لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 اپریل2025ء) سابق وفاقی وزیر نے بجلی کی قیمت میں 6روپے کمی کو قوم سے مذاق قرار دے دیا ، کہا بجلی 30 روپے مہنگی کر کے 6 روپے سستی کر دی، پی ٹی آئی دور میں بجلی یونٹ کی اوسط قیمت 16 روپے تھی جو اب 45 روپے سے زائد ہو چکی۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بجلی سستی کیے جانے کے اعلان پر سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کی جانب سے ردعمل دیا گیا۔

حماد اظہر کا کہنا ہے کہ بجلی پہلے 30 روپے مہنگی کر کے 6 روپے سستی کر دی۔ پی ڈی ایم حکومت نے اوسطاً بجلی کی قیمت میں 30 روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا۔ تحریک انصاف کے دور میں اوسطاً ایک یونٹ کی قیمت 16.

40 روپے تھی، جو اب 45 روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ سیلز ٹیکس ابھی اس میں شامل نہیں، لہٰذا آج 6 روپے فی یونٹ کم کر کے قوم سے مذاق کیا گیا۔

(جاری ہے)

جبکہ اس حوالے سے مشیر خزانہ خیبرپختونخواہ مزمل اسلم کی جانب سے بھی ردعمل دیا گیا ہے۔

مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ ایک طرف یہ اعلان کیا گیا کہ گھریلو صارفین کے لیے بجلی 7.41 روپے کم کر دی گئی ہے، دوسری طرف ادارہ شماریات کے مطابق بجلی کی قیمت 6 روپے فی یونٹ ہے۔ مطلب، اب حکومت بجلی استعمال کرنے کا 1.41 پیسے الٹا صارف کو دے گی؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ ۔ دوسرا، عمران خان کے دور میں جب تیل $124 فی بیرل تھا، اس وقت بجلی کی قیمت، تمام ٹیکسوں کے بعد، 25 روپے فی یونٹ تھی، اور آج 65 روپے فی یونٹ ہے۔

مزمل اسلم نے سوال کیا ہے کہ وزیرِاعظم بتائیں، کیا قیمت 25 روپے سے کم کی یا 65 روپے سے؟۔ جبکہ تحریک انصاف کے ترجمان شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ مینڈیٹ چور وزیراعظم کی گفتگو جاہلانہ اور جھوٹ کا پلندہ ہے، جھوٹ ہانکنے والا مسخرہ بجلی کی فی یونٹ قیمت کو اپریل 2022 کی سطح پر لا کر دکھائے جہاں سے اس نے اقتدار عوام سے چھینا۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت روپے سے

پڑھیں:

حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار

اسلام آباد:

پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ 

حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29  ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت  46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔

2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔

پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔

توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔

سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔

توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ناکارہ پاور پلانٹس کا ملبہ 46.73 ارب میں فروخت، قیمت اسٹیٹ بینک ماہرین نے مقرر کی
  • سونے کی قیمت میں مسلسل دوسرے روز بڑی کمی
  • پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری، ڈالر کے مقابلے میں 76 پیسے کا اضافہ
  • بی ایم ڈبلیوگاڑیوں کے خریداروں کے لیے خوشخبری! قیمتوں میں لاکھوں کی کمی
  • ملک بھر میں سونے کی قیمت میں 5,900 روپے کمی ریکارڈ
  • پاکستان میں سونے کی قیمت کو بریک لگ گئی، ہزاروں روپے کی بڑی کمی
  • حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
  • سوتیلی ماں سے بڑھ کر ظالم
  • ڈالر کی قمت میں بڑی کمی کا امکان ہے، ذخیرہ اندوزی نہ کریں، ملک بوستان
  •   اسٹیٹ بینک کی طرف سے 9 ارب ڈالر خریدے جانے کاانکشاف