سینئر وکیل نعیم بخاری کی بانی پی ٹی آئی پر تنقید
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
سینئر وکیل اور میزبان نعیم بخاری نے بانی پی ٹی آئی پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کی زمین کو تو انہیں ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہیے تھا۔ وہ اگر بانی پی ٹی آئی کے مشیر ہوتے تو انہیں یہ مشورہ دیتے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ ریاست کا ملکیتی کوئی ہار آپ کیسے لے سکتے ہیں؟ کوئی بال پین یا پینسل بھی تحفہ ملے تو وہ بھی ریاست کی ملکیت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی مردم شناس بھی نہیں۔ بانی پی ٹی آئی فواد چودھری کو کیسے منتخب کر سکتے ہیں؟ بابر اعوان مشیر کیسے ہو سکتے ہیں؟
سینئر وکیل کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی توہم پرست بھی ہو گئے تھے، کہ آج دن اچھا نہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
آپ حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے!
آفتاب احمد خانزادہ
ڈاکٹر جول واس( Dr.Joel Voss)کہتا ہے ”آپ حقیقت سے بھاگ سکتے ہیں لیکن آپ حقیقت سے بھاگنے کے نتائج سے نہیں بھاگ سکتے ”۔اپنے باپ کے نام ایک خط میں فرانز کا فکالکھتاہے ”یہ بھی درست ہے کہ آپ نے شاید ہی کبھی مجھے پیٹا ہو لیکن آپ کا بلندآواز میں چلانا، غصے میںآپ کے چہرے کاسرخ ہونا اور تیزی سے گلیس کو کھولنااورانہیں کرسی کی پشت پر ٹانگ دینا، یہ سب میرے لیے بد ترین صورتحال تھی کہ جیسے کسی کو پھانسی کی سزا دی جانے والی ہو اگر اسے واقعی پھانسی پر لٹکادیا جائے تو وہ مر جائے گااور اس کا قصہ تمام ہوجائے گالیکن اگر اسے پھانسی پر لٹکانے جانے کے ابتدائی مراحل سے گذارا جائے پھر جب پھندا اس کے چہرے کے سامنے جھول رہاہوا سے بتایا جائے کہ اسکی سزا ملتوی کردی گئی ہے تو وہ اس سزا میں تمام عمر مبتلا رہے گا ” ۔
جرمن مورخ Karl Von Rottekکاکہنا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں تین اہم واقعات ہوئے (١)عیسائیت کافروغ (٢) چھاپہ خانہ کی ایجاد (٣)فرانسیسی انقلاب۔ ان تینوں میں سے عیائیت اور چھاپہ خانہ نے دنیاکوآہستہ آہستہ اور مرحلہ وار تبدیل کیاجبکہ انقلاب فرانس نے دنیاکواچانک تیزی سے بدل کر رکھ دیا۔ اس سے نہ صرف سیاسی تبدیلیاں آئیں بلکہ سماجی اورمعاشی طورپردنیابدل کررہ گئی۔ دنیابھر کے مورخین کی اکثریت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ انقلاب فرانس اچانک نہیں آیا بلکہ اس کے پس منظر میں صدیوں کے جمع شدہ مسائل تھے جو حل نہ ہونے کی صور ت میں برابر جمع ہورہے تھے ،یہ وہ صورتحال تھی کہ جس سے صرف فرانس ہی نہیں بلکہ پورا یورپ دوچار تھا جب جمع ہوتے ہوتے مسائل کاانبار لگ جائے تو پھر ایسے سماج میں سانس لینا تک دشوار ہو جاتاہے پھرانسان کے ساتھ ساتھ مسائل بھی پھٹ پڑتے ہیں اور پھر اس میںسے تین نعرے آزادی، مساوات اور اخوت نکل کر سامنے ا جاتے ہیں ۔ یورپ میںسماج کو تبدیل کر نے اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے دو طریقہ کار سامنے آئے (١) اصلاحات کے ذریعے سے حالات کو بدلاجائے اور سماج کی ضروریات کو پورا کیاجائے (٢)یاانقلاب کے ذریعے سے کہ جس میں تشدد کاعنصر بھی شامل ہوتاہے ۔ تبدیلی لائی جائے ۔سوائے انگلستان کے یورپ کے دوسروں ملکوں نے فرانسیسی انقلاب اور اس کے نتائج کوقوت و طاقت اورجبرسے روکنے کی کوشش کی مگر 1830اور1844کے انقلابات نے انہیں اس پر مجبور کیا کہ وہ نہ صرف اپنے طوروطریقے اور اپنے دستوروں کوبدلیں بلکہ لوگوں کو بھی نمائندگی دیں ۔ روس جوان اصلاحات سے علیحدہ رہا بالاخر اسے 1917میں انقلاب کا سامنا کرنا پڑگیا ۔ تمام حکمران طبقوں نے اندازہ لگا لیا تھا اگر سماجوں کی اصلاح نہیں کی گئی تو انہیں بھی فرانس جیسی صورتحال سے دو چار ہونا پڑے گا ۔ جب 1874میںBenjamin Disraliانگلستان کاوزیراعظم بنا تو اس نے بھی اصلاحات کی اہمیت کوسمجھااس نے اپنے ایک ناول میں لکھا کہ برطانیہ میں دوقومیں آباد ہیں، ایک امیر اوردوسری غریب ۔1872میں اس نے پارلیمنٹ میںتقریر کرتے ہوئے کہا تھا
” خالص ہوا، خالص پانی ،غیر صحت مند رہائشی علاقوں کی دیکھ بھال اور ملاوٹ والی غذا، یہ وہ باتیں ہیں کہ جن پرغورکر نے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کی پہلی ذمہ داری لوگوں کی صحت ہوتی ہے ۔اس نے کہاتھا کہ محل غیرمحفوظ سے اگر کاٹیج کا رہنے والا ناخوش ہے۔ انگلستان کے مفکرجیمس مل نے1836 میں لکھا”امرا ء صرف اپنی زمینوں کی فکر کرتے ہیں اور بغیر کام کاج کئے روپیہ پیسہ حاصل کرتے ہیں وہ جس طریقے سے دولت حاصل کرتے ہیں اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ”۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح لوگوں کے خیالات بدل رہے تھےElite Classکے بارے میں1847 میں پیرس کے ایک اخبار نے لکھا کہ ” بورژوا کوئی طبقہ نہیں ہے یہ ایک حیثیت یا مرتبے کانام ہے اس لیے کوئی بھی اس مرتبہ اورحیثیت کوحاصل کرسکتاہے اور کھوبھی سکتاہے ۔ یہ مرتبہ کام، کفایت شعاری اور لیاقت سے حاصل ہوتا ہے جب بد عنوانی ، گناہ گاری اور سستی آجائے تو یہ ختم ہوجاتاہے”۔ فرانس کے ادیب بالزاک نے1850 میں ان کے لیے لکھاتھا ” یہ ایک دوسرے کو اس طرح مارتے ہیں جیسے کہ مرتبان میں بند مکڑیاں ایک دوسرے کو ختم کرتی ہیں ” اصل میں ان کوسب سے زیادہ خوف یہ ہوتاہے کہ انہوں نے جورتبہ اور مرتبہ سماج میں حاصل کرلیا ہے وہ ختم نہ ہونے پائے۔ یہ خوف ان کواندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی سماج یا طبقہ ایک جگہ جماہوا یاساکت نہیں رہتا ہے اس میں اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے تبدیلی کا عمل ہو تا رہتاہے ۔ کبھی یہ عمل بہت سست ہوتاہے اورکبھی تیز ۔ تبدیلی ماضی کی دشمن ہوتی ہے اور وہ ہر روایت، اداروں، طاقتورطبقوں کوختم کرتی جاتی ہے جسکا تعلق ماضی سے ہوتا ہے ۔ وہ سماج کی بنیاد نئی روایات پرقائم کرتی ہے ۔ عہد نامہ قدیم میں ہے کہ ”خدا نے دنیاکوپیدا کیا پھراسے اپنی طاقت سے علیحدہ کردیا۔ اب اس کا مالک انسان ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے وہ اس کے معاملات کودیکھے” ۔ انسانی مسائل کبھی بھی ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہوجاتے ہیں اس لیے انہیںبغیر حل کے نہیںچھوڑ نا چاہئے۔ فکر و سوچ ، تحقیق و تفتش اورجستجوکے دروازے ہمیشہ کھلے رہنا چاہیںجوسماج وقت کیساتھ چلنے سے انکار کر دیتے ہیں اور تبدیلی کے سامنے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں تو ان سماجوں میں رہنے والوں کی حالت کافکا جیسی ہوجاتی ہے اور وہ مایوسی ، بدحالی ، جہالت اور بے بسی کی آگ میں ننگے بدن کے ساتھ جل رہے ہوتے ہیں۔ ہر قسم کی بربادی ،غربت و افلاس ، بیماریاں ، ذلت و خواری چڑیلوں کی طرح ان سے چمٹ جاتی ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر ان کی نجات انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ آج پاکستان تبدیلی یاانقلاب کے دہانے پر کھڑاہے۔ پاکستان کے عوام اپنے حالات زندگی سے تنگ آچکے ہیں ۔ ملک کی اشرافیہ نے ان کا جیناحرام کر چھوڑا ہے۔ وہ عوام کو بدحال،ذلیل و خوار کرتے کرتے خود بھی ذہنی وجسمانی طور پر بدحال ہوچکے ہیں ۔ دونوں جانب انتہا ہو چکی ہے۔ اب اس سے آگے جایا نہیں جاسکتا۔، اس لیے دونوں ہی کے حالات تبدیلی کے منتظر ہیں ، جگہیں تبدیل ہونے کا وقت آچکا ہے ۔ دیکھنایہ ہے کہ جگہوں کی تبدیلی پر امن طریقے سے ہوتی ہے یا پھر پر تشدد طریقے سے۔ یاد رہے اب ان تبدیلیوں کو روکے سے روکانہیں جاسکے گا۔ اگر اب بھی کوئی احمقوں کی جنت میں رہتا ہے تو اسے انسانی تاریخ ایک بار ضرور پڑھ لینی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔