یوسف رضا گیلانی کی بین الاقوامی پارلیمانی سپیکرز کانفرنس کے بطور بانی چیئرمین تقرری پر سینٹر عرفان صدیقی کی مبارکباد
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما، سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی لیڈر اور قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین، سینیٹر عرفان صدیقی نے چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی کو بین الاقوامی پارلیمانی سپیکرز کانفرنس کا بانی چیئرمین مقرر ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صرف یوسف رضا گیلانی کا نہیں، پوری سینٹ بلکہ پورے ملک کا اعزاز ہے۔ چیئرمین سینٹ کے نام اپنے تہنیتی پیغام میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ اعزاز بطور پارلیمنٹیرین، بطور سپیکر قومی اسمبلی اور بطور چیئرمین سینٹ، گیلانی صاحب کی شاندار خدمات اور انتہائی قابل قدر کارکردگی کا اعتراف ہے۔ یہ امر ہم سب کے لیے باعث فخر ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو اس منصب پر فائز کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کی طرف سے ان پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی پارلیمانی سپیکرز کانفرنس (ISC) کے فورم کے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنا قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے سید یوسف رضا گیلانی کی اس منصب پر تقرری کو پاکستان کے جمہوری پارلیمانی نظام اور خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: یوسف رضا گیلانی بین الاقوامی عرفان صدیقی
پڑھیں:
عرفانِ دعائے عرفہ، محمد علی سید کا تحقیقی کارنامہ
اسلام ٹائمز: محمد علی سید صاحب نے امام حسین (ع) کے الفاظ میں چھپے ہوئے علمی و سائنسی خزانے کو نہایت آسان زبان، دلائل اور مثالوں کے ذریعے عام فہم بنا دیا ہے۔ آج جب دنیا علم کے میدان میں برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، ہمیں بھی دینی متون کی سائنسی جہات کو اجاگر کرکے نئی نسل کو یقین دلانا ہے کہ ہمارا دین فقط جذباتی یا تعبدی نہیں بلکہ علمی و تحقیقی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس ضمن میں ''عرفان دعائے عرفہ'' ایک مضبوط حوالہ ہے، جسے دینی مدارس، تبلیغی مراکز اور علمی نشستوں میں بطور نصاب یا کم از کم مطالعہ کیلئے شامل کیا جانا چاہیئے۔ تحریر: آغا زمانی
دعائے عرفہ دعاؤں کے خزانے میں ایک بے مثال گوہر ہے۔ یہ وہ دعا ہے، جو نواسۂ رسول، حضرت امام حسین علیہ السلام نے 9 ذی الحج 58 ہجری کو میدانِ عرفات میں ادا کی۔ یہ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ خالقِ کائنات کی معرفت اس کے احسانات اور انسان کی تخلیق سے متعلق ایسی گہری باتیں سمیٹے ہوئے ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ امام حسین (ع) نے اس دعا میں اللہ کے وجود پر دلائل دیئے اس کی نعمتوں کا شمار کیا اور انسان کو اپنے اندر جھانک کر خدا کو پہچاننے کا راستہ دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ دعائے عرفہ کو دعائیہ ادب کا ایک عقلی، روحانی اور سائنسی شاہکار بھی کہا جا سکتا ہے۔ معروف محقق اور مفکر محمد علی سید صاحب نے دعائے عرفہ کے صرف 34 کلمات کو بنیاد بنا کر ایک حیرت انگیز سائنسی تحقیق پیش کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ صرف اتنے کم کلمات ہی کیوں منتخب کیے تو ان کا جواب تھا، ''کیونکہ میرے علم کی حد وہیں تک تھی'' لیکن یہی مختصر حصہ سائنسی لحاظ سے اتنا وسیع نکلا کہ حیرت ہوتی ہے۔
ان کلمات میں علمِ حیاتیات (Biology)، علمِ تشریح الاعضاء (Anatomy)، علمِ فعلیات (Physiology) اور حتیٰ کہ جینیات (Genetics) جیسے جدید ترین شعبوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ امام حسین (ع) نے جسمانی اعضاء کے صرف نام نہیں لیے بلکہ ان کے باطنی افعال اور اندرونی ساخت کا بھی ذکر فرمایا۔ مثلاً: جگر نہیں کہا بلکہ "جگر اور اس کے اطراف کے خزانے" فرمایا۔ کان نہیں کہا بلکہ "کان کی جھلیاں" کہا۔ زبان نہیں بلکہ "زبان اور ذائقوں کی حس" کا ذکر۔ آنکھ نہیں بلکہ "نور کے راستے" فرمایا۔ دل نہیں بلکہ "دل کے پردے" کہہ کر اس کی گہرائی بیان کی۔ سانس نہیں بلکہ "نفس کے راستے" کہہ کر تنفس کے عمل کی طرف اشارہ دیا۔ یہ تفصیلات وہ ہیں، جن تک انسان کی سائنسی رسائی امام کے زمانے میں تو درکنار صدیوں بعد جا کر ممکن ہوئی۔ مثلاً 1540ء میں اٹلی کے ایک ماہر حیاتیات نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرکے اعضاء کا مشاہدہ شروع کیا اور مشہور مصور و سائنسدان لیونارڈو ڈاونچی نے موم بتی کی روشنی میں انسانی جسم کے خاکے بنائے۔
یہ وہ سچائیاں تھیں، جنہیں ریڈیالوجی اور مائیکرو بیالوجی جیسے علوم کی مدد سے آج کا سائنسدان سمجھتا ہے، جبکہ امام حسین علیہ السلام نے چودہ سو سال پہلے ان کا ذکر کر دیا۔ محمد علی سید کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیت نے ان نکات کو سائنسی انداز میں بیان کرکے ثابت کیا کہ قرآن، اہل بیت (ع) اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے مختلف زاویئے ہیں۔ ان کی 14 کتابیں اسی موضوع پر شائع ہوچکی ہیں، جن میں عرفانِ دعائے عرفہ ایک شاہکار ہے۔ چاہے وہ جسم کے عجائبات ہوں، ڈی این اے۔ جسم کی کتابِ ہدایت، ثقلین اور سائنس ہو، یا پانی کے عجائبات۔۔۔ ہر کتاب کا بنیادی پیغام یہی ہے: "خود شناسی کے ذریعے خدا شناسی تک رسائی ممکن ہے۔"
دعائے عرفہ کو ہمیشہ ایک روحانی، عرفانی اور دعائیہ متاع کے طور پر پڑھا گیا ہے، لیکن محمد علی سید صاحب وہ پہلی شخصیت ہیں، جنہوں نے 1400 سال بعد اس عظیم دعا کو سائنس کی روشنی میں دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی۔ ان کا تحقیقی کارنامہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ایک نئی جہت کی دریافت ہے۔ ایک ایسا دروازہ جو امام حسین علیہ السلام کے علمِ لدنی کو سائنسی نظر سے دیکھنے کے لیے کھولا گیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے جس وقت جسمِ انسانی کی تخلیق، اعضائے بدن کے افعال اور ان کی ساخت کا ذکر دعائے عرفہ میں فرمایا، اس وقت تو سائنس کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ لیکن یہ امام کا کمال علم تھا کہ انہوں نے ایسی تفصیلات بیان فرمائیں، جنہیں جدید سائنس ہزار سال بعد جا کر دریافت کر پائی۔
محمد علی سید نے دعائے عرفہ کے ان منتخب کلمات کو نہ صرف سمجھا بلکہ ان میں چھپے ہوئے سائنسی اور طبی رازوں کو اس طرح کھولا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ''عرفانِ دعائے عرفہ'' کے ذریعے انہوں نے ان رازوں کو عام فہم انداز میں قارئین تک پہنچایا۔ یہ ایسا پہلو تھا، جس پر اس سے پہلے شاید ہی کسی نے توجہ دی ہو۔ ہم دعائے عرفہ پڑھتے تو رہے، مگر اس میں چھپی میڈیکل سائنس اور جینیات کی زبان کو کبھی نہ سمجھ پائے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد علی سید کا یہ کام نہ صرف ایک دینی خدمت ہے، بلکہ سائنسی دنیا کے لیے بھی ایک دعوتِ مطالعہ ہے۔ ان کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین (ع) نے کچھ ایسی باتیں بیان فرمائیں، جو صرف وہی ہستی بیان کرسکتی ہے، جس کے پاس ماورائی علم ہو۔ ایسا علم جو سینکڑوں سال بعد انسان کے سائنسی تجربات سے ثابت ہوا۔
مثال کے طور پر، کتاب کے چوتھے باب میں محمد علی سید نے نوزائیدہ بچوں کے دودھ کے بننے کے عمل کو جس وضاحت سے بیان کیا ہے، وہ میڈیکل سائنس کی گہرائی کو عام فہم میں منتقل کرنے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ چھٹے باب میں اللہ کی عطا کردہ بصارت کو جس سادہ اور واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے، وہ انداز نہ صرف اسلامی کتب میں نایاب ہے بلکہ سائنسی کتب میں بھی کم کم دکھائی دیتا ہے۔ باب 34 میں شیر خوار بچوں کے دوران جسمانی نشوونما کے جس پہلو پر امام حسین (ع) نے روشنی ڈالی، اسے محمد علی سید نے موجودہ سائنسی علم سے جوڑ کر بڑے سلیقے سے بیان کیا ہے۔ لحمیات (پروٹین) کی بناوٹ، ایمینوایسڈز کی زنجیر اور ان کے آپس میں جڑنے کے عمل کو "قالین بافی" سے تشبیہ دے کر نہایت خوبصورت انداز میں سمجھایا گیا ہے۔
یہ اسلوب صرف تحقیق نہیں بلکہ تدبیر ہے۔ ایک ایسی تدبیر جو خود شناسی سے خدا شناسی تک لے جاتی ہے۔ محمد علی سید کی یہ کوشش ثابت کرتی ہے کہ امام حسین (ع) کی دعائیں صرف زبانی نہیں بلکہ ان میں علم، حکمت اور سائنسی بنیادیں بھی پنہاں ہیں۔ "عرفان دعائے عرفہ" دراصل ایک دعوتِ فکر ہے۔ ایک ایسی بصیرت بخش صدا جو علم، سائنس اور روحانیت کے درمیان مضبوط پل قائم کرتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی دعاؤں کو صرف تلاوت یا ترجمے کی سطح پر نہ رکھیں بلکہ ان میں پوشیدہ فکری، سائنسی اور عرفانی نکات پر غور و فکر کریں۔ محمد علی سید کی کتاب "عرفان دعائے عرفہ" اس سلسلے میں ایک تاریخی پیش قدمی ہے۔ ایک ایسی تحقیقی کاوش جو نہ صرف دعائے عرفہ کے مفاہیم کو اجاگر کرتی ہے، بلکہ اسے جدید علمِ حیاتیات، جینیات، میڈیکل سائنس اور فزیالوجی کی روشنی میں ایک زندہ معجزہ ثابت کرتی ہے۔
محمد علی سید صاحب نے امام حسین (ع) کے الفاظ میں چھپے ہوئے علمی و سائنسی خزانے کو نہایت آسان زبان، دلائل اور مثالوں کے ذریعے عام فہم بنا دیا ہے۔ آج جب دنیا علم کے میدان میں برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، ہمیں بھی دینی متون کی سائنسی جہات کو اجاگر کرکے نئی نسل کو یقین دلانا ہے کہ ہمارا دین فقط جذباتی یا تعبدی نہیں بلکہ علمی و تحقیقی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس ضمن میں ''عرفان دعائے عرفہ'' ایک مضبوط حوالہ ہے، جسے دینی مدارس، تبلیغی مراکز اور علمی نشستوں میں بطور نصاب یا کم از کم مطالعہ کے لیے شامل کیا جانا چاہیئے۔ اگر دعائے عرفہ کے ذریعے امام حسین (ع) کے علمِ لدنی اور ان کے فہم کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو نہ صرف دین کی وسعت بلکہ انسان کی عظمت بھی آپ پر آشکار ہوگی۔ آئیے، اس کتاب کو صرف ایک قاری کی حیثیت سے نہ دیکھیں، بلکہ اسے اپنے خطبوں، دروس اور درسی مجالس کا محور بنائیں، تاکہ آج کا نوجوان یہ جان سکے کہ اہل بیت علیہم السلام کا علم الہیٰ کتنا بلند، عمیق اور سائنسی بنیادوں پر استوار ہے۔ (جمعرات: 5 جون 2025ء/8 ذی الحجہ 1446ھ)