اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 مارچ 2025ء) اگرچہ عالمی سطح پر ای وی کو صاف توانائی اور فضائی آلودگی میں کمی کا ذریعہ مانا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اس کے نفاذ اور افادیت کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جامع پالیسی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی اسے مطلوبہ نتائج سے دور رکھ رہے ہیں۔
الیکٹرک وہیکلز اور ماحولیاتی فوائد
پاکستان میں نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کا آغاز سن 2019 میں ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور صاف توانائی کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا تھا۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر اعجاز احمد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا، ’’روایتی گاڑیاں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ کے اخراج کا بڑا ذریعہ ہیں۔

(جاری ہے)

ای وی اسے روک سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ لاہور میں ’اربن یونٹ‘ کی تحقیق کے مطابق 80 فیصد سموگ گاڑیوں کی وجہ سے ہے، جو ای وی کے استعمال کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

سوئس ایئر ٹیکنالوجی کمپنی کی سن 2024 کی رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کا تیسرا آلودہ ترین ملک قرار دیا گیا، جو اس مسئلے کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔
عملی نفاذ میں رکاوٹیں
تاہم سن 2019 میں متعارف کرائی گئی پالیسی کے تین مراحل، عوامی آگاہی، مراعات اور مینوفیکچررز کی حوصلہ افزائی، ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے۔ اسلام آباد کی رہائشی آمنہ، جو پیشہ وارانہ ضروریات کے تحت شہر سے باہر سفر کرتی ہیں، کہتی ہیں، ’’ای وی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مؤثر ہے لیکن خواتین کے لیے اس کا انفراسٹرکچر مناسب نہیں۔

فلیٹ میں رہنے کی وجہ سے گھر پر چارجنگ ممکن نہیں اور پہاڑی علاقوں میں چارجنگ اسٹیشنز کا پتا نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اسی وجہ سے ای وی استعمال سے گریز کرتی ہیں۔
اسی طرح، کاروباری شخصیت ظہیر بابر، جو ای وی استعمال کرتے ہیں، کہتے ہیں، ’’یہ بڑے شہروں جیسے لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے لیے موزوں ہے، لیکن چھوٹے شہروں اور لمبے سفر کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کی کمی بڑا مسئلہ ہے۔

‘‘
ان کے مطابق بڑے شہروں میں بھی اسٹیشنز کم اور دور دور ہیں، ’’ گھر پر چارجنگ میں سات سے آٹھ گھنٹے لگتے ہیں، جبکہ اسٹیشنز پر 45 منٹ درکار ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سولر چارجنگ اسٹیشنز کہیں نظر نہیں آتے، حالانکہ حکومت نے ان کے وعدے کیے تھے۔
حکومتی موقف اور مستقبل کے منصوبے
ادارہ برائے تحفظ ماحولیات پاکستان کے ڈائریکٹر ضیغم عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’موجودہ چارجنگ اسٹیشنز سولر پر نہیں لیکن مستقبل میں انہیں سولر انرجی پر منتقل کیا جائے گا۔

‘‘ انہوں نے کہا کہ ای وی سے دھوئیں، کاربن اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی آئی ہے اور حکومت اسے ترجیح دے رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ بات چیت جاری ہے کہ ای وی سے ملنے والے کاربن کریڈٹس کو فروخت کر کے کلائمیٹ فنانسنگ بہتر بنائی جائے۔‘‘
نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت حکومت پاکستان نے سن 2030 تک 30 فیصد گاڑیوں کو الیکٹرک میں تبدیل کرنے کا ہدف طے کر رکھا ہے، جن میں ایک لاکھ کاریں اور پانچ لاکھ موٹر سائیکلیں اور رکشے شامل ہیں۔


جامع پالیسی کی ضرورت
’کلائمیٹ واریئر‘ کی بانی ڈاکٹر سعدیہ خالد کہتی ہیں، ’’ای وی تب مفید ہو گی، جب اس کی مینوفیکچرنگ پاکستان میں ہو۔ حکومت کو صارفین کے لیے سبسڈی اور سولر پینل ویسٹ مینجمنٹ پر توجہ دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے تعلیمی نصاب میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی اہمیت کو شامل کرنے کی کوششوں کو سراہا، جو عوامی شعور بیدار کرنے میں اہم ہیں۔


دیگر اقدامات اور عوامی کردار
سن 2022 کے سیلاب کے بعد کلین گرین پاکستان، شجرکاری مہم اور صاف ستھرا پنجاب جیسے اقدامات کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی بھی متحرک ہوئی۔ سبز ٹیکنالوجی کو بین الاقوامی معاہدوں میں بھی ترجیح دی جا رہی ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق الیکٹرک وہیکلز فضائی آلودگی سے نمٹنے میں معاون ہیں، لیکن پاکستان میں ان کی افادیت بڑھانے کے لیے چارجنگ انفراسٹرکچر، مقامی مینوفیکچرنگ اور جامع پالیسی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے، پاکستان میں ای وی کا کردار اور افادیت دونوں محدود ہی رہیں گے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چارجنگ اسٹیشنز پاکستان میں انہوں نے کے مطابق کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم

کراچی:

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ کراچی میں قبضے کی سیاست جاری ہے، 17 سال میں پیپلز پارٹی نے کراچی کیلئے کچھ نہیں کیا، 400 بسیں لاکر بے وقوف بنایا جارہا ہے، سڑکیں ٹھیک نہیں اور بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں۔

ٹاؤن میونسپل کارپوریشن نارتھ ناظم آباد کے تحت بارہ دری پارک بلاک اے میں ترقیاتی منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ لاہور میں چالان 200 روپے اور کراچی میں 5 ہزار روپے ہے، کراچی میں قبضے کی سیاست جاری ہے، گاؤں اور دیہات پر قبضے کے بعد شہروں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔

پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو کڑی تنقید کر نشانہ بناتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنے ٹاؤنز میں اختیارات سے بڑھ کر کام کررہی ہے،  سیوریج اور کچرے کا کام بھی ٹاؤن کررہا ہے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے پاس گھر سے کچرا اٹھا کر لینڈ فیلڈ سائیٹ تک پہنچانے کا پورا میکنزم موجود ہے، گھر سے جو کچرا اٹھایا جاتا ہے اس کے پیسے لوگ خود ادا کرتے ہیں، کچرا اٹھانے کا اختیار بھی سندھ حکومت کے پاس ہے، ابھی تک پیپلزپارٹی نے ٹاؤن کو اختیارات منتقل نہیں کئے۔

انہوں نے کہا کہ سٹی وارڈنز کو استعمال کرکے کام میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں، ٹاؤنز کو کام کرنے سے روکا جارہا ہے، کراچی کے بڑے منصوبے 12 سے 15 سال تاخیر کا شکار ہیں،  پیپلزپارٹی نے دھاندلی کرکے اپنا مئیر بنایا، بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی سیٹیوں میں من پسند حلقہ بندیوں کی وجہ سے اضافہ ہوا، بلدیاتی انتخابات جیت کرلوگ کہتے تھے اختیارات ملیں گے نہیں تو کام کیسے کریں گے، نارتھ ناظم آباد کے ٹاؤن چیئرمین کومبارک باد پیش کرتا ہوں مشکل وقت میں بہترین منصوبہ بندی کی۔

متعلقہ مضامین

  • ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو تو پاکستان ٹھیک ہوسکتا ہے، سراج الحق
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کا سنجاوی میں 4 نئے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے کا اعلان
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • وائٹ ہائوس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے