طاقت کے استعمال سے مسائل کو وقتی طور پر دبایا تو جا سکتا ہے مگر مستقل حل نہیں کیا جاسکتا ،اب کے پی کے اور بلوچستان کو ہی لے لیجئے ،دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر وہاں بار بار فوجی آپریشن کئے گئے ،لیکن ان آپریشنز کے نتائج کیا برآمد ہوئے ؟کیا کے پی کے اور بلوچستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا؟ہر گز نہیں جاننے والے جانتے ہیں کہ آج 7 اپریل 2025ء کے دن تک ،کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں، خضدار، مستونگ اور وڈھ کے رہائشی بعض محبت کرنے والے اسلام پسند ساتھیوں کے مطابق بلوچستان کے بعض اضلاع میں حکومتی رٹ تقریبا ًختم ہو چکی ہے،مقامی آبادی کے ساتھ ظلم وزیادتی فورسز کریں یا بی ایل اے کے دہشت گرد، دونوں طرف سے غلط ہو رہا ہے، مستونگ کے رہائشی عبد الرحیم لاشاری کٹر مذہبی اور قوم پرستی کے متشددانہ روئیوں سے کوسوں میل دور ہیں وہ اول و آخر مسلمان اور کمٹیڈ پاکستانی ہیں،لیکن بلوچستان کے عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی حکومتی زیادتیوں کے خلاف ان کے شکوے بھی بڑے زوردار ہوتے ہیں،میرا یہ ماننا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرستی ،لسانیت اور علیحدگی کے نام پر بے گناہ انسانوں کی جانوں سے کھیلنے والے دہشت گرد اور ان کے سہولت کار کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں،لیکن لاپتہ افراد ہوں یا ماورا عدالت قتل و قتال، ان معاملات کے حوالے سے مقامی آبادی سے ڈائیلاگ کرنا بھی لازم ہے آپ جس ماہرنگ بلوچ کو دہشت گرد کہتے ہیں۔
عالمی طاقتوں میں سے ان پر کس کس کا ہاتھ ہے،بلوچ عوام کو گولی اور ڈنڈے کے ساتھ نہیں،بلکہ دلائل کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے ،بلوچستان جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود آج بھی ترقی اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہے تو کیوں؟ یہاں سے نکلنے والی گیس پورے پاکستان کو فراہم کی جاتی ہے، مگر خود بلوچستان کے عوام لکڑی جلا کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ چاغی کے پہاڑوں میں دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، مگر وہاں کے عوام آج بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں تو کیوں ؟1952ء میں ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے گیس دریافت ہوئی۔ یہ وہی گیس ہے جس نے پاکستان کی صنعتوں کو چلایا، گھروں کے چولہے جلائے اور ملکی معیشت کو سہارا دیا۔ مگر افسوس!جس سرزمین نے یہ دولت دی، وہی آج سب سے زیادہ محروم ہے۔بلوچستان کے کئی دیہات آج بھی گیس جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ڈیرہ بگٹی کے عوام لکڑیاں اور کوئلہ جلا کر گزر بسر کر رہے ہیں جبکہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے اکثر گھر میں گیس موجود ہے۔گیس کی آمدنی کا بڑا حصہ وفاق کے پاس جاتا ہے، مگر بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
چاغی جہاں سے سونا نکلتا ہے، مگر لوگ فاقوں پر مجبور ہیں بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک اور سینڈک میں دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں مگر ان وسائل سے فائدہ مقامی عوام کے بجائے بیرونی کمپنیاں اور وفاقی حکومت اٹھا رہی ہے۔ بلوچستان کے عوام کو ان منصوبوں میں نوکریاں نہیں دی جاتیں۔سونے اور تانبے کی آمدنی بلوچستان پر خرچ ہونے کے بجائے مرکز میں جاتی ہے۔چاغی کے عوام کو بنیادی صحت، تعلیم اور روزگار جیسی سہولتیں میسر نہیں ،گوادر کو پاکستان کی ترقی کا ’’گیٹ وے‘‘کہا گیا، مگر یہ ترقی مقامی عوام کے لئے خواب ہی رہی۔گوادر پورٹ سے پورے ملک کو فائدہ ہو رہا ہے، مگر خود گوادر کے لوگ پینے کے صاف پانی تک کو ترس رہے ہیں۔گوادر پورٹ اتھارٹی کا دفتر اسلام آباد میں ہے، حالانکہ اس کا کنٹرول گوادر میں ہونا چاہیے۔مقامی ماہی گیروں کو ان کے ساحلوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، جبکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو زمینیں دی جا رہی ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے؟ وسائل کا کنٹرول مقامی حکومت کے بجائے اسلام آباد میں ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں مقامی لوگوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان کی کمائی بلوچستان پر خرچ نہیں ہوتی۔ ریاست طاقت کے زور پر مسائل دبانے کی کوشش کرتی ہے، جس سے عوام میں بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام میں پاے جانے والے ان مایوس کن تاثرات کو زائل کرنا اگر حکومت کی نہیں تو پھر کس کی ذمہ داری ہے ؟
آج اگر مولانا فضل الرحمن جیسے سنجیدہ اور جہاں دیدہ سیاست دان یہ کہنے پہ مجبور ہوئے کہ ’’بلوچستان کے پانچ،سات اضلاع ایسے ہیں کہ اگر وہ اس وقت آزادی کا اعلان کردیں تو اگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کر لیا جاے گا،اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا‘‘ مولانا کا یہ درد دل مقتدر قوتیں سمجھنے کے لئے تیار کیوں نہیں ہیں؟مولانا کے پی کے اور بلوچستان کی موجودہ دگرگوں صورت حال پہ نہ صرف یہ کہ خود متفکر بلکہ بار بار حکومت اور پارلیمان کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں،لیکن حکمرانوں کا انحصار چونکہ طاقت پہ ہے ،اس لئے مولانا کی یہ دردمندانہ آواز صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے،بلوچستان کے عوام اگر یہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہونا چاہیے۔ گیس، سونا اور گوادر کی آمدنی کا بڑا حصہ بلوچستان میں خرچ کیا جائے۔ بلوچستان کے عوام کو ان کے وسائل کے انتظام میں شامل کیا جائے۔ گوادر پورٹ، سوئی گیس اور ریکوڈک کے دفاتر کوئٹہ یا متعلقہ علاقوں میں منتقل کئے جائیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو نوکریاں دی جائیں تاکہ وہ خود کفیل بن سکیں اور یہ کہ بلوچستان کے مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ اسے دوسرے صوبوں کے برابر حقوق دئیے جائیں۔ اگر بلوچستان کے عوام کو ان کے وسائل سے محروم رکھا جاتا رہا، تو بداعتمادی مزید بڑھے گی اور ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ریاست کو اب زبانی دعوے نہیں، عملی اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ بلوچستان واقعی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔تو اس میں غلط کیا ہے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے پی کے اور بلوچستان بلوچستان کے عوام کو بلوچستان میں کہ بلوچستان کے ساتھ رہے ہیں کیا جا رہا ہے
پڑھیں:
بلوچستان میں کالج یونیورسٹی موجود؛ ڈسکرمینشن موجود نہیں تو جنگ کیا ہے ؛ سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ
سٹی 42: سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کاہ ان لوگوں سے لڑنا مشکل نہیں اصل لوگوں کو سمجھانا ایشو ہے ۔یہ چند لوگ کھلم کھلا علیحدگی کی تحریک چلا رہے تشدد ان کے لئے معنی نہیں ۔
سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ ے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاسپرنٹ موومنٹ کا صرف پاکستان کو سامنا نہیں ۔ایران افریقہ،انڈیا کئی اور ممالک میں ایسی تحریک ہے ۔بلوچستان میں چند افراد اس طرح کی تحریک چلا رہے ہے ۔ یہ لوگ 17 سو سمیت مختلف تاریخی کا حوالہ دیتے ہے ۔برٹش راج سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی نے کام شروع کیا ۔پھر برٹش راج آیا اور کئی ریاستوں کو قبضے میں لیا ۔ برٹشن نے جانے کا فیصلہ کیا تو دو تحریکوں سے جنم لیا ۔جو آج بلوچستان ہے یہ پہلے برٹشن بلوچستان تھا ۔اس میں کچھ ریاست کلات پر کچھ حصہ مشتمل تھا ۔ 17 مارچ 1948 کو ریاست کلات پاکستان کا حصہ بن گئے ،موجودہ حالات میں یہ چند لوگ مختلف بہانے بناتے ہے ۔وائلس کو بطور آلہ کار بنا کر تحریک شروع کر دی گی جہاں تشدد ہو وہاں کوئی بہنانہ ڈھونڈا جاتا ہے ۔مزدوروں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جاتا ہے ۔
صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس
آج بلوچستان میں کالج یونیورسٹی موجود ہے ،جب ڈسکیرمنشن کہیں موجود نہیں تو پھر یہ جنگ کیا ہے ۔ان لوگوں سے لڑنا مشکل نہیں اصل لوگوں کو سمجھانا ایشو ہے ۔یہ چند لوگ کھلم کھلا علیحدگی کی تحریک چلا رہے تشدد ان کے لئے معنی نہیں ۔