Daily Ausaf:
2025-11-04@04:55:21 GMT

بلوچستان!مولانا کا درد دل

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

طاقت کے استعمال سے مسائل کو وقتی طور پر دبایا تو جا سکتا ہے مگر مستقل حل نہیں کیا جاسکتا ،اب کے پی کے اور بلوچستان کو ہی لے لیجئے ،دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر وہاں بار بار فوجی آپریشن کئے گئے ،لیکن ان آپریشنز کے نتائج کیا برآمد ہوئے ؟کیا کے پی کے اور بلوچستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا؟ہر گز نہیں جاننے والے جانتے ہیں کہ آج 7 اپریل 2025ء کے دن تک ،کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں، خضدار، مستونگ اور وڈھ کے رہائشی بعض محبت کرنے والے اسلام پسند ساتھیوں کے مطابق بلوچستان کے بعض اضلاع میں حکومتی رٹ تقریبا ًختم ہو چکی ہے،مقامی آبادی کے ساتھ ظلم وزیادتی فورسز کریں یا بی ایل اے کے دہشت گرد، دونوں طرف سے غلط ہو رہا ہے، مستونگ کے رہائشی عبد الرحیم لاشاری کٹر مذہبی اور قوم پرستی کے متشددانہ روئیوں سے کوسوں میل دور ہیں وہ اول و آخر مسلمان اور کمٹیڈ پاکستانی ہیں،لیکن بلوچستان کے عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی حکومتی زیادتیوں کے خلاف ان کے شکوے بھی بڑے زوردار ہوتے ہیں،میرا یہ ماننا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرستی ،لسانیت اور علیحدگی کے نام پر بے گناہ انسانوں کی جانوں سے کھیلنے والے دہشت گرد اور ان کے سہولت کار کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں،لیکن لاپتہ افراد ہوں یا ماورا عدالت قتل و قتال، ان معاملات کے حوالے سے مقامی آبادی سے ڈائیلاگ کرنا بھی لازم ہے آپ جس ماہرنگ بلوچ کو دہشت گرد کہتے ہیں۔
عالمی طاقتوں میں سے ان پر کس کس کا ہاتھ ہے،بلوچ عوام کو گولی اور ڈنڈے کے ساتھ نہیں،بلکہ دلائل کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے ،بلوچستان جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود آج بھی ترقی اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہے تو کیوں؟ یہاں سے نکلنے والی گیس پورے پاکستان کو فراہم کی جاتی ہے، مگر خود بلوچستان کے عوام لکڑی جلا کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ چاغی کے پہاڑوں میں دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، مگر وہاں کے عوام آج بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں تو کیوں ؟1952ء میں ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی سے گیس دریافت ہوئی۔ یہ وہی گیس ہے جس نے پاکستان کی صنعتوں کو چلایا، گھروں کے چولہے جلائے اور ملکی معیشت کو سہارا دیا۔ مگر افسوس!جس سرزمین نے یہ دولت دی، وہی آج سب سے زیادہ محروم ہے۔بلوچستان کے کئی دیہات آج بھی گیس جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ڈیرہ بگٹی کے عوام لکڑیاں اور کوئلہ جلا کر گزر بسر کر رہے ہیں جبکہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے اکثر گھر میں گیس موجود ہے۔گیس کی آمدنی کا بڑا حصہ وفاق کے پاس جاتا ہے، مگر بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
چاغی جہاں سے سونا نکلتا ہے، مگر لوگ فاقوں پر مجبور ہیں بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک اور سینڈک میں دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں مگر ان وسائل سے فائدہ مقامی عوام کے بجائے بیرونی کمپنیاں اور وفاقی حکومت اٹھا رہی ہے۔ بلوچستان کے عوام کو ان منصوبوں میں نوکریاں نہیں دی جاتیں۔سونے اور تانبے کی آمدنی بلوچستان پر خرچ ہونے کے بجائے مرکز میں جاتی ہے۔چاغی کے عوام کو بنیادی صحت، تعلیم اور روزگار جیسی سہولتیں میسر نہیں ،گوادر کو پاکستان کی ترقی کا ’’گیٹ وے‘‘کہا گیا، مگر یہ ترقی مقامی عوام کے لئے خواب ہی رہی۔گوادر پورٹ سے پورے ملک کو فائدہ ہو رہا ہے، مگر خود گوادر کے لوگ پینے کے صاف پانی تک کو ترس رہے ہیں۔گوادر پورٹ اتھارٹی کا دفتر اسلام آباد میں ہے، حالانکہ اس کا کنٹرول گوادر میں ہونا چاہیے۔مقامی ماہی گیروں کو ان کے ساحلوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، جبکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو زمینیں دی جا رہی ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے؟ وسائل کا کنٹرول مقامی حکومت کے بجائے اسلام آباد میں ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں مقامی لوگوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان کی کمائی بلوچستان پر خرچ نہیں ہوتی۔ ریاست طاقت کے زور پر مسائل دبانے کی کوشش کرتی ہے، جس سے عوام میں بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام میں پاے جانے والے ان مایوس کن تاثرات کو زائل کرنا اگر حکومت کی نہیں تو پھر کس کی ذمہ داری ہے ؟
آج اگر مولانا فضل الرحمن جیسے سنجیدہ اور جہاں دیدہ سیاست دان یہ کہنے پہ مجبور ہوئے کہ ’’بلوچستان کے پانچ،سات اضلاع ایسے ہیں کہ اگر وہ اس وقت آزادی کا اعلان کردیں تو اگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کر لیا جاے گا،اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا‘‘ مولانا کا یہ درد دل مقتدر قوتیں سمجھنے کے لئے تیار کیوں نہیں ہیں؟مولانا کے پی کے اور بلوچستان کی موجودہ دگرگوں صورت حال پہ نہ صرف یہ کہ خود متفکر بلکہ بار بار حکومت اور پارلیمان کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں،لیکن حکمرانوں کا انحصار چونکہ طاقت پہ ہے ،اس لئے مولانا کی یہ دردمندانہ آواز صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے،بلوچستان کے عوام اگر یہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہونا چاہیے۔ گیس، سونا اور گوادر کی آمدنی کا بڑا حصہ بلوچستان میں خرچ کیا جائے۔ بلوچستان کے عوام کو ان کے وسائل کے انتظام میں شامل کیا جائے۔ گوادر پورٹ، سوئی گیس اور ریکوڈک کے دفاتر کوئٹہ یا متعلقہ علاقوں میں منتقل کئے جائیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو نوکریاں دی جائیں تاکہ وہ خود کفیل بن سکیں اور یہ کہ بلوچستان کے مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ اسے دوسرے صوبوں کے برابر حقوق دئیے جائیں۔ اگر بلوچستان کے عوام کو ان کے وسائل سے محروم رکھا جاتا رہا، تو بداعتمادی مزید بڑھے گی اور ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ریاست کو اب زبانی دعوے نہیں، عملی اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ بلوچستان واقعی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔تو اس میں غلط کیا ہے؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے پی کے اور بلوچستان بلوچستان کے عوام کو بلوچستان میں کہ بلوچستان کے ساتھ رہے ہیں کیا جا رہا ہے

پڑھیں:

 دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 

ملتان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے، پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔  اسلام ٹائمز۔ جامعہ خیر المدارس ملتان میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام جنوبی پنجاب کے ملحقہ دینی مدارس کا عظیم الشان اجتماع خدماتِ تحفظِ مدارسِ دینیہ کنونشن کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اجلاس میں جنوبی پنجاب کے چار ہزار سے زائد مدارس و جامعات کے مہتممین اور ذمہ داران نے شرکت کی۔ کنونشن میں کہا گیا کہ مدارس کے خلاف ہتھکنڈے بند کریں ورنہ کفن پہن کر اسلام آباد کا رخ کرلیں گے، اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرست مولانا فضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اسلامی نظام کے لئے پنجاب والے اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں مجبور نہ کیا جائے ہم سڑکوں پر آکر اسلام آباد کی طرف رخ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس کا مقصد نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانا ہے۔ لیکن وفاق المدارس اور جمعیت علمائے اسلام نے نوجوانوں کو امن و استحکام کا پیغام دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیرونی طاقتیں ان اداروں سے خائف ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اسلام مملکتِ پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا، لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر آج تک قانون سازی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ قوتیں ملک میں ایسے ماہرینِ شریعت نہیں دیکھنا چاہتیں جو شریعت کے مطابق قانون سازی کر سکیں۔ انہوں نے حقوقِ نسواں، نکاح کی عمر، گھریلو تشدد، اور وقف قوانین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب بیرونی دباو  کے نتیجے میں بنائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے حکومت پنجاب کے آئمہ کرام کو دیے جانے والے 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ رقوم ضمیر خریدنے کی کوشش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے خبردار کیا کہ اگر مدارس کے خلاف رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو علما اپنی حریت اور دینی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔

 

متعلقہ مضامین

  • مولانا فضل الرحمان ائمہ کرام کے لیے پنجاب حکومت کے وظیفہ میں رکاوٹ نہ بنیں، علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی
  • گوادر کے پانیوں میں معدومیت کی شکار ہمپ بیک وہیل کا مشاہدہ
  • کوئٹہ: جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا ہدایت الرحمن پریس کانفرنس کررہے ہیں
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • جماعتِ اسلامی کے ’بد ل دو نظام’اجتماعِ عام میں بلوچستان سے لوگ شرکت کرینگے: مولانا ہدایت الرحمٰن
  • لاہور میں بلوچستان کا مقدمہ عوام کے سامنے رکھیں گے، مولانا ہدایت الرحمان
  • پاک فوج کی کوششوں سے گوادر میں جدید ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ قائم
  • گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی : پاک فوج کی کاوشوں کا مظہر
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن