نیشنل کانفرنس وقف بل کے خلاف ہے اور کئی فریق اسوقت سپریم کورٹ میں ہیں، فاروق عبداللہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
نیشنل کانفرنس کے سربراہ سے امت شاہ کے جموں و کشمیر دورے پر ردعمل پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ یہاں آکر دیکھیں گے کہ کشمیر کے حالات کیسے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے سربراہ اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے وقف قانون پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اس بل کے خلاف ہے، کئی فریق اس وقت سپریم کورٹ میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی لئے جموں و کشمیر اسمبلی کے اسپیکر نے بحث نہیں ہونے دیا کیونکہ مسئلہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ انصاف فراہم کرے گا۔ گاندربل میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں وقف پر کسی سے بات نہیں کروں گا، جو بات کہنی ہے وہ وزیراعلٰی کریں گے۔
دراصل آج جموں و کشمیر اسمبلی میں وقف قانون سے متعلق تجویز کو مسترد کردیا گیا ہے۔ کشمیر اسمبلی کے اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے وقف پر تبادلہ خیال کے لئے وقفہ سوال ملتوی کرنے کی تجویز کو منظور کردیا۔ یہ تجویز نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی نذیر احمد گریزی اور تنویر صادق نے پیش کی تھی، اس کے بعد جم کر ہنگامہ ہوا۔ ہنگامہ اتنا ہوا کہ دو بار ایوان کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ کانگریس اور بی جے پی کے اراکین اسمبلی میں ہاتھاپائی کی نوبت آگئی۔ تیسری بار اسپیکر نے پورے دن کے لئے کارروائی کو ملتوی کردیا۔
جب ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کے جموں و کشمیر دورے پر ردعمل پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو کشمیر آتے رہتے ہیں، اچھی بات ہے، یہاں آکر دیکھیں گے کہ کشمیر کے حالات کیسے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ بہت جلد ہی کشمیر کا ریاستی درجہ واپس کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ وقف قانون کے خلاف کئی فریق سپریم کورٹ پہنچ چکے ہیں۔ ان میں بہار کے کشن گنج کے کانگریس رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی اور پارلیمنٹ کے رکن کپل سبل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند (مولانا ارشد مدنی) نے بھی سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے، اس کے علاوہ کئی اور ملی تنظیمیں بھی عدالت جانے کی تیاری کررہی ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس سپریم کورٹ
پڑھیں:
لاس اینجلس فسادات: نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے بعد مظاہروں کی شدت میں اضافہ
امریکی شہر لاس اینجلس میں ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں میں اس وقت شدت دیکھی گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقے میں وفاقی حکومت کے زیرانتظام موجود نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ مظاہرے گزشتہ روز اس وقت شروع ہوئے تھے جب ٹرمپ انتظامیہ نے علاقے میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔
یہ بھی دیکھیے: امریکا جانا مشکل :امیگریشن پالیسی سخت کرنے کا بل کانگریس میں پیش
1965 کے بعد یہ پہلی دفعہ کسی امریکی صدر نے ریاست کے گورنر کی درخواست کے بغیر نیشنل گارڈ تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی صد کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناکر اسے مظاہرین کو مزید اشتعال دلانے کے سبب کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ کیلی فورنیا کے گورنر گیویون نیوسم نے اس اقدام کو بحران پیدا کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے امریکی صدر کو لکھے ایک خط میں فیصلہ واپس لینے کا کہا۔ اس فیصلے کے بعد ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں کا رُخ کیا ہے اور وفاقی فورس کی تعیناتی کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے مظاہروں نے کے بعد کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں قریباً 2 ہزار نیشنل گارڈ کے اہلکاروں کو مظاہرین کے خلاف تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا کا غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے پر 1000 ڈالر دینے کا اعلان
مظاہروں کے درمیان مظاہرین کے کئی علاقوں میں وفاقی امیگریشن اہلکاروں کے ساتھ تصادم ہوا اور علاقے میں ٹریفک کے نظام میں بھی خلل پڑا۔ رپورٹس کے مطابق ٹرمپ حکومت نے امیگریشن حکام کو یومیہ 3 ہزار قانونی رہائش پذیر غیرملکیوں کے انخلا کا ہدف دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فسادات لاس اینجلس مظاہرے