ٹرمپ کا طبل جنگ، روس اور چین کہاں کھڑے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران، امریکا اور اسرائیل کے مابین جنگ بدیہی ہے، تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جنگ کب ہوگی۔ ایران بالخصوص عسکری شعبے میں جس تیزی سے ترقی اور پیشرفت کر رہا ہے، نیز اسکے اسرائیل پر میزائل حملے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب امریکا کے پاس مشرق وسطیٰ پر تسلط کیلئے ایران پر براہ راست حملے یا ایران میں موجود نظام کے خاتمے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔ یہ جنگ بدیہی ہے، تاہم یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اسکا آغاز کب ہوگا اور یہ خطے کیلئے کیا آٖفتیں اور مصیبتیں لائے گی۔ جہاں تک روس اور چین کا سوال ہے تو وہ یقیناً ایران کی خفیہ طور پر مدد کرینگے، تاہم امریکا کے مقابل کھل کر میدان میں نہیں آئیں گے۔ ان دونوں ممالک کی پالیسی دو طرح کی ہوسکتی ہے یا تو اس جنگ کو حتی المقدور روکا جائے اور اگر یہ جنگ ہو جائے تو اس میں امریکہ کو زیادہ سے زیادہ اقتصادی اور عسکری نقصان پہنچایا جائے، تاکہ سپر پاور کی دوڑ میں سے ایک حریف کا خاتمہ ہو جائے۔ تحریر: سید اسد عباس
ڈیلی ٹائمز کے کالم نویس قمر بشیر نے اپنے آج کے کالم میں ایران اور امریکا کے مابین ہونے والی متوقع جنگ کے اعداد و شمار اور لاگت کو ان الفاظ میں بیان کیا۔اتحادیوں کی حمایت کے بغیر ایران کے ساتھ مکمل پیمانے پر امریکی جنگ کی لاگت ابتدائی طور پر $300-500 بلین تک پہنچ سکتی ہے، جس میں طویل مدتی اخراجات شامل ہیں۔ بشمول سابق فوجیوں کی دیکھ بھال اور تعمیر نو۔ امریکی فوجی نقصانات 5,000 سے لے کر 10,000 تک ہوسکتے ہیں، جبکہ ایرانی شہریوں کی ہلاکتیں 250,000-500,000 سے تجاوز کرسکتی ہیں، اس کے ساتھ ممکنہ پناہ گزینوں کے بحران سے 10 ملین تک لوگ بے گھر ہوسکتے ہیں۔ جنگ کا دورانیہ چند مہینوں (محدود فضائی اور سائبر مہم میں) سے لے کر مکمل حملے اور قبضے کی صورت میں 5-10 سال تک ہوسکتا ہے، جس میں کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں اور عراق اور افغانستان کی غلطیوں کو دہرانے کا زیادہ خطرہ ہے۔ یقیناً یہ اعداد و شمار کسی مغربی جریدے کی پیداوار ہوں گے، جن کو قمر بشیر صاحب نے اپنے کالم کی زینت بنایا۔
صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے ایران کو ایٹمی معاملے پر مذاکرات کے حوالے سے خط لکھا۔ وزارت خارجہ ایران کے مطابق اس خط کا متناسب جواب دیا جاچکا ہے اور جوابی خط وائٹ ہاؤس پہنچ گیا ہے۔ اس جواب کے پہنچنے کے بعد امریکی صدر نے اپنے دوسرے امریکی بحری بیڑے کو مشرق وسطیٰ جانے کا حکم دے دیا ہے۔ بحر ہند میں قائم امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ ادے ڈیاگو گارسیا میں امریکہ کے بی 52 بمبار طیاروں کی منتقلی کی اطلاعات ہیں۔ امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یمن کے حوثیوں پر حملے اُس وقت تک نہیں رُکیں گے، جب تک کہ وہ جہاز رانی کے لئے خطرہ ہیں، حوثی بحری جہازوں پر حملے بند کر دیں تو امریکہ بھی حملے بند کر دے گا، ورنہ اُس نے ابھی آغاز کیا ہے، ایران میں حوثیوں اور اُن کے سہولت کاروں دونوں کے لیے اصل تکلیف ابھی باقی ہے۔ امریکہ نے چین اور متحدہ عرب امارات کی بعض کمپنیوں پر یہ کہہ کر پابندی عائد کر دی ہے کہ وہ ایران کے ڈرون پروگرام میں اُس کی مدد کر رہی ہیں اور ایران یہ ڈرون روس کو سپلائی کر رہا ہے۔
ٹرمپ ایران پر متعدد اقتصادی پابندیاں لگا چکے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہےکہ وہ ایران کی تیل کی برآمدات کو صفر پر لائیں گے، کیونکہ یہ برآمدات ایرانی ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کو وسعت دینے نیز خطے میں مختلف مزاحمتی گروہوں کو مدد کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ مارکیٹ ڈیٹا اور ریسرچ ایجنسی ایس اینڈ پی گلوبل کی تحقیق کے مطابق 2024ء کے اوائل میں ایران تقریباً 1.
تاہم ایس اینڈ پی گلوبل کے مطابق چین کی بندرگاہ شانڈونگ میں تیل کے ٹرمینل نے حال ہی میں امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی تیل کی وصولی بند کر دی، جس سے جنوری میں چین کی ایرانی تیل کی درآمدات 1.48 ملین بیرل یومیہ کے مقابلے میں کم ہو کر آٹھ لاکھ 51 ہزار بیرل یومیہ تک پہنچ گئی۔ امریکا نے طالبان حکومت سے بٹگرام ائیر بیس کے دوبارہ حصول کا بھی مطالبہ کیا ہے، جس کا ظاہری مقصد ایران کے قریب ایک فضائی اڈے کا حصول ہے، تاکہ ایران کی عسکری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ فضائی کارروائی کی صورت میں قریب سے حملہ ممکن ہو۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکا یا اسرائیل کی جانب سے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
سپریم لیڈر کے مشیر سید علی لاریجانی کا کہنا ہے کہ ایران پر حملہ ہمیں ایٹمی بٹن کے حصول پر مجبور کر دے گا۔ ایرانی عسکری کمانڈرز کا کہنا ہے کہ اس وقت مشرق وسطیٰ اور خطے میں امریکہ کے کئی اڈے موجود ہیں، جن میں پچاس ہزار کے قریب امریکی فوجی تعینات ہیں، اگر امریکہ نے کوئی جارحیت کی تو ایران ان اڈوں پر حملہ کرے گا۔ ایک ایرانی کمانڈر نے تو امریکی صورتحال کو شیشے کے گھر سے تشبیہ دی اور کہا کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر نہیں مارے جاتے۔ڈیاگو گارسیا اڈے کے حوالے سے ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اڈہ ہمارے میزائلوں کے نشانے پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران نے امریکی خط کے جواب میں واضح کیا ہے کہ ایران امریکا سے براہ راست معاہدہ نہیں کرے گا۔
ظاہر ہے اس کی واحد وجہ امریکا کا ناقابل اعتبار رویہ ہے۔ بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ امریکا نے اپنے دوستوں اور اتحادیوں کو تنہاء چھوڑ دیا عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کی جن میں برجام معاہدہ بھی ایک ہے۔ ایسے میں ایران کے لیے ممکن نہیں کہ وہ امریکا سے کوئی معاہدہ کرے اور اس پر مطمئن ہو جائے۔ مسئلے کی اصل جڑ اسرائیل اور شائد خطے کے کچھ خائن حکمران ہیں، جن کے تحفظ کے لیے امریکا جنگی زبان میں بات کر رہا ہے۔ یوکرائن کے مسئلے پر روس کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ امریکہ ایران پر حملے کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا۔ ایران سے نظریاتی طور پر ہم آہنگ گروہوں جو خطے کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان پر حملہ آور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران اسرائیل اور امریکہ کے مابین کسی منصفانہ معاہدے کا ہونا قرین از قیاس نہیں ہے۔ امریکا اور اسرائیل کا واحد مطالبہ ایران کے ایٹمی پروگرام کا مکمل خاتمہ ہے، ایران اس مطالبے کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتا، وہ بجا طور پر اسے اپنی خود مختاری کا سودا سمجھتا ہے۔ ٹرمپ کوشش کر رہا ہے کہ دنیا میں اپنی دیگر مصروفیات کو ختم کرکے اپنی پوری توجہ ایران پر دے، جس کا وہ اظہار بھی کرچکا ہے کہ ایران میری ترجیح ہے۔ راقم کی نظر میں پہلے مرحلے میں امریکا اقتصادی اور سفارتی دباؤ بڑھائے گا، جو اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ دوسرے مرحلے میں سائبر وار اور پراپیگنڈہ کمپین کا آغاز ہوگا، جو تقریباً ہوچکا ہے۔ عسکری تعیناتیاں اور نقل و حرکت اسی سلسلے کا حصہ ہے، تیسرا مرحلہ خطرناک ہے، اس میں یا تو ایران اور امریکا کے مابین کوئی معاہدہ ہو جائے گا یا پھر عالمی سیاست جنگ کی بند گلی میں داخل ہو جائے گی۔
ایران، امریکا اور اسرائیل کے مابین جنگ بدیہی ہے، تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جنگ کب ہوگی۔ ایران بالخصوص عسکری شعبے میں جس تیزی سے ترقی اور پیشرفت کر رہا ہے، نیز اس کے اسرائیل پر میزائل حملے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب امریکا کے پاس مشرق وسطیٰ پر تسلط کے لیے ایران پر براہ راست حملے یا ایران میں موجود نظام کے خاتمے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔ یہ جنگ بدیہی ہے، تاہم یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا آغاز کب ہوگا اور یہ خطے کے لیے کیا آٖفتیں اور مصیبتیں لائے گی۔ جہاں تک روس اور چین کا سوال ہے تو وہ یقیناً ایران کی خفیہ طور پر مدد کریں گے، تاہم امریکا کے مقابل کھل کر میدان میں نہیں آئیں گے۔ ان دونوں ممالک کی پالیسی دو طرح کی ہوسکتی ہے یا تو اس جنگ کو حتی المقدور روکا جائے اور اگر یہ جنگ ہو جائے تو اس میں امریکہ کو زیادہ سے زیادہ اقتصادی اور عسکری نقصان پہنچایا جائے، تاکہ سپر پاور کی دوڑ میں سے ایک حریف کا خاتمہ ہو جائے، واللہ اعلم۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہے کہ ایران بیرل یومیہ میں امریکہ امریکا کے کر رہا ہے ایران پر ایران کے نہیں کہا کے مابین کے مطابق ایران کی ہو جائے کے ساتھ نے اپنے نہیں کہ تیل کی اور اس کے لیے کیا ہے حملے ا یہ جنگ ہیں کہ
پڑھیں:
ٹرمپ کا ‘اے آئی ایکشن پلان’ کا اعلان، کیا امریکا چین کی مصنوعی ذہانت میں ترقی سے خوفزدہ ہے؟
ٹرمپ انتظامیہ نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے فروغ کے لیے ایک 28 صفحات پر مشتمل جامع ‘اے آئی ایکشن پلان’ جاری کیا ہے جس میں اگلے ایک سال میں نافذ کیے جانے والے 90 سے زائد حکومتی اقدامات شامل ہیں۔
اس منصوبے کا مقصد امریکا کو عالمی اے آئی دوڑ میں برتری دلانا، بیوروکریسی کم کرنا اور بقول انتظامیہ ‘نظریاتی تعصب’ سے پاک ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھارت میں نوکریاں دینا بند کریں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
ٹرمپ کے مشیر برائے ٹیکنالوجی ڈیوڈ ساکس کا کہنا ہے کہ اے آئی ایک انقلابی ٹیکنالوجی ہے جو معیشت اور قومی سلامتی پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے اور امریکا اس میدان میں چین پر سبقت چاہتا ہے۔ منصوبے میں ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر، امریکی ٹیکنالوجی کی عالمی برآمد اور سرکاری و نجی شعبے میں اے آئی کے استعمال کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔
ایکشن پلان کے تحت وفاقی اداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں جو اے آئی کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
صدر ٹرمپ نے 3 ایگزیکٹو آرڈرز پر بھی دستخط کردیے ہیں۔ ایک آرڈر امریکی اے آئی ٹیکنالوجی کی برآمد کو فروغ دے گا، دوسرا ‘نظریاتی تعصب’ والے اے آئی سسٹمز کے خاتمے کی کوشش کرے گا جبکہ تیسرا اے آئی سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کی نگرانی سے متعلق ہوگا۔ وائٹ ہاؤس کا مؤقف ہے کہ اے آئی سسٹمز کو ‘سوشل ایجنڈا’ یا سیاسی نظریات سے پاک ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت سے لیس لال بیگ میدانِ جنگ میں اترنے کے لیے تیار
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ عوامی مفادات سے زیادہ بڑی ٹیک کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اے آئی ناؤ انسٹیٹیوٹ کی شریک ڈائریکٹر سارہ مائرز ویسٹ نے کہا کہ یہ منصوبہ عام لوگوں کے تحفظات کو نظر انداز کرتا ہے اور کارپوریٹ مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔
سابق بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار جم سیکریٹو نے خبردار کیا کہ حفاظتی اصولوں کے بغیر اے آئی کی تیز رفتار ترقی ‘ریاستی خطرہ’ بن سکتی ہے۔ بائیڈن کا 2023 کا اے آئی آرڈر جو حفاظتی اصول فراہم کرتا تھا، ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی منسوخ کر دیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں