کراچی پریس کلب ہی وہ جگہ ہے جہاں اپوزیشن کو اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، امید ہے کراچی پریس کلب اپنی ان منفرد روایات کو جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں، بھارت نے جو اس وقت اقدامات کیے ہیں اور پانی کی معطلی کا جو فیصلہ ہے اس کو کسی کی اجازت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک قوم بن کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے، اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور نظام جب تک آئین کے تحت نہیں چلے گا اس وقت بہتری نہیں آئے گی۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اگر کینال بنانا چاہتی ہے تو اس مسئلے کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اٹھانا چاہیے تھا، سندھ آج سراپا احتجاج ہے ایک ایسا صوبہ جہاں کراچی واقع ہے یہاں سڑکوں پر احتجاج جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کا اثر ملک پر پڑے گا، ابھی تک اس کینال پر کوئی حکومتی رکن قومی اسمبلی پر بات نہیں کرسکا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئین میں ہر طرح کی ترامیم کی جاتی ہیں، ان کے اثرات کئی نسلوں تک ہوتے ہیں، جمہوری ممالک میں قانون میڈیا کی آزادی کے لیے بنتے ہیں، آج وہ وقت نہیں جو قانون کا سہارا لے کر میڈیا پر پابندی لگائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا نوجوان کیوں ہتھیار اٹھاتا ہے، قانون کی بالادستی کے ذریعے پریشانیوں کو ختم کرسکتے ہیں، سیاست میں انتشار ہے، پاکستان میں نئے صوبوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی 70 فیصد آبادی کو پانی میسر نہیں، دنیا کا کوئی ملک دکھائیں جہاں پانی ٹینکر سے جاتا ہو، اشرافیہ عوام کی بنیادی سہولت پر قابض ہے، حکومت کی اتنی بھی رٹ نہیں کہ پانی پہنچا سکے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ٹینکروں سے پانی کی ترسیل کا مقصد ہے کہ مطلوبہ مقدار میں پانی دستیاب ہے لیکن کراچی کے باسیوں کو پانی کی سہولت سے محروم رکھا جا رہا ہے، میرا گھر پہاڑ پر ہے وہاں بھی پانی لائنوں سے ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ نہیں چلےگا تو پاکستان نہیں چلےگا جو حالات کراچی کے ہوں گے وہی حالات پورے پاکستان کے ہوں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کراچی کو پیچھے رکھ کر پاکستان ترقی کرے، کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ میں حکومت ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبر پختونخواہ میں حکومت ہے اور وفاق میں سب اتحادی ہیں لیکن مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں، نوجوان ملک چھوڑنے کی باتیں کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام جماعتوں کے پاس حکومت ہے، ہم روایتی سیاست کا حصہ رہے ہیں، اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور نظام جب تک آئین کے تحت نہیں چلے گا اس وقت تک بہتری نہیں آئے گی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج ہمیں دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان میں لوگ ہتھیار کیوں اٹھا رہے ہیں، اس مسئلے کا حل بات کرکے ہی ملے گا ان کے تحفظات سنیں جائیں، بلوچستان کے نمائندگان وہ ہوں جو عوام کا ووٹ لے کر آئیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آج بے پناہ اصلاحات کی ضرورت ہے، آج ایسی صورت حال ہے کہ اصلاحات پر بات بھی نہیں کی جاتی، آج نئے صوبوں کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہ مخالفت کی سیاست کرتے ہیں ہم آئین و قانون کے تحت سیاست کرتے ہیں، ہماری پارٹی کام کر رہی ہے آہستہ آہستہ لوگ ہمارے ساتھ جڑ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس ملک میں سیاسی انتشار ہو، قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں نہ سرمایہ آئے گا اور نہ معیشت بہتر ہوگی، ملک میں دو کروڑ 70 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہونا سب سے اہم مسئلہ ہے، ان اہم معاملات پر توجہ دے کر فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آبادی بڑھنے کے باوجود پاکستان میں خط غربت بڑھ کر 42.4 فیصد پر آگئی ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • کراچی: ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 14 سالہ حافظ قرآن جاں بحق، شہری کی فائرنگ سے ڈاکو ہلاک
  • پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت ہے، شاہد خاقان عباسی
  •  ایک قوم بن کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے،شاہدخاقان عباسی
  • این ڈی ایم اے قائمہ کمیٹی کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتا: اجلاس میں شکوہ
  • بھارت اس ریجن کے اندر ایک غنڈے کی طرح برتاؤ کرتا ہے
  • شیر افضل مروت نے مشکل وقت میں پاٹی کو سہارا دیا، اس کو نکال دیا گیا، معظم بٹ
  • کینالز کے معاملے کو وفاق اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہا جتنا اس کو لینا چاہیئے، شرمیلا فاروقی
  • کراچی: مہران ٹاؤن میں گتہ فیکٹری کے گودام میں آتشزدگی، بھاری مالیت کا سامان جل کر خاکستر ہوگیا
  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب