ٹرمپ منصوبے کیخلاف حماس کی دنیا بھر میں ہتھیار اٹھانے کی کال
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں حماس رہنماء سامی ابو زہری کا کہنا تھا کہ قتل عام اور بھوک کے مذموم منصوبے کیخلاف دنیا میں جو کوئی بھی ہتھیار اُٹھا سکتا ہو، اسے عملی اقدام کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دھماکا خیز مواد، گولی، چاقو یا پتھر کچھ بھی نہ چھوڑیں، ہر کوئی اپنی خاموشی توڑ دے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی منصوبے کے خلاف حماس نے دنیا بھر میں فلسطین کے حامیوں کو ہتھیار اٹھانے کی کال دے دی۔ حماس رہنماء سامی ابو زہری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ قتل عام اور بھوک کے مذموم منصوبے کے خلاف دنیا میں جو کوئی بھی ہتھیار اُٹھا سکتا ہو، اسے عملی اقدام کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دھماکا خیز مواد، گولی، چاقو یا پتھر کچھ بھی نہ چھوڑیں، ہر کوئی اپنی خاموشی توڑ دے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے گذشتہ روز ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر عمل پیرا ہونے کا بیان دیا تھا، صدر ٹرمپ نے غزہ کے فلسطینیوں کو پڑوسی عرب ممالک میں بسانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔
تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔