آج 4اپریل 2025ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں ، شخصیتوں اور اداروں کی بسیار کوششوں کے باوجود اِس تاریخ کی سنگینی اور سیاہی کومدہم، محو اور مٹایا نہیں جا سکا ہے ۔
آہ، ساڑھے چار عشرے قبل اِسی تاریخ کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ، زیڈ اے بھٹو، کو پھانسی دی گئی تھی ۔ جس جابر اور آمر حکمران نے بندوقوں کی طاقت سے بھٹو صاحب کے منتخب اقتدار کا تختہ اُلٹا تھا،اُسی آئین شکن حکمران کے دَور میں بھٹو صاحب کو تختہ دار تک پہنچایا گیا ۔ یہ سانحہ46سال قبل وقوع پذیر ہُوا ، مگر اِس کے المناک سائے ہماری سیاسی، معاشی اور سماجی زندگیوں پر ہنوز چھائے ہُوئے ہیں۔ کئی متنوع اختلافات کے باوصف بھٹو صاحب کی سحر انگیز شخصیت کا توڑ نہیں نکالا جا سکا ہے ۔
ہمارے کئی سیاستدانوں نے ، کسی نہ کسی رنگ اور اسلوب میں، بھٹو بننے کی، دانستہ و نادانستہ کوشش کی ہے ، مگر نہیں بن سکے ۔ہماری سیاسی تاریخ میں بھٹو بس ایک ہی تھا : منفرد ، ممتاز اور مشہور! حیرانی کی بات ہے کہ بھٹو دَور میں بھی بلوچستان اور مرکزی حکومت میں کشیدگی تھی اور حالات آج بھی ویسے ہی ہیں ۔
آدمی حیرت اور استعجاب سے سوچتا ہے کہ عدالتی مقتول زیڈ اے بھٹو کی شخصیت میں کیا جادُو تھا ! پچھلے ساڑھے چار عشروں میں ہماری کئی سیاسی شخصیات ، کئی سیاسی جماعتوں ، کئی گروہوں اور کئی اداروں نے بھٹو صاحب کا جادُو ختم کرنے کی بہت کوششیں کی ہیں ، مگر یہ جادُو ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔
ہاں اِس طویل عرصے میں اتنا ضرور ہُوا ہے کہ بھٹو کے جتنے بھی نظریاتی اور سیاسی مخالفین و معاندین تھے، اُن میں سے بیشتر یا تو بھٹو کی اندھی مخالفت سے تائب ہو چکے ہیں یا مہر بہ لب ہو کر پسپائی اختیار کر چکے ہیں ۔
عرصہ قبل جب راقم پہلی بار نیویارک پہنچا تو وہاں کی دونوں بڑی لائبریریوں( مین ہیٹن پبلک لائبریری اور بروکلین پبلک لائبریری) میں بھی کئی روز جاتا رہا۔بروکلین پبلک لائبریری ، جس کے بلند داخلی دروازے پر ایک اژدھے کی سنہری تصویر کندہ ہے، اپنی طرز کی وسیع لائبریری ہے۔ مذکورہ لائبریری کی سیاہ فام لائبریرین کو راقم نے اپنا پاسپورٹ دکھا کر اپنے لیے لائبریری کارڈ بنوا لیا تاکہ وہاں داخلے ، لائبریری میں قانونی طور پر بیٹھنے، لائبریری کے پُر سکون و شاندار کیفے ٹیریا سے مستفید ہونے اور کتابوں کے حصول میں آسانیاں رہیں ۔
بروکلین پبلک لائبریری کی رُوح افزا فضا میں بیٹھے اکثر اوقات یہ احساس غالب آجاتا: کاش ، پاکستان میں بھی ایسی کوئی ایک ہی لائبریری ہوتی! مذکورہ لائبریری میں گزرے ایام سے وابستہ اِس کہنہ یاد سے آج بھی دل اور دماغ کو رُوحانی تسکین ملتی ہے ۔ بروکلین لائبریری کے ساؤتھ ایشیا سیکشن میں داخل ہو کر راقم ایک حیرت انگیز دُنیا میں داخل ہو گیا ۔
اِس سیکشن کے بایوگرافی کے سب سیکشن میں مجھے لا تعداد ایسی کتابیں نظر آئیں جو گاندھی جی ، اندرا گاندھی، نہرو، قائداعظم محمد علی جناح ، زیڈ اے بھٹو، بے نظیر بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے موضوعات اور شخصیات پر مشتمل تھیں ۔ تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ تصنیفات گاندھی جی پر تھیں ۔ پھر قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر۔ اِس کے بعد جواہر لعل نہروپر اور پھر زیڈ اے بھٹو پر کتابیں نظر نواز ہُوئیں ۔ نیویارک میں دو ایسی سڑکیں بھی موجود ہیں جو گاندھی جی اور محمد علی جناح سے موسوم ہیں ۔ مین ہیٹن کے ایک پارک میں گاندھی جی کا مجسمہ بھی ایستادہ ہے ۔
میری ذاتی لائبریری میں وطنِ عزیز کی دو شخصیات پر سب سے زیادہ تصنیفات موجود ہے: حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر اور جناب زیڈ اے بھٹو پر ۔ کہنا پڑے گا کہ پاکستان کے سیاسی لٹریچر میں سب سے زیادہ مواد محمد علی جناح اور بھٹو پر مشتمل ہے ۔ بھٹو صاحب کسی بھی صورت میں جناح کے ہم پلّہ نہیں تھے ، اور نہ ہی ہو سکتے ہیں ، مگر بھٹو صاحب مرحوم ایسا کوئی سیاسی مرد ہماری سیاست میں نہیں پایا جاتا ۔
ویسے تو ہمار ے ہاں بعض متعصبوں ، کج روشوں نے اپنے تعصبات اور بغض سے مغلوب ہو کر قائد اعظم کے خلاف بھی کتابیں لکھی ہیں ، مگر اِن متعصبین کو منہ کی کھانا پڑی ہے ۔ کچھ اِسی طرح کئی لکھاریوں نے اپنے مضامین ، کالموں اور کتابوں میں زیڈ اے بھٹو صاحب کے خلاف بھی لاتعداد الفاظ لکھے ہیں ، مگر بھٹو کی تاریخی حیثیت اور اہمیت کو گزند نہیں پہنچا سکے ۔
آج جب کہ بھٹو صاحب مرحوم کی پھانسی کو 46سال گزرچکے ہیں اور اِس دوران ہماری سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگیوں کے پُلوں کے نیچے سے بہت سا وقت گزر چکا ہے، ہم سب سوچتے اور خود سے سوال کرتے پائے جاتے ہیں: بھٹو کو تختہ دار پر کھینچ کر ہماری عدالتوں، ضیاء کے آمرانہ برسوں اور بھٹو کے مخالفین و معاندین نے کیا حاصل کر لیا؟ جنرل ضیاء کے دس سالہ آمرانہ اور مستبد دَور میں ہر جانب سے ، سرکاری سطح پر، ہر قسم کی کوششیں بروئے کار لائی گئیں کہ بھٹو کا نام ، بھٹو کی سیاست، بھٹو کی پارٹی اور بھٹو کا خاندان مٹا دیا جائے ۔
ہر کوشش اور سعی مگر ناکام ہو گئی ۔جنرل ضیاء کے جابرانہ اور سیاستدانوں و صحافیوں پر کوڑے برسانے کے دَور میں ایک وفاقی سیکریٹری اطلاعات ہُوا کرتے تھے : لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن۔اُن کے زیر نگرانی پاکستانی میڈیا میں باقاعدہ مہمات چلائی گئیں کہ بھٹو کے نام اور کارناموں پر سیاہی پھیر دی جائے، مگر ایسی ہر کوشش ناکام ٹھہری ۔ آج کسی کو جنرل مجیب الرحمن نامی شخص کا نام بھی یاد نہیں ۔حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کی المناک وفات کا دن بھی آتا ہے اور خاموشی سے گزر جاتا ہے ۔ کوئی اُنہیں یاد بھی نہیں کرتا۔ موصوف نے اپنے دس سالہ جابرانہ دَور میں بھٹو اور پیپلز پارٹی پر ہر قسم کا جبر روا رکھا ، مگر اب تاریخ کا جبر جنرل ضیاء سے انتقام لے رہا ہے ۔
4اپریل کا دن آتا ہے تو زیڈ اے بھٹو کو یاد کرنے والے لاتعداد لوگ سامنے آ جاتے ہیں ۔ بھٹو کی مغفرت کے لیے لاتعداد ہاتھ اللہ کریم کی بارگاہ میں اُٹھتے ہیں ۔ سندھ میں سرکاری سطح پر پوری حدت، شدت اور جذبے کے ساتھ4اپریل کو بھٹو صاحب کو تو یاد کیا ہی جاتا ہے، مگر باقی تینوں صوبوں میں بھی ، کسی نہ کسی شکل میں، بھٹو صاحب کو یاد کیا جاتا ہے ۔
آج بھی یاد کیا جارہا ہے ۔ 46برس گزرنے کے باوصف یاد کا یہ جذبہ ماند نہیں پڑ سکا ہے ۔ بہت سے لوگوں، جماعتوں اور اداروں نے کوشش کی ہے کہ4اپریل کے دن لوگوں کو یہ یاد نہ آئے مگر یہ یاد آتی ہے اور پوری شدت کے ساتھ آتی ہے ۔بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لٹکا کر ہمارے بعض طاقتوروں کا خیال تھا کہ یوں وہ بھٹو کو ملیامیٹ کر دیں گے۔ 46سال گزرنے کے بعد آج بھی مگرثابت ہو رہا ہے کہ یہ سوچ کس قدر خام تھی!
زیڈ اے بھٹو کا مبینہ عدالتی قتل کرکے اُنہیں موت کی وادی میں پہنچانے والوں کا خیال تھا کہ بھٹو خاندان بھی ختم اور اُن کی جملہ باقیات بھی ختم۔ ایسا مگر ہو نہیں سکا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد اُن کی شیر دل صاحبزادی دو بار وزیر اعظم منتخب ہُوئیں ۔ یہ منظر بھٹو کا نامِ نامی مٹانے کی تمنا رکھنے والوں کے لیے سوہانِ رُوح تھا۔ بھٹو اور اُن کی صاحبزادی کے قتل کے بعد بھٹو کا داماد صدرِ پاکستان منتخب ہُوا ۔ آصف علی زرداری آج بھی، دوسری بار ، صدرِ پاکستان ہیں ۔بھٹو کا نواسہ اور نواسی آج بھی منتخب ارکانِ قومی اسمبلی ہیں ۔ نواسہ، بلاول بھٹو زرداری صاحب، تو آج پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔وہ ماضی قریب میں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے ۔
بھٹو کی بنائی گئی پارٹی ، جسے دو آمروں نے یکے بعد دیگرے آہنی ہاتھوں سے مٹانے کی بے حد کوشش کی، آج سندھ میں تیسری بار اقتدار میں ہے ۔ بھٹو کی پارٹی کی اعانت و سہارے پر جناب شہباز شریف کی حکومت کھڑی ہے ۔ بھٹو کی پارٹی کے وابستگان آئے روز یہ دھمکیاں دیتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم جب چاہیں مرکزی حکومت کو گرا دیں ۔ بھٹو کی پارٹی کا ایک جیالا آج بھی پاکستان کے ایوانِ بالا کا چیئرمین ہے ۔ یہ مناظر اور مثالیں بھٹو کی شخصیت اور بھٹو کی پارٹی کے زندہ ہونے کے لیے کافی نہیں ہیں؟؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پبلک لائبریری بھٹو کی پارٹی محمد علی جناح پاکستان کے گاندھی جی جنرل ضیاء بھٹو صاحب اور بھٹو بھٹو کو بھٹو کا میں بھی کہ بھٹو ا ج بھی سکا ہے کے بعد
پڑھیں:
بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں
بلوچستان کے مسئلے کو عشروں سے جس انداز میں نظر انداز اور غلط طریقے سے نپٹنے کی کوشش کی گئی ہے، اس نے حالات کو مزید پیچیدہ اور نازک بنا دیا ہے۔
ضروری ہے کہ ایک مربوط قومی کوشش کے ذریعے پچھلے برسوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔ مسائل کا حل حکومت کرسکتی ہے اور دیگر سیاسی قیادت معاونت، مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں بنیادی جمہوری تقاضا یعنی عوام کے منصفانہ اور شفاف ووٹ سے منتخب ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان حکومتوں کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں جو بلوچستان جیسے حساس اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس خلاء کو پْر کرنے کے لیے انھیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی ہے، جو ماضی میں بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو صحیح انداز میں نہیں سنبھال سکی۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنا دفاعی اداروں کا کام ہے اورنہ طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے۔
اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھاجائے۔ ان زخموں پر مرہم لگانا ہوگاجو اپنوں اور غیروں نے دیے ہیں۔تاریخی طور پر، خان آف قلات کی وساطت سے بلوچستان نے آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اْس وقت کے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولہ کے تحت کیا گیا جس میں ریاستوں کو بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا اختیار دیا گیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اس فارمولہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر جبراً قبضہ کیا اور کشمیر پر قبضے کے بعد آج تک قتل و غارتگری جاری ہے۔ بلوچستان کی تاریخی حیثیت ہر لحاظ سے واضح ہے… چاہے وہ افغانستان کے ساتھ قدیمی تعلقات ہوں، برطانوی راج سے آزادی ہو یا پھر گوادَر جیسے ساحلی علاقے کا سلطنتِ عمان سے ریاستی معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے باسیوں کے حقوق کا ہے… بلوچ، پشتون، ہزارہ، اقلیتیں اور دوسرے صوبوں سے آ کر بسنے والے لوگ— سب کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد دیگر صوبوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان کے عوام افسوس کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی بنا پر مہاجرین کی بڑی تعداد کو صوبہ چھوڑنا پڑا، جس سے تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا اور صوبہ طویل عرصے تک ماہر افرادی قوت کی تیاری میں پیچھے رہ گیا۔
آج بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مند اور مزدوریہاں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کی سلامتی اور فلاح نہ صرف انسانی بنیادوں پر ضروری ہے بلکہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی لازم ہے۔ بلوچستان میں ایسے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے کہ مقامی نوجوان بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت بن سکیں۔اب ہمیں ماضی سے نکل کر مستقبل پر توجہ دینی ہے۔ مسائل کے حل کی طرف جانا ہوگا تاکہ بلوچستان ایک پْرامن اور خوشحال خطہ بنے۔ اس کے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اصل دولت انسان ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی ہی بلوچستان اور پاکستان کی پائیدارترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل دینا ہوگا تاکہ کوئی دوبارہ پہاڑوں کی طرف نہ دیکھے۔
بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ میرٹ کی پامالی ہے۔ اسمبلیاں میرٹ پر منتخب ہوتی ہیں اور نہ ہی نوکریوں و تعلیمی اداروں میں میرٹ کا نظام موجود ہے۔ سرداری نظام صوبے کے باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ عوام کو اس غلامی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ عام آدمی سرداروں کے خلاف الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
حقیقی حکمرانی اور فیصلوں کا اختیار سرداروں کے پاس ہے۔سو ل انتظامیہ اور دیگر اداروں میں ملازمتیں اور تعلیمی مواقع بھی سرداروں اور بااثر طبقات کو ہی ملتے ہیں۔ یہی نظام کاروبار اور ٹھیکوں میں بھی کام آتا ہے، یہاں تک کہ اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کام بھی انھی تعلقات کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔
سرداروں اور سرکاری اداروں کا یہ اتحاد بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔یہی میرٹ کی پامالی سرکاری و نجی شعبے کے ناکامیوں کی جڑ ہے۔ جو بھی رقم وفاق یا این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے آتی ہے، وہ ضایع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر 100 ڈیمز کا منصوبہ جو مکمل ہونے سے پہلے ہی سیلاب میں بہہ گیا۔
بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور کاروبار کے منصفانہ مواقع دینے سے کئی مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان مایوس ہیں اور یہ مایوسی بیرونی پروپیگنڈے کو کامیاب بناتی ہے، جس کا مقصد علیحدگی پسند ذہنیت پیدا کرنا ہے۔ ہمیں پہلے اپنی غلطیوں کو دیکھنا چاہیے۔چند مثالیں واضح کریں گی کہ بلوچستان کے عام آدمی کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ گوادر سی پیک کا مرکز ہے، مگر مقامی آبادی حکومتی توجہ سے محروم ہے۔
غریب ماہی گیر غیر قانونی جالوں سے تنگ ہیں جو سمندر کی حیاتیات کو ختم کر رہے ہیں۔ ایرانی سرحد سے ضروری اشیاء کی نقل و حرکت پر عام لوگوں کو روکا جاتا ہے جب کہ اسمگلرز آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ چمن بارڈر پر بھی یہی صورتحال ہے۔ترقی کے اعتبار سے بلوچستان پیچھے ہے۔ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کی سڑکوں، صنعت، اور ہنر سازی میں سرمایہ کاری اور چین کے منصوبوں کو بلوچستان میں لانے میں ناکام رہے، نہ ہی ہم نے سی پیک اسکالرشپ کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کو تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبے رْکے ہوئے ہیں یا تاخیر کا شکار ہیں۔ اگر صنعتی زونز پر توجہ دی جاتی، تو روزگار اور معیشت میں بہتری آتی۔
بلوچستان کے آئینی حقوق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کے لیے جائز جدوجہد کو طاقت سے کچلنا بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی سزا اور ''collateral damage'' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بلوچستان کے امن کو تاراج کررہے ہیں۔
بلوچستان کا ایک اور آئینی حق گیس کی فراہمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت یہ حق محفوظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے سوئی سے 1950 میں گیس دریافت ہوئی مگر آج تک بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو گیس نہیں ملی۔ جس سے صنعتی ترقی بھی نہیں ہورہی۔ سخت موسم والے علاقوں جیسے ژوب، زیارت، اور قلات کے لوگ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے قیمتی جنگلات کاٹنے پر مجبور ہیں۔
جماعت اسلامی بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے 25 جولائی 2025 کو کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہم قومی و صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں تاکہ امن کا روڈ میپ طے کیا جا سکے۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے کچھ عملی منصوبے بھی شروع کریں گے۔ ان میں سے ایک ''بنو قابل'' پروگرام ہے، جسے ہم بلوچستان میں توسیع دے رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارت دی جا سکے اور انھیں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔
جماعت اسلامی نہ صرف ایک قومی جماعت ہے بلکہ اْمتِ مسلمہ اور انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے جڑی ہوئی تحریک ہے، جو ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی اتحاد اور سب کے لیے عدل، خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
''اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے...