پاکستان کا سلامتی کونسل سے غزہ پر خاموشی توڑ کر عملی اقدامات کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
نیو یارک(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے غزہ پر خاموشی توڑ کر عملی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق فلسطینی مقبوضہ علاقوں کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا، سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان، روس، چین، صومالیہ کی حمایت سے الجزائر نے طلب کیا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل یو این قراردادوں، جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، سلامتی کونسل غزہ پر خاموشی توڑ کر اپنا کردار ادا کرے، فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انسانیت کے ساتھ سنگین مذاق ہے، ہم ایسے ادارے کاحصہ نہیں بن سکتے جو خاموش تماشائی بنا رہے۔
محکمہ سکول ایجوکیشن کی سکولوں کے سامنے زیبرا کراسنگ بنانے کی ہدایت
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس اخلاقی دیوالیہ پن کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہیں، سلامتی کونسل اپنی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائے۔
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سلامتی کونسل
پڑھیں:
باد مخالف کے باجود اقوام متحدہ بہتر دنیا کے قیام میں کوشاں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) گزشتہ سال بڑھتی بین الاقوامی کشیدگی، وسیع ہوتی جنگوں، معاشی مسائل اور موسمیاتی بحرانوں کے باوجود اقوام متحدہ نے فروغ امن، پائیدار ترقی اور انسانی مصائب میں کمی لانے کے اپنے مشن کو ثابت قدمی سے جاری رکھا۔
اقوام متحدہ کی کارکردگی کے بارے میں آج جاری ہونے والی سیکرٹری جنرل کی رپورٹ سنگین عالمگیر مسائل کی موجودگی میں اقوام متحدہ کے مقاصد کی تکمیل سے متعلق کوششوں کی سنجیدہ مگر پرعزم تصویر پیش کرتی ہے۔
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے یہ رپورٹ ادارے کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں اعلیٰ سطحی ہفتے کے آغاز سے قبل پیش کی ہے۔ انہوں نے مشکل حالات میں بھی خدمات انجام دینے والے اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی ہمت اور لگن کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ نہایت کٹھن حالات کے باوجود بہتر دنیا کے لیے کوشش جاری رکھی جا سکتی اور رکھنی چاہیے کیونکہ ایسی دنیا انسان کی دسترس میں ہے۔
(جاری ہے)
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں نے دنیا بھر میں 198 ملین افراد کی امدادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 50 ارب ڈالر فراہم کرنے کی اپیل کی۔ ادارے کو اس ضمن میں نصف وسائل (25 ارب) ڈالر حاصل کرنے میں کامیابی ملی جن سے 77 ممالک اور علاقوں میں 116 ملین ضرورت مند لوگوں کو امداد پہنچائی گئی۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ کے عملے اور انسانی امداد فراہم کرنے والے کارکنوں کے لیے اب تک کا سب سے زیادہ ہلاکت خیز برس ثابت ہوا جب عسکری کارروائیوں میں 373 امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا گیا۔
ان میں سے بیشتر کا تعلق فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) سے تھا۔رپورٹ کے اجرا پر سیکرٹری جنرل نے ان کارکنوں کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کیا اور دنیا کے سب سے زیادہ کمزور طبقات کا ساتھ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔
امن و سلامتی کو درپیش بڑھتے ہوئے عالمی مسائل کے باوجود سفارت کاری برائے امن اقوام متحدہ کے کام کا مرکزی ستون رہی۔
خطرات کے باوجود ادارے کی سفارتی کوششوں نے روزانہ لاکھوں شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا اور امن عمل کو آگے بڑھایا۔شام میں سیاسی تبدیلی کے دوران اقوام متحدہ نے تشدد میں کمی لانے، شہریوں کے تحفظ اور علاقائی کشیدگی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے فریقین سے سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے تحت رابطہ رکھا۔
اسی دوران، اقوام متحدہ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بشمول مشرقی یروشلم، غزہ و مغربی کنارے اور وسیع تر خطے میں تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کی تاکہ تشدد کو ختم کیا جائے، انسانی امداد کی رسائی بہتر بنائی جا سکے اور متاثرہ لوگوں کو امداد کی فراہمی جاری رکھی جا سکے۔
اقوام متحدہ نے لبنان میں بھی کشیدگی کا خاتمہ کرنے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے تحت قیام امن کے لیے کام کیا جس کی بدولت بلیو لائن کے دونوں طرف رہنے والے لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکے۔
اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں امن مذاکرات کے لیے سہولت کاری، ریاستی بحالی میں معاونت اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے۔ ابیئی میں پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کے نتیجے میں بین النسلی تشدد میں کمی دیکھی گئی۔
قیام امن فنڈ کے ذریعے 32 ممالک اور علاقوں میں امن منصوبوں بالخصوص صنفی مساوات کو یقینی بنانے کے اقدامات میں تعاون کے لیے 116 ملین ڈالر سے زیادہ رقم مختص کی گئی۔ علاوہ ازیں، علاقائی تنظیموں، جیسا کہ افریقن یونین کے ساتھ شراکت داری نے تنازعات کی روک تھام کے اقدامات کو مزید مضبوط کیا۔
گزشتہ سال منعقد ہونے والی 'کانفرنس برائے مستقبل' کثیرالملکی تعاون کے لیے تاریخی موڑ ثابت ہوئی۔
اس موقع پر عالمی رہنماؤں نے معاہدہ برائے مستقبل' کی منظوری دی جس کا مقصد بین الاقوامی تعاون کو ازسرنو تقویت دینا اور انسانوں اور کرہ ارض کو درپیش مسائل کا دیرپا حل فراہم کرنا ہے۔یہ معاہدہ سفارت کاری کو مضبوط بنانے، تنازعات کی روک تھام، عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات، ہنگامی موسمیاتی اقدامات اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کی جانب تیزرفتار پیشرفت پر زور دیتا ہے۔
اس میں مزید مؤثر اور نمائندہ عالمی انتظام کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے جس میں سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ترقی پذیر ممالک کو خاطرخواہ نمائندگی دینے کے وعدے شامل ہیں۔اس معاہدے کے ساتھ دو اہم دستاویزات کو بھی بطور ضمیمہ منظور کیا گیا جن میں 'عالمی ڈیجیٹل معاہدہ' اور 'آئندہ نسلوں کے لیے اعلامیہ' شامل ہیں۔
اول الذکر معاہدہ محفوظ، کھلے اور مشمولہ ڈیجیٹل مستقبل کا خاکہ پیش کرتا ہے۔
یہ رکن ممالک کو ڈیجیٹل فرق ختم کرنے، سبھی کے لیے ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کی فراہمی اور ڈیٹا و مصنوعی ذہانت کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کا پابند بناتا ہے۔موخر الذکر پہلا عالمی معاہدہ ہے جس کا مقصد دور حاضر میں لیے جانے والے فیصلوں میں آئندہ نسلوں کے حقوق اور مفادات کو منظم طریقے سے شامل کرنا ہے۔ یہ پالیسی سازی میں مستقبل بینی کو جگہ دیتا اور طویل مدتی و پائیدار اقدامات کی راہ ہموار کرتا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ دور حاضر کے اہم مسائل کو حل کر کے مزید مساوی اور پائیدار مستقبل کی راہ ہموار کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو پوری انسانیت کے لیے فائدہ مند بنانے کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا رہنما تصور یہ ہے کہ انسانی حقوق عالمی سطح پر درپیش مسائل کے حل کی قوت اور امن، انصاف اور پائیدار ترقی کی بنیاد ہیں۔
2024 میں اقوام متحدہ نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے، دیہی اور محروم طبقات کو بااختیار بنانے اور قیام امن و آئینی عمل میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کو آگے بڑھایا۔تنازعات، مہاجرت، موسمیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل انتظامات سے متعلق اقدامات میں انسانی حقوق کو بھی شامل کیا گیا جس سے اقوام متحدہ کے کام میں تحفظ، جوابدہی اور شمولیت کو تقویت ملی۔
اسی دوران پائیدار ترقی اور موسمیاتی اقدامات بھی اقوام متحدہ کی ترجیحات میں شامل رہے۔ ادارے نے 170 ممالک کو ان کے طے شدہ قومی موسمیاتی اقدامات (اہداف) کے نفاذ میں معاونت فراہم کی۔
ادارے نے عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات پر زور دیا تاکہ 'ایس ڈی جی' کے لیے مالی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور کمزور ترین ممالک کو 2030 کے ایجنڈا برائے ترقی میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کا منصفانہ موقع فراہم ہو سکے۔
سیکرٹری جنرل نے غیرمعمولی خطرات کے باوجود اپنی ذمہ داریاں انجام دینے والے اقوام متحدہ کے عملے کو سراہا اور امداد کی فراہمی کے اصولوں کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے مسلح تنازعات کے دوران شہریوں، ہسپتالوں، سکولوں اور امدادی کارکنوں پر منظم حملوں کی مذمت کی جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پامالی کے مترادف ہیں۔انتونیو گوتیرش نے کہا، یہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ اگرچہ دنیا نہایت کٹھن دور سے گزر رہی ہے لیکن اقوام متحدہ امن کے قیام، پائیدار ترقی کے فروغ اور انسانی حقوق کے دفاع و تحفظ کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھے گا۔