کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
کل جماعتی حریت کانفرنس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی آوازوں کو دبانے کے لیے بھارت کی جانب سے فوجی اور فرقہ وارانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کی مذمت کی ہے۔حریت ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے کالے قوانین کی آڑ میں پرتشدد کارروائیوں،بلاجوازگرفتاریوں اور املاک کی ضبطی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت نے کشمیریوں کے خلاف بھرپور جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ان جابرانہ اقدامات سے کشمیریوں کو جدوجہد آزادی سے روکا نہیں جاسکتا۔ بھارتی اقدامات فلسطین میں اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کی طرح ہیں۔ بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے مقبوضہ علاقے میں اپنے نوآبادیاتی ایجنڈے کو جاری رکھتے ہوئے ضلع پونچھ میں مزید تین کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔ بھارتی پولیس نے کیرنی اور قصبہ کے دیگر علاقوں میں نجب دین، محمد لطیف اور محمد بشیر کی جائیدادیں ضبط کر لیں۔یہ اقدام کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو کمزور کرنے کی بی جے پی کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ 2019میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو معاشی طورپر کمزور کرنے اورمقبوضہ علاقے میں آباد ی کا تناسب تبدیل کرنے کیلئے سینکڑوں کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔
عید الفطر سے قبل وادی کشمیر کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی وکالت کرتے ہوئے ڈی ڈی سی ممبر ترال اور عوامی اتحاد پارٹی کے سابق اسمبلی الیکشن امیدوار ڈاکٹر ہر بخش سنگھ نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خیر سگالی کے جزبے کے تحت سیاسی قیدیوں بشمول حریت لیڈران رہا کرے۔ انجینئر رشید اور ارت پال سنگھ کو بھی رہا کیا جانا چاہئے کیونکہ وہ عوام کے چنے ہوئے نمائندے ہیں۔ ان سیاسی رہنماؤں کے ساتھ اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن انہیں جیلوں میں بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ڈاکٹر ہر بخش سنگھ کے مطابق ”مرکزی حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کسی انسان کو قید میں ڈال کر اسکی سوچ کو قید نہیں کیا جا سکتا ہے۔بھارت کے آئین کو ماننے والے افراد کی سوچ میں فرق ہو سکتا ہے لیکن ان کو جیل میں نظریات کی بنیاد پر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ سنگھ نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل کی کہ ممبر پارلیمان انجینئر رشید کے ساتھ ساتھ جیلوں میں بند حریت لیڈران کو بھی رہا کیا جائے اور معمولی جرائم میں بند لوگوں کو خیرسگالی کے جزبے کے تحت رہا کیا جائے۔ڈاکٹر ہربخش سنگھ کانگریس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات سے قبل وہ پی ڈی پی کے ترجمان تھے اور انہیں پارٹی قیادت کے نزدیک تصور کیا جا تھا لیکن اسمبلی الیکشن میں منڈیٹ نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے پی ڈی پی کو خیر باد کہا اور راتوں رات انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی میں شمولیت اختیار کی جنہوں نے انہین ترال کے حساس انتخابی حلقے سے اپنا امیدوار نامزد کیا۔ اس دوران پی ڈی پی نے سابق وزیر اور اسپیکر مرحوم علی محمد نائیک کے فرزند رفیق احمد نائیک کے حق میں منڈیٹ کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر ہربخش سنگھ جنہیں ڈاکٹر شنٹی کے نام سے بھی جانا جا تا ہے کو جوانوں کی بڑی تعداد نے ووٹ دیا لیکن وہ وٹوں کے کم فرق سے الیکشن ہار گئے۔ تاہم ڈی ڈی سی ممبر ہونے کی وجہ سے انکی سرگرمیاں ابھی علاقے میں بدستور جاری ہیں۔سنگھ نے بتایا کہ جموں وکشمیر کے ڈیلی ویجرس کا مسئلہ انسانی مسئلہ ہے اور اس کو جلد از جلد حل کیا جانا چاہئے اور وزیر اعلیٰ کی جانب سے کمیٹی کی تشکیل دینا اگرچہ ایک مثبت اقدام ہے تاہم اس میں کمیٹی بنانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ گزشتہ حکومت میں اس حوالے سے کابینہ کا فیصلہ لیا گیا تھا اس پر ہی کام کرنا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر عید سے قبل ہی ڈیلی ویجرس کو مستقل کیا جاتا تو انکی حقیقی عید ہو جاتی۔ غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں وکلا ء کا کہنا ہے کہ انہیں نئی دلی کے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ کی طرف سے عدالت میں سیاسی نظربندوں کے مقدمات کی پیروی ترک کرنے کے لیے شدید دبا ئو کا سامنا ہے۔وکلا ء نے کہا کہ بھارتی حکام ان پر دبا ئوڈال رہے ہیں کہ وہ خاص کر آزادی پسند کارکنوں کے مقدمات کی پیروی کرنے سے گریز کریں۔
بھارتی حکام کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خوف کے باعث وکلا ء کی ہچکچاہٹ سے ہزاروں کشمیری قانونی امداد سے محروم ہوگئے ہیں۔ حالات یہاں تک بگڑ گئے ہیں کہ ایڈووکیٹ میاں عبدالقیوم جیسے غیر قانونی طور پر نظر بند سینئر وکلا ء عدالتوں میں اپنی نمائندگی کے لئے باہر سے وکلا کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔یہ رجحان نہ صرف قانونی نمائندگی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے جدوجہد آزادی کشمیر سے وابستہ رہنمائوںا ور کارکنوں کے ساتھ ہونے والی شدید ناانصافی کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کشمیریوں کی کے ساتھ کیا جا وکلا ء
پڑھیں:
بھارت میں جبری مذہبی تبدیلیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے گروپ پر انتہا پسند ہندوؤں کا حملہ
اندور پریس کلب میں دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم بجرنگ دل کے کارکنان نے مرد و خواتین پر حملہ کر دیا۔
متاثرین جبری مذہبی تبدیلیوں کے الزامات کے خلاف میڈیا سے بات کرنے کے لیے پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:مودی سرکار کا کشمیری مسلمانوں کے خلاف بھیانک منصوبہ، 40 ہزار انتہا پسند ہندوؤں کو ہتھیار پہنچا دیے
حملے میں متعدد خواتین کو عوام کے سامنے دھکا دیا گیا، زدوکوب کیا گیا اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔
صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب بجرنگ دل کے کارکنان نے پریس کانفرنس کا مقام زبردستی گھیر لیا اور الزام لگایا کہ مذکورہ گروپ دیواس کے جنگلاتی علاقوں میں ’سماجی خدمت‘ کے نام پر لوگوں کو عیسائیت کی طرف راغب کر رہا ہے۔
حملہ آوروں نے بعض افراد کے چہروں پر سیاہی مل دی اور پھر انہیں ایک مقامی اخبار کے دفتر تک پیچھا کرتے ہوئے وہاں بھی مبینہ طور پر پولیس کی موجودگی میں بیلٹوں سے مارا پیٹا۔
یہ تنازع دیواس پولیس کو موصول ہونے والی شکایات کے بعد شروع ہوا، جن کے مطابق کچھ مرد و خواتین بَروتھا تھانے کے جنگلاتی علاقے میں جھونپڑیوں میں رہ رہے تھے۔ مقامی افراد نے الزام لگایا کہ یہ لوگ گاؤں والوں کو عیسائیت اختیار کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ہولی پر انتہا پسند ہندوؤں کی مسلمان خاندان سے بدتمیزی، سوارا بھاسکر کا سخت ردعمل
صحافت کے شعبے سے وابستہ سوربھ بینرجی بھی ان متاثرین میں شامل تھے۔ وہ ان الزامات کی تردید کے لیے اندور میں پریس کانفرنس کرنے آئے تھے جو دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے پھیلائے جا رہے تھے۔
تاہم پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی بجرنگ دل کے کارکنان نے مبینہ طور پر حملہ کر دیا، موت کی دھمکیاں دیں اور مطالبہ کیا کہ وہ میڈیا سے بات کرنا بند کریں۔
بعدازاں بجرنگ دل کے عہدیدار اویناش کوشل نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دیواس کے شکروسا گاؤں کے قریب جنگلات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیٔ مذہب کا نیٹ ورک چل رہا ہے۔
اُن کے بقول جب یہ لوگ اندور آئے تو ہم نے بات کرنے کی کوشش کی، مگر انہوں نے ہمیں ہی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ نوجوان لڑکیوں کو بڑی تعداد میں عیسائیت میں شامل کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں کیخلاف تشدد میں ہندوستان پیش پیش
شکایات میں سوربھ بینرجی کا نام بھی شامل تھا، جس کی وضاحت کے لیے انہوں نے پریس کانفرنس رکھی۔ اس موقع پر ایک نوجوان لڑکی بھی ان کے ساتھ موجود تھی۔ تاہم، جیسے ہی کانفرنس شروع ہوئی، لڑکی کے والدین وہاں پہنچے اور ہنگامہ کھڑا کر دیا، اور سوربھ پر ان کی بیٹی کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا۔
تاہم، سوربھ بینرجی نے ان تمام الزامات کی تردید کی۔انہوں نے کہا کہ ہم صرف طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ہمارا کوئی غیر ملکی فنڈنگ سے تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی ایک بھی شخص سامنے آ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے اسے زبردستی مذہب تبدیل کروایا ہو۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انتہاپسند ہندو اندور بجرنگ دل