رشتے کا تنازعہ؛ شادی کے روز سالی کو قتل کرنے والا بہنوئی گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
لاہور:
سندر کے علاقے میں شادی کے روز نوجوان لڑکی عائشہ حبیبہ کو قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سید ذیشان رضا نے قتل کی اس بڑی واردات کا نوٹس لیا تھا جس پر ایس پی انویسٹی گیشن صدر معظم علی کی سربراہی میں ملزم کی گرفتاری کے لیے ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔
انچارج انویسٹی گیشن تھانہ سندر انسپکٹر پاشا عمران نے پولیس ٹیم کے ہمراہ کارروائی کر کے ملزم کو گرفتار کر لیا۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے مطابق ملزم اکرام مقتولہ کا بہنوئی ہے، جس نے مقتولہ کو رشتے کے تنازعہ کی وجہ سے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔
ملزم اس واردات کے بعد موقع سے فرار ہوگیا تھا تاہم جدید ٹیکنالوجی اور ہیومن انٹیلیجنس کی مدد سے ملزم کو گرفتار کیا گیا۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کا کہنا ہے کہ شواہد کی روشنی میں مضبوط چالان مرتب کرکے ملزم کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی، قانون شکن عناصر سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے گا۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد نوید کی طرف سے پولیس ٹیم کے لیے تعریفی اسناد کا اعلان کیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انویسٹی گیشن ملزم کو
پڑھیں:
آزادکشمیر میں انصاف کی مثال: سپریم کورٹ نے جج کو سزا دے کر کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مظفرآباد: آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سیشن جج حویلی کو تین دن کی سزا سنا دی، جس کے بعد پولیس نے حاضر سروس جج کو عدالت کے کمرے سے گرفتار کرلیا۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے سنایا، جس میں عدالت کے وقار اور احکامات کی خلاف ورزی پر سخت ریمارکس دیے گئے۔
عدالت کے مطابق، ہیروئن کی بھاری مقدار رکھنے کے الزام میں گرفتار ایک ملزم کی ابتدائی ضمانت 19 جنوری 2023 کو سپریم کورٹ نے مسترد کی تھی، اور واضح ہدایت دی گئی تھی کہ اگر کوئی نیا مواد سامنے آئے تو ملزم دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔
تاہم، ہدایت کے صرف ایک ماہ بعد، اُس وقت کے انسداد منشیات عدالت حویلی کے جج راجہ امتیاز نے ملزم کو بری کر دیا، جس کے بعد وہ بیرون ملک فرار ہو گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ راجہ امتیاز نے عدالت کے روبرو جھوٹ بولا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے بریت کا کوئی فیصلہ نہیں دیا، مگر عدالتی ریکارڈ سے ان کا حکم نامہ برآمد ہو گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جج کے اس عمل نے عدالت عظمیٰ کی اتھارٹی کو چیلنج کیا اور اس کے وقار کو مجروح کیا۔
عدالت نے اس بنیاد پر توہین عدالت کے مرتکب قرار دیتے ہوئے سیشن جج کو سزا سنائی، جس کے فوراً بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ یہ واقعہ عدالتی تاریخ میں ایک سنگین مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔