رشمیکا مندنا نے اپنی 29ویں سالگرہ وجے دیوراکونڈا کے ساتھ اومان میں منائی؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
جنوبی بھارتی اداکارہ رشمیکا مندنا نے اپنی 29ویں سالگرہ اومان میں چھٹیاں گزارتے ہوئے منائی جہاں وہ سمندر کنارے خوبصورت نظاروں سے لطف اُٹھاتی نظر آئیں۔
پشپا اسٹار نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپلیکیشن انسٹاگرام پر اپنی چند تصاویر بھی پوسٹ کیں جس میں انہیں سمندر کنارے ریت پر بیٹھے پوز دیتے دیکھا جاسکتا ہے۔
A post shared by Rashmika Mandanna (@rashmika_mandanna)
رشمیکا نے ان تصاویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا کہ ’کچھ ساحل.
تاہم سوشل میڈیا صارفین اور اداکارہ کے مداحوں کو لگتا ہے کہ وہ اومان میں اکیلی نہیں بلکہ اپنے بوائے فرینڈ (جس کے بارے میں رشمیکا نے ابھی باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے) اداکار وجے دیوراکونڈا کے ساتھ وہاں چھٹیاں منا رہی ہیں کیونکہ وجے نے بھی چند ایسی ہی تصاویر پوسٹ کی ہیں جس میں وہ سمندر کنارے موجود ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Vijay Deverakonda (@thedeverakonda)
سوشل میڈیا صارفین نے دونوں اداکاروں کی جانب سے پوسٹ کی گئی تصاویر میں مماثلت کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس آرائیاں شروع کردی ہیں کہ رشمیکا اپنی سالگرہ کے موقع پر وجے دیوراکونڈا کے ساتھ اومان کے سیر سپاٹے کر رہی ہیں اور بےحد خوش ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی پسپا اسٹار رشمیکا مندنا کو وجے دیوراکونڈا کے ساتھ کئی مرتبہ دیکھا جاچکا ہے اور ان کی دور سے لی گئی تصاویر بھی وائرل ہو چکی ہیں تاہم اداکارہ نے تاحال وجے کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
اسلام ٹائمز: معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔ تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com
قرآنِ مجید، انسان کی خلقت کو محض ایک حیاتیاتی واقعہ نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک معنوی راز سے تعبیر کرتا ہے: "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون" (ذریات/56) "میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے خلق کیا۔" مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے "لِيَعْبُدُونِ اَیْ لیَعْرِفُون" یعنی خالق نے مخلوق کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا۔۔۔۔ یوں عبادت اور معرفت ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں؛ معرفت باطن ہے تو عبادت اس کا ظہور۔۔۔۔۔ جب پہچان دل میں اترتی ہے تو بدن خود بخود سجدہ ریز ہوتا ہے۔۔۔۔۔ عبادت دراصل معرفت کی شعوری و عملی صورت ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت محض حرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ نفی و اثبات پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے، جس میں پہلے نفی: لا إله۔۔۔۔ یعنی ہر غیرِ خدا کا انکار ہے اور پھر إلا الله۔۔۔۔ کے ذریعے توحید تک رسائی ہے۔
عبادت کا آغاز اندر کے بت توڑنے سے ہوتا ہے۔ خواہ وہ بت خواہشات کے ہوں۔۔۔۔۔ خود پسندی کے یا پھر مادی۔۔۔۔۔ جب انسان اپنی پسند۔۔۔۔ اپنی چاہت۔۔۔۔ اپنی خواہش کو قربان کرتا ہے تو عبد بنتا ہے۔۔۔۔ اور یہی وہ راستہ ہے، جو انسان کو ظاہر سے حقیقت کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ "فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى"(بقرہ/256) ۔۔۔۔۔ عبادت کا آغاز انکار میں اور اس کا کمال اقرار میں ہے۔۔۔۔ ہاں عبودیت ہی انسانی کمالات میں اعلیٰ و ارفع ترین منزل ہے، جس کو قرآن نے "سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ"(بنی اسرائیل/01) کی صورت میں بیان کیا اور عبودیت ہی وہ آئینہ ہے، جس میں رسالت کا نور جلوہ افروز ہوتا ہے۔ عبودیت کائنات کا سب سے بڑا شرف ہے۔
قرآن کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات اسی دائرہ بندگی میں شامل ہیں: "إِنْ كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا"(مریم /93) عبد ہونا محض حکمِ شرع کا تقاضا نہیں بلکہ حقیقتِ وجود کا جوہر ہے۔۔۔۔۔ ہاں عبودیت فنا کا مقدمہ ہے۔۔۔۔۔۔ فنا کا مطلب مٹ جانا نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ میں باقی رکھنا ہے: "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۩ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّك" (رحمن/26, 27) کائنات کا ہر ذرہ اسی فنا کے سفر میں ہے، ہر وجود اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ فنا وہ مرحلہ ہے، جہاں انسان اپنی مرضی کو مٹا کر خدا کی مشیّت میں ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔۔
مختصر یہ کہ معرفت عبادت کی روح ہے۔۔۔۔۔۔ عبادت عبودیت کی علامت اور عبودیت فنا کی حقیقت۔۔۔۔۔۔ انسانی تخلیق، اسی تسلسل کی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پہچان سے جھکنے، جھکنے سے مٹنے اور مٹ کر باقی رہنے تک۔۔۔۔ یہی انسانیت کی معراج۔۔۔۔۔۔یہی اس کا انجام اور یہی اس کی ابدی سعادت ہے۔ عبادت اگر معرفت سے خالی ہو تو رسم۔۔۔۔۔۔ اور معرفت اگر عبادت میں ظاہر نہ ہو تو ادھورا احساس ہے۔