Daily Ausaf:
2025-11-03@19:28:15 GMT

عینا آصف بھی ’ڈیپ فیک‘ ویڈیو کا نشانہ بن گئیں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

مصنوعی ذہانت نے جہاں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں یہ کئی افراد کے لیے مشکلات اور اذیت کا سبب بھی بن رہی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ خواندگی کی کمی کی وجہ سے بیشتر لوگ اصل اور جعلی ویڈیوز میں فرق نہیں کر پاتے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی ویڈیوز بنانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں کئی مشہور شخصیات کو مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی جعلی ویڈیوز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے، اور اب اس کی زد میں کم عمر اداکارہ عینا آصف بھی آگئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں انہیں سگریٹ پیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔یہ ویڈیو سامنے آتے ہی صارفین کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ کئی افراد نے اس ویڈیو کو حقیقی سمجھ کر اداکارہ پر تنقید کی، جبکہ کچھ صارفین نے اسے جعلی اور ایڈٹ شدہ قرار دیا۔

عینا آصف کا کیریئر
عینا آصف 2008 میں پیدا ہوئیں اور اس وقت میٹرک کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور چائلڈ ماڈل کیا اور کئی مشہور برانڈز کے ٹی وی کمرشلز میں کام کیا۔

انہوں نے 2021 میں ڈرامہ سیریل ”پہلی سی محبت“ میں حمنا کا کردار ادا کرتے ہوئے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا۔ اس کے بعد، 2022 میں ”ہم تم“ میں ملیحہ اور ”پنجرہ“ میں عبیر کا کردار نبھایا۔2023 میں، وہ اے آر وائی ڈیجیٹل کے مشہور ڈرامہ ”مایی ری“ میں قرۃ العین (انی) حبیب کے مرکزی کردار میں نظر آئیں، جس سے انہیں بے حد شہرت ملی۔

یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال سے نہ صرف مشہور شخصیات بلکہ عام لوگ بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ صارفین کو چاہیے کہ وہ کسی بھی وائرل ویڈیو کو شیئر یا اس پر تبصرہ کرنے سے پہلے اس کی حقیقت کو جانچ لیں تاکہ غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی فورسز کے اہلکار کشمیری صحافیوں کو مسلسل ہراساں اور گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتاریوں، پوچھ گچھ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخصوص واقعات میں صحافیوں سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ، آلات کی ضبطگی اور سوشل میڈیا پوسٹس یا خبروں کی رپورٹنگ پر ملک دشمن قرار دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سے مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے اندر خوف و دہشت اور سیلف سنسر شپ کا کلچر پیدا ہوا ہے۔2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو تنقیدی رپورٹنگ پر علاقے تک رسائی سے انکار یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارتی بیانیے کو فروغ دینا اور خطے میں حالات معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ نے نومبر 2024ء کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اکتوبر کی ایک سرد دوپہر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس سالہ تجربہ رکھنے والے صحافی 33سالہ احمد(فرضی نام) کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر کرتے ہوئے احمد سے اس کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔احمد نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں تھا بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں مجھے ہر چند ماہ بعد اس طرح کی کالیں موصول ہوتی رہی ہیں۔

احمد کا کہنا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں اس وقت کس کے لئے لکھ رہا ہوں، میں کس قسم کی خبریں چلاتا ہوں اور یہاں تک کہ آیا میں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے؟سرینگر میں ایک صحافی نے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں سے کم از کم ایک درجن ممتاز صحافیوں کو مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ان سے ان کی رپورٹنگ یا سفر کے بارے میں تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں جس سے حق رازداری اور پریس کی آزادی کا حق سلب کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں جس سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماحول نے صحافیوں کو سیلف سنسر شپ اور حساس موضوعات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔
متعدد صحافیوں پر کالے قوانین لاگوں کئے گئے ہیں جن کے تحت بغیر مقدمہ چلائے گرفتار اور نظربند کیا جا سکتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نام نہاد مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار اور نظربند کیا گیا ہے اور انہیں ضمانت پر رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔

صحافیوں کو ان کے ذرائع یا رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کیمرے سمیت ان کا سامان ضبط کیا جاتا ہے اور اکثر واپس نہیں کیا جاتا۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا۔ کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے طویل عرصے تک نظربند کیا گیا۔ اگست 2018ء میں آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر میں فائرنگ سے متعلق ایک خبر چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ مسرت زہرہ کو کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اپریل 2020ء میں سوشل میڈیا پوسٹس پر ملک دشمن قرار دیا گیا جو اب جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سجاد گل کو جنوری 2022ء میں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پی ایس اے کے تحت نظربند رکھا گیا۔

عرفان معراج کو مارچ 2023ء میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام پر کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فہد شاہ کو بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020ء میں ایک خبر چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو اور مصنف گوہر گیلانی سمیت کئی ممتاز صحافیوں کو بھارتی حکام نے فرانس، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں، ایوارڈ زکی تقریبات اور نمائشوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کرنے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت علاقے میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بار بار گرفتاریوں سمیت ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی سے پہلے اور بعد میں آصف سلطان، فہد شاہ، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے نامور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر کالے قوانین پی ایس اے اور یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ممتاز صحافی عرفان معراج انہی کالے قوانین کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔

بی جے پی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت کو جرم بنا کر زمینی حقائق کو چھپا رہا ہے۔ د

ی وائر کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ادارتی صفحات بی جے پی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اخبارات کے مضامین میں تنازعہ کشمیر جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غیر سیاسی مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ 2024ء میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو جو طویل عرصے سے کشمیر اور دیگر حساس مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر مودی کی ہندوتوا حکومت کی نگرانی میں تھیں، بھارت سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔

بھارت میں سیاسی اسکینڈلز کی تحقیقات کے لیے مشہور صحافی راجیو پرتاپ کے حالیہ قتل نے صحافیوں کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ پرتاپ 18 ستمبر 2025ء کو اتراکھنڈ میں لاپتہ ہو گیا تھا اور دس دن بعد اس کی لاش اترکاشی ضلع کے جوشیارہ ہائیڈرو الیکٹرک بیراج سے ملی تھی۔ اسی طرح روزنامہ جاگرن کے صحافی راگھویندر باجپائی کو 8 مارچ 2025ء کو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ مندر کے ایک پجاری نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا جب باجپائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اسے کیمرے میں ریکارڈ کیا۔ایک اور کیس میں چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور سے تعلق رکھنے والے ایک 33 سالہ فری لانس صحافی مکیش چندراکر لاپتہ ہو گیا جس نے یکم جنوری 2025ء کو بستر کے علاقے میں 120کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔ دو دن بعد اس کی لاش ایک ٹینک سے ملی جو ایک مقامی کنٹریکٹر کی ملکیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
  • آپ جو انڈہ کھا رہے ہیں وہ اصلی ہے یا نقلی؟ فیکٹری میں بنے جعلی انڈوں کی ویڈیو وائرل
  • کراچی: ٹریفک پولیس اہلکار کا ’ای چالان‘ سے بچنے کیلئے جوگاڑ سوشل میڈیا پر وائرل
  • مصر کے عظیم الشان عجائب خانے نے دنیا کیلئے اپنے دروازے کھول دیے
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • ٹرمپ کی قانون شکنی اور لاپرواہی کا مقابلہ کریں، اوباما کا ڈیموکریٹس سے خطاب
  • کراچی کے پارک میں سیکڑوں مردہ کوؤں کی ویڈیو، اصل ماجرا سامنے آگیا
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  • رکن قومی اسمبلی علی گوہر مہر اور علی نواز مہر کی والدہ انتقال کر گئیں
  • سعودی عرب کے’اسکائی اسٹیڈیم‘ کی وائرل ویڈیو جعلی نکلی