کینالز کا معاملہ :فیڈریشن پر حملے ہو رہے ہیں، پیپلز پارٹی کو کیا کرنا چاہیے ۔۔؟ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ بول پڑے
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن )کینالز کے معاملےپر فیڈریشن پر حملے ہو رہے ہیں، پیپلز پارٹی کو کیا کرنا چاہیے ۔۔؟ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ بول پڑے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناءاللّٰہ نے کہا ہے کہ نہروں کا مسئلہ فیڈریشن سے بڑا نہیں، نہروں پر اتفاق رائے ہوگا تو بات آگے بڑھے گی۔
"جنگ " کے مطابق رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وزیراعظم اور بلاول بھٹو کی ملاقات میں کینالز کا مسئلہ زیر بحث آیا، وزیراعظم نے معاملہ اتفاق رائے سے حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ سندھ میں کینالز کے خلاف پیپلز پارٹی اور فیڈریشن پر حملے ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو رد عمل دینا چاہیے، فیڈریشن کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ہمیں اکٹھے ہو کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنا چاہیے۔
شین وارن کی موت سے متعلق برطانوی اخبار کا بڑا دعویٰ
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نے مزید کہا کہ بجلی کے نرخ میں کمی کے لیے وفاقی حکومت کوشش کر رہی ہے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور پیپلز پارٹی
پڑھیں:
(ن) لیگ سے پیپلز پارٹی کی شکایات
صدر آصف زرداری نے گورنر ہاؤس لاہور میں منعقدہ اجلاس میں پی پی ارکان کی شکایات پرکہا کہ ’’ ہمیں مجبوریاں ہیں ملک کے لیے ساتھ چلنا ہے امید ہے کہ معاملات بہتر ہو جائیں گے میں خود اور بلاول پنجاب میں بیٹھیں گے اور معاملات کا خود جائزہ لیں گے پی پی ارکان حالات کی بہتری کی امید رکھیں ان کی شکایات پر توجہ دے کر ازالہ کرایا جائے گا۔‘‘
پی پی کے ارکان اسمبلی نے پنجاب حکومت کے خلاف اپنے صدر کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیے جس پر صدر مملکت کو پی پی کے ارکان کو دلاسا دے کر مطمئن کرنا پڑا ۔ سوا سال میں یہ پہلا موقعہ نہیں ہے صدر مملکت جب بھی پنجاب میں کہیں جاتے ہیں تو انھیں ہر جگہ مسلم لیگ (ن) سے متعلق ایسی ہی شکایات سننے کو ملتی ہیں کہ پی پی کے ساتھ پنجاب حکومت کا رویہ بہتر نہیں۔ ترلوں منتوں کے بعد 2 فی صد کام کیے جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات ندیم افضل چن نے سمبڑیال میں پی پی امیدوار کی شکست پر پریس کانفرنس میں کہا کہ پی پی کو مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کے باعث ووٹ نہیں ملے اور یہ ضمنی الیکشن شفاف تھا نہ منصفانہ ، یہ الیکشن فراڈ تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پیپلز پارٹی نے فروری میں اپنے چیئرمین بلاول کا الیکشن ہارا تھا اور لاہور کے بعد سمبڑیال کے الیکشن میں پی پی کے امیدوار نے شکست کھائی ۔
اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے 8 فروری کے الیکشن کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے اور پی ٹی آئی کا دس ہزار سے زائد ووٹ کم ہوا جب کہ (ن) لیگ کے امیدوار کا 20 ہزار ووٹ بڑھا اور پی پی امیدوار صرف 6 ہزار ناقابل ذکر ووٹ حاصل کرسکے جب کہ ٹی ایل پی کا امیدوار پانچ ہزار ووٹ بھی حاصل نہ کر سکا جب کہ پہلے اس کا ووٹ دس ہزار سے زائد تھا۔
یہ بات تو عام ہے کہ ہر ضمنی الیکشن میں کم ووٹ پڑتا ہے اور برسراقتدار پارٹی کے امیدوار ہمیشہ جیت جاتے ہیں مگر 2022 میں یہ بات غلط بھی ثابت ہوئی تھی اور پنجاب اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی سے ہاری تھی جب کہ وہاں (ن) لیگ کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی حکومت تھی۔ پی ٹی آئی کی وفاق اور پنجاب حکومتوں میں ڈسکہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن (ن) لیگ نے جیتا تھا اور ڈسکہ اور سمبڑیال میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار دو خواتین تھیں جنھیں ان کے شوہر اور باپ کی وفات کے باعث (ن) لیگ نے ٹکٹ دیے تھے اور دونوں خواتین نے پہلے اور اب پی ٹی آئی امیدواروں سے زیادہ ووٹ لیے ۔
ڈسکہ الیکشن میں پی ٹی آئی حکومتوں میں جو دھاندلی کرکے زبردستی پہلے الیکشن جیتا تھا وہ مکمل فراڈ تھا جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کرکے پی ٹی آئی کی حکومتوں میں دوبارہ ضمنی الیکشن کرایا تھا جس میں کرائی جانے والی دھاندلی پی ٹی آئی تسلیم ہی نہیں کرتی اور پی ڈی ایم اور (ن) لیگ کی حکومتوں میں پنجاب اسمبلی الیکشن میں اپنی بڑی کامیابی پر فخر کرتی ہے مگر پی پی کے ایک عہدیدار کو پی ٹی آئی دور کی نہیں بلکہ (ن) لیگ حکومت میں ہونے والی مبینہ دھاندلی نظر آتی ہے ۔
فروری 2024کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے جنوبی پاکستان سے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور بلاول زرداری سمیت دیگر اہم رہنماؤں جن میں ندیم افضل چن بھی ہارے تھے جب کہ پی پی کے دو سابق وزرائے اعظم یوسف رضاگیلانی اپنے خاندان سمیت ملتان سے اور راجہ پرویز اشرف گوجر خان سے کامیاب ہوئے تھے۔
فروری 2024 میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو سندھ میں شکست ہوئی تھی اور سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کا کوئی رکن منتخب نہیں ہوا تھا جب کہ پنجاب سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی نے قابل ذکر انتخابی کامیابی حاصل کی تھی جس کی وجہ سے چوہدری شجاعت کے گھر اجلاس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بڑوں نے باہمی طور پر وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت بنوانے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ پنجاب میں (ن) لیگ، سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی تھی اور پنجاب میں دونوں پارٹیوں میں پاور شیئرنگ کا معاملہ طے ہوا تھا جس پر عمل نہ ہونے کی پیپلز پارٹی کو موجودہ پنجاب حکومت سے شکایات ہیں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے یہ شکایات بھی ہیں کہ وہ صدر مملکت سے ملتی ہیں اور نہ لاہور آنے پر صدر کے استقبال کے لیے جاتی ہیں اور نہ پاور شیئرنگ کے مطابق پنجاب میں پی پی ارکان کو اہمیت دی جاتی ہے۔
سندھ کے ہر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) پی پی امیدواروں کی حمایت کرتی آ رہی ہے۔ نواب یوسف تالپور کی وفات پر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے خلاف (ن) لیگ نے پی پی کی حمایت کی جو پی پی کی نشست تھی مگر سمبڑیال کے حالیہ ضمنی الیکشن میں پی پی نے (ن) لیگ کے خلاف الیکشن لڑا جو (ن) لیگ کی نشست تھی مگر فروری کی طرح پھر وہاں دوبارہ ہاری اور اب (ن) لیگ پر پی پی دھاندلی کے الزام لگا رہی ہے۔
سندھ میں پی پی کو واضح اکثریت حاصل ہے جب کہ دوسری جانب (ن) لیگ وفاق کی طرح پی پی کی پنجاب میں محتاج نہیں مگر دونوں کے درمیان پنجاب سے متعلق پاور شیئرنگ پر عمل ہونا چاہیے مگر پنجاب حکومت پی پی ارکان کو شکایات کا موقعہ دے رہی ہے۔ پنجاب میں گورنر اور پی پی رہنماؤں کا جو رویہ ہے۔
اس سے نہیں لگتا کہ پی پی (ن) لیگ کی حمایتی ہے وہ اپنی شکست دیکھ کر بھی (ن) لیگ کے مقابلے میں الیکشن لڑ کر پھر ہارتی ہے اور پنجاب میں (ن) لیگ کے ساتھ پی پی کا رویہ پی ٹی آئی سے مختلف نہیں جس کی وجہ سے (ن) لیگ کو بھی پی پی سے شکایات تو ہیں مگر وہ پی پی کی طرح اظہار نہیں کرتی اور اسی وجہ سے پنجاب حکومت سے پی پی کو شکایات ہیں جنھیں پنجاب حکومت کو دور کرنا چاہیے کیونکہ دونوں اتحادی ہیں مگر پی پی بھی اپنی غلطی نہیں مانتی جو اسے بھی ماننی چاہیے۔