’امید کرتا ہوں کہ ٹک ٹاک زندہ رہے گا‘، ٹرمپ نے ایپ کو حاصل مدت میں توسیع کردی
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز ٹک ٹاک کو ڈیڈ لائن ختم ہونے سے ایک دن پہلے امریکا میں اس فروخت یا پابندی کے لیے مزید 75 دن کی مہلت دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نوعمر ٹک ٹاکرز کے اکاؤنٹ اب ان کے والدین کنٹرول کرسکیں گے
یاد رہے کہ ٹک ٹاک پر پابندی لگانے والے کانگریس کے قانون کو نافذ کرنے پر صدر کا 75 دن کا وقفہ ہفتہ کو ختم ہونا تھا۔ جب کہ صدر جوبائیڈن نے اپنے عہدہ چھوڑنے سے ایک دن قبل 19 جنوری کو نافذ ہونے والی اصل ڈیڈ لائن کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ڈیڈ لائن قریب آںے پر170 ملین ماہانہ صارفین کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم 12 گھنٹے تک ’تاریکی‘ میں چلا گیا تھا، لیکن جب ٹرمپ نے مزید وقت دینے کے ایگزیکٹو آرڈر کا وعدہ کیا تو اسے بحال کر دیا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے ٹروتھ سوشل پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ’ ڈیل سے متعلق تمام ضروری منظوریوں پر دستخط یقینی بنانے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں:البانیہ میں ٹک ٹاک پر ایک سال کے لیے پابندی عائد
اپنی پوسٹ میں ان کا مزید کہنے تھا کہ ’ہم چین کے ساتھ نیک نیتی سے کام جاری رکھنے کی امید کرتے ہیں، جو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے باہمی محصولات (چین اور امریکا کے درمیان منصفانہ اور متوازن تجارت کے لیے ضروری ہے) سے بہت خوش نہیں ہیں‘۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق امریکی صدر نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ٹک ٹاک میں دلچسپی رکھنے والے متعدد ممکنہ خریدار ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ ٹک ٹاک زندہ رہے گا۔
دوسری طرف ٹک ٹاک کے ترجمان نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ کمپنی ’ٹک ٹاک کے ممکنہ حل کے بارے میں امریکی حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا پابندی ٹک ٹاک ڈونلڈ ٹرمپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا پابندی ٹک ٹاک ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے
پڑھیں:
امید ہے ایک دن صیہونی حکمران سلاخوں کے پیچھے ہوں گے، انسپکٹر اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی انسپکٹر جنہوں نے حال ہی میں غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے نسل کشی پر مبنی جنگی جرم کی تصدیق ہے نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری نسل کشی اور روانڈا کے قتل عام میں بہت شباہت پائی جاتی ہے اور مجھے امید ہے کہ ایک دن اسرائیلی حکمران سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ اسلام ٹائمز۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی سابق جج اور 1994ء میں روانڈا میں انجام پانے والی نسل کشی کے بارے میں تحقیق کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت تشکیل پانے والی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ناوی پیلائے نے حال ہی میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی ہے اور اس میں نسل کشی انجام پانے کی تصدیق کر دی ہے۔ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی آزاد انسپکٹر کے عنوان سے فرانسیسی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے جنوبی افریقہ میں نسل کشی کے خلاف جدوجہد کی علامت بن جانے والے نیلسن مینڈیلا کا یہ بیان دہرایا کہ "ہر کام جب تک انجام نہ پایا ہو ہمیشہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔" اسی طرح انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ صیہونی رژیم کے حکمرانوں پر نسل کشی کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ انہوں نے کہا: "میں اس بات کو ناممکن نہیں سمجھتی کہ مستقبل میں اسرائیلی حکمران گرفتار ہو جائیں اور ان پر مقدمہ چلایا جائے۔" غزہ میں نسل کشی کی تحقیق کرنے والے آزاد بین الاقوامی کمیشن نے یہ نتیجہ حاصل کیا کہ اسرائیل کے صدر اسحاق ہرتزوگ، وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر جنگ یوآو گالانت "غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے مرتکب ہوئے ہیں۔"
دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے ان نتائج کو مسترد کر دیا ہے اور اقوام متحدہ کے تحت آزاد بین الاقوامی کمیشن کی رپورٹ کو "گمراہ کن اور غلط" قرار دیا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی آزاد انسپکٹر ناوی پیلائے نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ میں انجام پانے والے فلسطینیوں کے قتل عام اور روانڈا میں انجام پانے والی نسل کشی میں بہت زیادہ شباہتیں پائی جاتی ہیں۔ یاد رہے روانڈا کی نسل کشی میں 8 لاکھ افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ناوی پیلائے نے روانڈا میں نسل کشی کی تحقیق کرنے والی بین الاقوامی فوجداری عدالت کی سربراہ کے طور پر اعلان کیا ہے کہ عام شہریوں کے ٹارچر اور قتل کی تصاویر نے انہیں زندگی بھر متاثر کیا ہے۔ انہوں نے غزہ اور روانڈا میں عام شہریوں کے قتل عام کے "ملتے جلتے طریقوں" کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ روانڈا میں نسل کشی سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا: "روانڈا کی نسل کشی میں تیونسی شہری نشانہ بنے تھے اور اب تمام تر شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینی غزہ میں نسل کشی کا نشانہ بن رہے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "اسرائیلی حکمرانوں نے کچھ بیانات دیے ہیں اور فلسطینیوں کو "حیوان" بھی کہا ہے جس سے روانڈا میں نسل کشی کے وقت ان حکمرانوں کے بیانات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو تیونسی شہریوں کو "کاکروچ" کہا کرتے تھے۔" یاد رہے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ جنگ کا آغاز کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی کے ساتھ ساتھ شدید قحط بھی پیدا ہو گیا ہے اور دسیوں ہزار فلسطینی شہری جن میں سے اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے شہید ہو چکے ہیں۔ تل ابیب نے عالمی برادری کی توہین جاری رکھی ہوئی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظرانداز کرنے کے ساتھ ساتھ تمام تر بین الاقوامی قوانین کو بھی پامال کیا ہوا ہے۔ سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا حکم دے رکھا ہے جبکہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے بھی غزہ میں نسل کشی روک دینے کا حکم دیا ہے لیکن صیہونی حکمران بدستور انسان سوز مظالم جاری رکھے ہوئے ہیں۔