آئیں مل کر اپنی آوازیں تلاش کرتے ہیں!
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
سوال زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ،ایک سوال جس میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی جارہی ہے کہ آخر پاکستان کے عوام ملک کے سیاسی ، سماجی ، معاشرتی کے ساتھ ساتھ اپنے تمام معاملات سے اتنے لا تعلق کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟ماتمی جلوسوں کے علاوہ ان کی آوازیں کیوں سنائی نہیں دیتی ہیں؟ یہ بیس کروڑ انسان بے آواز کیوں ہوگئے ہیں؟ یہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت کیوں نہیں دیتے ہیں؟ آخر ایسا اور کونسا ظلم اور ستم ان پر ہوگا کہ جب ان کی آواز یں لوٹ آئیں گی۔ خلیل جبران نے کہا تھا ” قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سواکبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھرنے کی کو شش کرے جب اس کا سرتن سے جدا کرنے کے لیے تلوار او رلکڑی کے درمیان رکھا جاچکا ہو ” ۔
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب کے سب اپنے آپ سے ناراض ہیں یا اپنے آپ سے انتقام لے رہے ہیں یا اپنے آپ کو سزا دے رہے ہیں ۔ اگرایسا کچھ نہیں ہے تو پھرآئیں مل کر اپنی آوازیں تلاش کرتے ہیں جو کہیں گم ہوگئی ہیں لیکن اس سے پہلے ، پہلے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں آج جو لوگ اختیارات کے مالک بنے ہوئے ہیں جو ملک اور قوم کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں یا جواب تک فیصلے کرتے آئے ہیں ۔ وہ انسانی فطرت کی مکمل اور درست ترین تفہیم ہی نہیں رکھتے و ہ لوگوں کو اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے ، تفہیم اور ادراک کا یہ فقدان انہیں اعلیٰ تر تر غیبات ، جوہر اور ذہانت کو بروئے کار لا نے سے روکے رکھتا ہے ۔آج جب آپ انسانوں کو چیزوں کی طرح برتتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ؟ وہ تو ہین محسوس کرتے ہیں اور الگ تھلگ ہوجاتے ہیں، کام میں ذاتی دلچسپی نہیں لیتے وہ اعتمادسے محروم ہوجاتے ہیں آپ سے اجنبی ہوجاتے ہیں اور ملکی اور قومی معاملات میں سے اپنی ذات کو نفی کردیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے طورپر قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے پھر سماج میں بے بسی ، بے حسی اور انتشار کے بھوت جنم لینا شروع کردیتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے بعد بھوتوں کے بچے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں، پھر ایسے سماج میں انسان کم اور چاروں طرف بھوت ہی بھوت نظر آنے لگتے ہیں پھر شخصیات مضبوط تر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ قوم اورادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے جاتے ہیں ۔یہ صورتحال ان شخصیات کے لیے آئیڈیل ہوجاتی ہے جو جمہوریت کے نام پر اپنے آپ کو ہمیشہ ملک اور قوم پر مسلط رکھنا چاہتے ہیں جو اپنے آپ کو ناگزیر اور ہر مسئلے کا حل ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھنے کے لیے یہ صورتحال پیدا کرنا ضروری ہے ۔ ”آئیں ایک ہالی ووڈ فلم Max & Max کا تذکرہ کرتے ہیں جو اسی مسئلے کی وضاحت کرتی ہے ۔یہ ایک فکشن اسٹوری ہے جس میں ایک میکس شکاری کتا اور دوسرا میکس نیا ملازم کسٹمر ز سروس کا نمائندہ ہے۔ اس کہانی میں ایک باس مسٹر ہیرالڈ ہے جو اپنے ملازمین کے امور دیکھتا ہے۔ ہیرالڈ کاطرز عمل اپنے ملازمین کے ساتھ جن میں نیا ملازم میکس بھی شامل ہے ویسا ہی ہے جیسا وہ اپنے کتے میکس کے ساتھ روا رکھتا ہے ۔اس فلم کا سیٹ ” کام کی جگہ ” ہے یاد رہے کہ ہر ایک کی کام کی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ طالب علموں ، اساتذہ اورایڈمنسٹریٹر زکے لیے یہ اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ہوتی ہے کچھ لوگوں کے لیے یہ ان کاکاروباری مقام ہوتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے ان کے آفس کام کی جگہ ہوتے ہیں۔ خاندانوں کے لیے ان کا گھر ،کسانوں کے لیے ان کے کھیت ،مزدوروں کے لیے ان کی ملیں، ان کے علاوہ بھی کچھ مقامات کا م کی جگہیں ہوتی ہیں۔ مثلاً مسجد، مندر، چرچ ، چنانچہ یہ بات کام کے متعلق نہیں بلکہ انسانی تعلقات اوران افراد کے باہمی افعال کے متعلق ہے جو ایک مشترکہ مقصد میں بند ھے ہوتے ہیں۔اس فلم کی کہانی کو ہراس ماحول میں تلاش کیاجاسکتا ہے جہاں آپ دوسروں کے ساتھ مل کر اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔فلم کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ میکس ہم میں سے بہت سوں کی طرح جو ایک نئی ملازمت شروع کرتے ہیں جو ش و جذبہ سے لبریز ہے جب وہ گاہکوں کو اپنی فرم سے متعارف اور مربوط کرنے کے لیے ازخود پیش قدمی کرتا ہے تو مسٹر ہیرالڈ اس سے کچھ باتیں چھپا لیتا ہے میکس کو اس انداز میں کنٹرول اور بے اختیار کیاجاتا ہے کہ و ہ اپنے مقصد کی بصیرت اپنی صلاحیتوں اور انتخاب کی آزادی سے محروم ہوجاتا ہے وہ اپنی آواز کھو بیٹھتا ہے، وہ قسم کھالیتا ہے کہ اب اپنے طورپر کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ چنانچہ میکس اپنے باس کا دست نگر ہوجاتا ہے اور اب وہ میکس نامی کتے کی طرح ہر اگلے قدم کے لیے باس کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ ہیرالڈ کا رویہ مسٹر میکس کے ساتھ بھی وہی ہے جو اپنے کتے میکس کے ساتھ ہے اور اس طرح کا توہین آمیز انتظام و باکی طرح پوری کمپنی میں پھیلا ہواہے۔ کمپنی کا ہر ملازم باس کا دست نگر ہے ”۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ انسان ایسی چیز نہیں جسے ہانکا اور قابو کیا جائے ۔ قدیم دور میں انسانوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے انہیں ہانکا اورقابو میں رکھا جاتا تھا پھر جیسے جیسے شعور ترقی کرتا چلا گیا توانسان آزاد اور خود مختار ہوتا چلا گیااور آج پوری دنیا میں انسان آزاد اور خود مختار ہے۔ اسی لیے انسان خو شحال اور خو ش و خروم بھی ہے ا ب وہاں کوئی بھی ہیرالڈ کسی دوسرے انسان سے اپنے کتے میکس کی طرح برتائونہیں کررہاہے اور نا ہی وہ ایسا کرنے کا سو چ بھی سکتا ہے ۔اب اسے کیاکہا جائے کہ آج ہمارے ملک کے ہیرالڈ ملک کے بیس کروڑ انسانوں کو میکس سمجھتے ہوئے اسی طرح کا برتائو ان سے کررہے ہیںیہ سو چے سمجھے بغیر کہ آج کے دور میں یہ رویہ اوربرتائو برداشت کرنا نا ممکن ہے۔ انسان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنی توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں کرسکتا ، اگر ہمارے ہیرالڈ وں کا یہ ہی رویہ اور برتائو اسی طرح سے اور جاری رہا تو پھر وہ ہی سب کچھ ہوگا جو فرانس، روس اور دیگر ممالک میں ہوچکاہے ۔ ملک اس وقت مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں جب اس کے عوام ملکی اور قومی معاملات میں بھرپور دلچسپی اور حصہ لے رہے ہوں اور جب عوام ملکی اور قومی معاملات سے لا تعلق ہوجاتے ہیں تو پھر وہ ملک انتہائی کمزور ہوجاتے ہیں۔ یہ بات ہم جتنی جلدی سمجھ لیں گے۔ اتناہی ہمارے حق میں بہتر ہے ورنہ آسمان پر لکھا صاف نظر آرہاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ہوجاتے ہیں کے لیے ان کرتے ہیں کے ساتھ اپنے آپ رہے ہیں اور قوم جو اپنے ہیں جو کی طرح
پڑھیں:
غزہ کے بچوں کے نام
رات کے اندھیرے میں جب دنیا کے خوشحال اور پرامن شہروں میں نیند اپنی پُرکیف آغوش میں لوگوں کو سلاتی ہے تب غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو ملبے تلے ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔ نہ بجلی ہے نہ پانی نہ دوا نہ دلاسہ۔ ہر طرف خاک اُڑتی ہے اس مٹی میں بے گناہ فلسطینی دفن ہیں۔
وہ بچی جو اسکول سے واپس آرہی تھی، آسمان سے برستی آگ کی ایک لکیر نے اس کا بستہ اس کی کاپی اس کا ننھا سا یونیفارم اور اس کا وجود ایک لمحے میں مٹا دیا۔ دنیا کی خاموشی نے اس معصوم کی موت کو محض ایک کولیٹرل ڈیمیج میں بدل دیا۔
غزہ اب کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں۔ یہ اب ایک اجتماعی قبر ہے جہاں ہر دن نئی قبریں کھو دی جاتی ہیں مگرکوئی کتبہ نہیں لگتا۔ نہ نام، نہ تاریخ پیدائش، نہ تاریخِ وفات۔ بس ایک ہجوم ہے جو ماضی حال اور مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن کرتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں حکومتیں لڑتی ہیں مگر مرتے عوام ہیں۔ غزہ میں تو حکومتیں بھی محصور ہوچکی ہیں اور عوام بھی۔ یہاں امن کا دروازہ کھلتا نظر نہیں آرہا اور لوگ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ایک طرف بمبار طیارے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی وہ تصویریں جوکبھی اسکول کے کارڈ پر لگی تھیں۔
یہ کون سا انصاف ہے کہ ایک پورا خطہ دنیا کی سب سے جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے نشانے پر ہو اور اس کی واحد طاقت اس کی مظلومیت ہو؟ یہ کون سا عالمی ضمیر ہے جو یوکرین کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر لیتا ہے مگر فلسطین کے لیے اس کی زبان گُنگ اور قلم خشک ہوجاتا ہے؟
میں سوچتی ہوں اگر محمود درویش آج زندہ ہوتے توکیا لکھتے؟ کیا وہ پھر کہتے’’ ہم زندہ رہیں گے کیونکہ ہم مرنا نہیں چاہتے۔‘‘یا پھر خاموش ہو جاتے؟ جب مسلسل بمباری میں زندگی کی ہر صورت بکھر جائے تو شاعری بھی بے بس ہو جاتی ہے۔غزہ کے اسپتالوں میں زخمی بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ موت کا گہرا سایہ ہر وقت فلسطینیوں کے سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ایک بچہ جس کی دونوں ٹانگیں اُڑ چکی ہیں۔ اپنی ماں سے پوچھتا ہے’’ امی،کیا اب بھی میں اسکول جا سکوں گا؟‘‘ اور ماں اپنی چیخ اپنے سینے میں دفن کر لیتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادیں انسانی حقوق کے عالمی منشور انصاف کے دعوے دار بین الاقوامی ادارے سب غزہ میں ہونے والے ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ غزہ میں ہونے والے مکروہ جرائم کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں مگر اسرائیل اور امریکا کی حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ مگر تاریخ اس ظلم و زیادتی کو نہ بھولے گی اور نہ معاف کرے گی۔
میں نے ایک بوڑھی فلسطینی عورت کی تصویر دیکھی جو اپنی بیٹی کی لاش پر بیٹھ کر کہہ رہی تھی ’’ یہ میری آخری امید تھی اب خدا ہی باقی ہے۔‘‘ اُس عورت کی آنکھوں میں وہ دکھ تھا جسے لفظوں میں نہیں سمویا جا سکتا۔ یہ دکھ کسی ایک ماں کا نہیں پورے مشرقِ وسطیٰ کا نوحہ ہے جو روز نئی لاشوں پر ماتم کرتا ہے۔
ظلم جہاں بھی ہو انسان کے اندرکی انسانیت اگر زندہ ہو تو خاموش نہیں رہ سکتا۔ تو پھر یہ عالمِ اسلام کیوں خاموش ہے؟ تمام مسلم ممالک فلسطینیوں کے لیے کیا کررہے ہیں؟ اس خاموشی کا حساب ایک نہ ایک دن دینا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ تمام ممالک ایک ہوکر فلسطینیوں کی آواز بنیں اور ان کا ساتھ دیں۔ کیسے ان بچوں سے منہ موڑا جاسکتا ہے جو اسرائیل کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔
کیا ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں جب مظلوم ہماری زبان بولے ہمارا لباس پہنے یا ہمارے مفادات سے جُڑا ہو؟ اگر ظلم کو صرف قوم نسل یا مذہب کے ترازو میں تولا جائے تو انسانیت کہاں جائے گی۔میری آنکھوں کے سامنے غزہ کا ایک اور منظر آتا ہے ایک لڑکی جو اپنی چھوٹی بہن کو گود میں لیے کھڑی ہے، اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے مگر وہ رو نہیں رہی۔ وہ بس خلا میں دیکھ رہی ہے جیسے سوال کر رہی ہو’’ کیا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں فلسطینی ہوں؟‘‘یہ سوال صرف اسرائیل سے نہیں ہم سب سے ہے۔جو لوگ غزہ کے ظلم پر خاموش ہیں وہ درحقیقت اس بچی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل نہیں۔کیونکہ وہاں صرف لہو نہیں ایک پوری نسل کی شکستہ امیدیں جھلک رہی ہیں۔
پاپائے روم فرینسس، نے کہا’’ یہ جنگ نہیں یہ نسل کشی ہے۔‘‘ مگر کیا یہ آواز عالمی عدالتوں کے کانوں تک پہنچی؟ یا پھر وہ عدالتیں صرف ان کے لیے کھلتی ہیں جو سفید فام ہوں یا جن کے پاس نیٹوکی چھتری ہو؟غزہ کی بربادی صرف اسرائیلی اور امریکی ریاستوں کی جارحیت کا شکار نہیں بلکہ وہ حکومتیں جو اس ظلم پر خاموش ہیں وہ سب اس گناہ میں شریک ہیں۔ جہاں حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، وہیں دنیا بھر میں عام آدمی سڑکوں پہ فلسطین کے لیے اپنی آواز اٹھا رہا ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ اس تحریرکے آخر میں کوئی امید کی بات لکھوں مگر جھوٹ نہیں لکھ سکتی۔ غزہ کے بچوں کی لاشوں پر امن کی کوئی داستان نہیں لکھی جا سکتی۔ ہاں اگرکچھ باقی ہے تو یہ ایک سوال جو ہر باشعور انسان کے دل میں جاگنا چاہیے۔ ’’ اگر ہم نے آج غزہ کے لیے آواز نہ اٹھائی تو کل جب ہمارے دروازے پر قیامت آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟‘‘