جہاں ایک فرد عید کے لیے 4، 4 سوٹ لیتا تھا وہاں اب ایک لینا بھی مشکل ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
مشہور کہاوت ہے کہ کراچی چلتا ہے تو پاکستان پلتا ہے۔ یہ بھی اکثر سننے میں آتا ہے کہ تہواروں کے دوران کراچی میں اربوں روپے کی تجارت ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کہاوت آج بھی کراچی پر صادق آتی ہے؟ کیا آج بھی عید پر یہاں اربوں روپوں کا کاروبار ہوتا ہے؟ کیونکہ حکومت دعوے کر رہی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔
مذکورہ بالا سوالات کے جوابات جانتے ہیں کراچی کے تاجروں سے کہ وہ اس بار بھی عید اربوں روپے کمانے کی توقع رکھتے ہیں یا صورت حال مختلف ہے؟
کواپریٹو مارکیٹ کے صدر اسلم خان کا کہنا ہے کہ مہنگائی عروج پر ہے اور لوگوں کی گہما گہمی نظر نہیں آئی۔ عوام کے ہاں قوت خرید نہیں رہی ہے۔ تہواروں میں گہما گہمی عروج پر ہوا کرتی تھی لیکن اس سال حالات بہت خراب ہیں۔ اگر مہنگائی کی بات کی جائے تو ہر آئیٹم 25 سے 100 فیصد تک مہنگا ہوچکا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ شہریوں کو جتنا زیادہ ریلیف دے سکیں دے دیں جس کا فائدہ ہمیں بھی پہنچے گا لیکن یہاں نہ ہم کچھ کر پارہے ہیں نہ ہی شہری گھروں سے نکل پا رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے جب جیب میں کچھ ہے نہیں تو کیا کریں گے لوگ؟
اسلم خان کا کہنا ہے کہ کراچی چلے گا تو ملک چلے گا۔ بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں ہیں۔ اس سے پہلے ریکارڈ تجارت ہوتی تھی اور ملکی معیشت کو فائدہ پہنچتا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ عوام کی اس وقت حالت کیا ہے۔ عوام جب خرچ کرتے ہیں تو ہمارا کاروبار چلتا ہے، ملک کا پہیہ چلتا ہے لیکن عوام اس قابل ہی نہیں رہے کہ ہم یہ کہہ سکیں، اس بار بھی ریکارڈ خریداری ہوئی اور اس کا فائدہ پہنچا ہے۔
کراچی کے تاجر محمد دانش خان نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ 2024 کے مقابلے میں 2025 میں قوت خرید بہت کم ہو گئی ہے جس کی وجہ مہنگائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر میں استعمال ہونے والی ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے۔ اس کا اثر ہمارے تہواروں پر بھی پڑا ہے۔
دانش خان بتاتے ہیں کہ اگر اس کی حقیقت جاننی ہے تو آپ کراچی کی مشہور مارکیٹوں کا رخ کریں جو پہلے کے مقابلے میں آپ کو بالکل خالی ملیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اس معاملے میں دلچسپی لے گی اور مہنگائی پر قابو پا لے گی۔ اگر کوئی جیب میں 2000 ہزار روپے لیکر نکلتا ہے تو اسے وہ آئیٹم خریدنا مشکل ہوتی ہے جس کے لیے وہ گھر سے نکلا ہے۔
تاجر فیصل احمد کا کہنا ہے کہ اس سال 60 فیصد تجارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ حال ہر چھوٹی بڑی مارکیٹ کا ہے۔ گھر کا سربراہ اپنے لیے کچھ لے، بچوں کے لیے کچھ خریدے یا کچن چلائے؟ مہنگائی ہر ایک چیز میں ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں تو آگ لگی ہوئی ہے۔ ایک سفید پوش عزت سے گھر کا چولہا چلا لے، یہی بڑی بات ہے۔
فیصل احمد نے ایک مثال دی کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ شب قدر کا سوٹ جمعۃ الوداع کا سوٹ اور ایسے ہر گھر میں درجنوں سوٹ جاتے تھے۔ اس سے پہلے تو لوگ بانٹنے کے لیے چیزیں خرید لیتے تھے۔ اب کے برس تو یہ عالم ہے کہ اپنی تو دور کی بات بچوں کی ضروریات بھی پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک کسٹمر ایسا بھی ہم نے دیکھا کہ جس کے بچے نے روزہ کشائی میں ملنے والے 100، 100 روپے جمع کرکے عید کا جوڑا خریدا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عید شاپنگ کراچی مہنگائی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: عید شاپنگ کراچی مہنگائی کا کہنا ہے کہ ہوتی ہے
پڑھیں:
کراچی، مختلف علاقے کے گھروں سے 2 افراد کی گلے میں پھندا لگی لاشیں برآمد
کراچی:شہر قائد کے مختلف علاقوں میں گھروں سے 2 افراد کی گلے میں پھندا لگی لاشیں ملیں ، ابتدائی تحقیقات میں پولیس دونوں واقعات کو خودکشی بتا رہی ہے جس کی مزید تحقیقات کی جا رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق کورنگی کے علاقے ضیا کالونی میں گھر سے نوجوان کی گلے میں پھندا لگی لاش ملی جسے ایدھی کے رضا کاروں نے ضابطے کی کارروائی کے لیے جناح اسپتال پہنچایا۔
ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ متوفی کی شناخت 17 سالہ حیدر علی کے نام سے کی گئی۔
جبکہ کورنگی پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر واقعہ گلے میں رسی کا پھندا لگا کر خودکشی کا بتایا جا رہا ہے جس کی پولیس مزید چھان بین کر رہی ہے۔
چاکیواڑہ 2 نمبر جھٹ پٹ مارکیٹ کے قریب رہائشی عمارت کے فلیٹ سے ایک شخص کی گلے میں پھندا لگی لاش ملی جسے ضابطے کی کارروائی کے لیے اسپتال منتقل کر دی گئی۔
ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ متوفی کی شناخت 36 سالہ نعیم کے نام سے کی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اہلخانہ نے بیان دیا ہے کہ متوفی کا ذہنی توازن درست نہیں تھا اور اس سے قبل بھی خودکشی کی کوشش کر چکا ہے۔
تاہم پولیس نے ضابطے کی کارروائی کے بعد متوفی کی لاش ورثا کے حوالے کر دی جبکہ واقعے کی پولیس مزید تحقیقات کر رہی ہے ۔