شام کے ویرانوں میں انقرہ اور تل ابیب کی زور آزمائی
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: شام میں نئی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد اب تک ترکی کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور انٹیلی جنس سربراہ سرکاری دورہ کر چکے ہیں۔ اس وقت انقرہ پین اسلام ازم، اینٹی صیہونزم اور شام اور قطر کے ہمراہ اخوانی بلاک تشکیل دینے کے عزم سے تل ابیب سے ٹکر لینے کے لیے تیار ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے چند ہفتے پہلے پہلی عالمی جنگ کی سالگرہ کے موقع پر کہا: "شام سے غزہ تک، حلب سے تبریز تک، موصل سے قدس تک ہمارے روحانی جغرافیا کے چار کونوں سے شہداء چناق قلعہ میں دفن ہیں۔" اسی طرح عید فطر کی نماز کے موقع پر رجب طیب اردگان نے تقریر کے دوران خدا سے دعا کی کہ وہ صیہونی اسرائیل پر لعنت کرے اور اسے نابود کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترکی اسرائیل کو چیلنج کر کے علاقائی سطح پر ایران کی پوزیشن میں آنا چاہتا ہے۔ تحریر: علی حریت
گذشتہ برس کے آخر میں جب شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اسرائیل نے اسے اپنی شمالی مشرقی سرحدوں پر کنٹرول بڑھانے کے لیے سنہری موقع جانا اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر 730 سے زیادہ فضائی حملے انجام دے کر شام آرمی کی تمام اہم فوجی تنصیبات اور ٹھکانوں کو تباہ کر دیا۔ شام کی موجودہ نگران حکومت زیادہ تر ان عناصر پر مشتمل ہے جو صدر بشار اسد کی حکومت ختم ہونے سے پہلے "ھیئت تحریر الشام" کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ ایک شدت پسند تکفیری گروہ ہے جس کی سربراہی شام کے موجودہ صدر احمد الشرع یا ابو محمد الجولانی کے ہاتھ میں تھی۔ یہی عناصر ھیئت تحریر الشام کی تشکیل سے پہلے النصرہ فرنٹ نامی گروہ کی صورت میں موجود تھے جو شام میں القاعدہ کی ذیلی شاخ سمجھی جاتی تھی۔
جب ان عناصر نے ادلب سے جنوب کی جانب پیشقدمی کا آغاز کیا تو غاصب صیہونی رژیم کو یہ تشویش لاحق ہو گئی کہ کہیں ان کے پاس سیاسی طاقت نہ آ جائے۔ جب ان گروہوں نے اسٹریٹجک ہائی وے 5 Mکے ساتھ موجود شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تو صیہونی حکمرانوں کو یہ خوف طاری ہوا کہ کہیں شام آرمی کا بچا کھچا اسلحہ ان کے ذریعے غزہ میں سرگرم تنظیم حماس تک نہ پہنچ جائے لہذا صیہونی فوج نے شام میں فوجی تنصیبات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا کر تباہ کرنا شروع کر دیا۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر بشار اسد کی حکومت ختم ہو جانے کے بعد دو ہفتے کے اندر صیہونی جارحیت کے نتیجے میں شام آرمی کی 80 فیصد تنصیبات اور اڈے تباہ ہو گئے تھے۔ دوسری طرف صیہونی فوج نے شام کے اندر کی جانب پیشقدمی شروع کر دی۔
اس پیشقدمی کے دوران صیہونی فوج نے 1949ء جنگ بندی کی کنٹرول لائن بھی پار کر دی اور پہلے گولان ہائٹس اور اس کے بعد الفا اور بریوو لائنیں عبور کر کے شام کے جنوب مغربی صوبوں قنیطرہ اور درعا میں داخل ہو گئی۔ غاصب صیہونی فوج نے جبل الشیخ نامی اسٹریٹجک پہاڑی پر بھی قبضہ کر لیا جو دارالحکومت دمشق سے محض 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ اس کے ذریعے لبنان کے وسیع علاقوں پر بھی صیہونی فوج کا احاطہ ہو گیا ہے۔ تین ماہ پہلے کی سیٹلائٹ تصاویر کا موجودہ تصاویر سے موازنہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ صیہونی فوج کے بلڈوزر شام کے مختلف سرحدی علاقوں جیسے جوبتا الخشب، کودنا اور معربہ میں مورچے تیار کر رہے ہیں جبکہ ان دیہاتوں میں صیہونی فوج اپنے اڈے بھی قائم کرنے میں مصروف ہے۔
ترکی کی علاقائی مہم جوئی
بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ صیہونی رژیم کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ھیئت تحریر الشام کو کس حد تک شمالی ہمسایہ ملک ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ درحقیقت اس دہشت گرد گروہ نے 2017ء میں ترکی کی حمایت سے ہی شام کے شمالی صوبے ادلب میں خودمختار حکومت کا اعلان کیا تھا جس کے بعد وہاں باقاعدہ حکومتی ادارے اور سیٹ اپ تشکیل دیا۔ ساتھ ہی ترکی نے "فرات شیلڈ" نامی فوجی آپریشن کے ذریعے شام کے شمالی علاقوں میں فوجی پیشقدمی شروع کر دی تھی۔ اس وقت ترکی کے دو مقاصد تھے: ایک بعث پارٹی کی حکومت کا خاتمہ یقینی بنانا اور دوسرا کرد گروہ پی کے کے کو کمزور کرنا۔ صدر بشار اسد کی حکومت ختم ہو جانے اور پی کے کے سربراہ عبداللہ اوجالان کی جانب سے اپنا گروہ ختم کر دینے کے اعلان کے بعد شام میں ترکی کی فوجی موجودگی کا کوئی جواز نہیں تھا لیکن ترکی پیچھے نہیں ہٹا اور احمد الشرع کے ذریعے اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کے درپے ہے۔
شام دو طاقتوں کے درمیان جنگ کا میدان
شام میں نئی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد اب تک ترکی کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور انٹیلی جنس سربراہ سرکاری دورہ کر چکے ہیں۔ اس وقت انقرہ پین اسلام ازم، اینٹی صیہونزم اور شام اور قطر کے ہمراہ اخوانی بلاک تشکیل دینے کے عزم سے تل ابیب سے ٹکر لینے کے لیے تیار ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے چند ہفتے پہلے پہلی عالمی جنگ کی سالگرہ کے موقع پر کہا: "شام سے غزہ تک، حلب سے تبریز تک، موصل سے قدس تک ہمارے روحانی جغرافیا کے چار کونوں سے شہداء چناق قلعہ میں دفن ہیں۔" اسی طرح عید فطر کی نماز کے موقع پر رجب طیب اردگان نے تقریر کے دوران خدا سے دعا کی کہ وہ صیہونی اسرائیل پر لعنت کرے اور اسے نابود کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترکی اسرائیل کو چیلنج کر کے علاقائی سطح پر ایران کی پوزیشن میں آنا چاہتا ہے۔
صیہونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ترکی شام میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے اور حتی اس ملک میں میزائل ڈیفنس سسٹم بھی نصب کرنے کے درپے ہے۔ لہذا تل ابیب نے گذشتہ ہفتے حماہ اور پالمیرا کے ٹی 4 فوجی ہوائی اڈوں کو شدید فضائی حملوں کا نشانہ بنایا اور یوں دمشق اور انقرہ کے لیے واضح وارننگ جاری کر دی۔ صوبہ حماہ کے شہر نوی اور صوبہ درعا کے قصبے تل الجبیہ میں صیہونی فوج اور شام کی سیکورٹی فورسز کے درمیان تقریباً پانچ گھنٹے تک شدید جھڑپیں جاری رہیں جس کے بعد صیہونی فوج پیچھے ہٹ گئی۔ دوسری طرف ان جھڑپوں میں 11 شامی شہری جاں بحق بھی ہوئے۔ صیہونی رژیم نے اسے "ضروری سکیورٹی اقدامات" قرار دیا جبکہ شام نے اسے ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کہا۔ مستقبل قریب میں ترکی یا شام میں ترکی نواز حکومت کی جانب سے ردعمل کی نوعیت اہم تصور کی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صدر بشار اسد کی حکومت رجب طیب اردگان نے صیہونی فوج نے کے موقع پر کے ذریعے میں ترکی ترکی کے کی جانب تل ابیب ترکی کی کے بعد شام کے کے لیے
پڑھیں:
قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اور اللہ کی آخری کتاب کی وہ روشن آیت۔ تاریخ، زندگی، روح، فطرت اور فکر ہر زاویے سے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ: اے ایمان والو یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بنائو وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ ان ہی میں سے ہے، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ (المائدہ: 51) امت مسلمہ کے باطل عناصر کی شناخت کے لیے یہ آیت آج بھی معانی فراہم کرتی ہے۔ وہ معانی جو تاریخ کے کسی بھی دور میں نئے اور نا معلوم نہیں رہے۔ وہ لوگ جن کے قول اور عمل میں یہود ونصاریٰ کی دوستی رچی بسی ہے، جو اس آیت میں بتائے گئے طے شدہ راستے کے برعکس عمل کرتے ہیں، جو خود بھی ظالموں کے زمرے میں ہیں، ان سے اظہار یکجہتی؟ ان کی حمایت؟ وہ وسیع گزرگاہ حیات قرآن جس کے حقائق سے ہمیں آگاہ کرتا ہے، جس فہم کو ہمارے اندر بیدار کرتا ہے اس کے مطابق قطر پر اسرائیل اور امریکا کا حملہ۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ قطر بظاہر اہل فلسطین کے دوست کا کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن وہ ان کے سب سے بڑے دشمن، ان کی بربادی کے سب سے بڑے منصوبہ سازاور ان کی نسل کشی اور قتل کے سب سے بڑے مجرم امریکاکا سب سے بڑا دوست بھی ہے۔ اس کی دوستی پر اپنی قسمت کا سب سے بڑا شکر گزار۔ جب کہ:
٭ اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں آنے والی قراردادوں کو سب سے زیادہ ویٹو کرنے والا: امریکا۔ ہر عالمی فورم پر اسرائیل کی پشت پناہی نہیں بلکہ خود اسرائیل بن جانے والا: امریکا۔ اسرائیل کی فوجی طاقت جس کی امداد پرکھڑی ہے: امریکا۔ اسرائیل کی فوجی طاقت کو عربوں کو قتل کرنے والی سب سے بڑی مشین میں تبدیل کرنے والا: امریکا۔
٭ اسرائیل کو جدید ترین ہتھیار، آئرن ڈوم، میزائل ڈیفنس سسٹم اور جدید ترین جیٹ طیارے فراہم کرنے والا: امریکا۔ یہودیوں کے خطے میں قابض ہونے کے بعد عربوں کے ساتھ ہر جنگ میں اسرائیل کو فتح سے ہمکنار اور عربوں کو شکست دینے والا اصل کردار: امریکا۔ غزہ کو غیر مسلح اور فلسطینیوں کی مزاحمتی طاقت کو ختم کرنے کا اعلان کرنے والا: امریکا۔ اسرائیل کے امن کو یقینی بنانے اور غزہ کو ’’اقتصادی زون‘‘ یا ’’ساحلی تفریح گاہ‘‘ میں بدلنے کے لیے تمام اہل غزہ کو قتل یا دربدر کرنے کا پروگرام رکھنے اور اس کو عملی شکل دینے میں اسرائیل کی غزہ پر زیادہ سے زیادہ بمباری کے لیے مدد اور حوصلہ افزائی کرنے والا: امریکا۔
٭ اہل فلسطین کو یہودی وجود کا غلام بنانے اور غزہ پر ہونے والی بمباریوں اور محاصروں میں اسرائیل کو سیاسی اور فوجی کور دینے والا: امریکا۔ اسرائیل کو سب سے زیادہ فوجی اور مالی امداد دینے والا ملک: امریکا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949 سے 2022 تک اسرائیل کو امریکا نے تقریباً 317.9 بلین ڈالر کی مدد فراہم کی جس میں سے بیش تر امداد فوجی تھی۔ اکتوبر 2023 سے ستمبر 2024 تک جنگ غزہ کی شروعات سے کے بعد امریکا نے اسرائیل کو 17.9 بلین ڈالر کی فوجی امداد دی ہے۔
٭ اسرائیل کو ملنے والی امریکی امداد میں اقتصادی یا ترقیاتی امداد بہت کم ہے۔ تقریباً تمام رقم فوجی نوعیت کی ہے جس کا مقصد اسرائیل کے فوجی نظام، اسلحہ کنٹرول اور دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرنا اور برقرار رکھنا ہے۔ تاکہ اسرائیل زیادہ سے زیادہ مسلم اور عرب ممالک پر حملے کرسکے اور انہیں برباد کرسکے۔
٭ سی آئی اے اور موساد کا قریبی تعلق، معلومات اور آپریشنز کا تعلق، سائبر سیکورٹی، سیٹلائٹ سر ویلنس، ڈرون ٹیکنالوجی میں معاون: امریکا۔ اسرائیل کو جدید ترین سیکورٹی سوفٹ ویئر اور نگرانی کے آلات مہیا کرنے والا: امریکا۔
٭ امریکی میڈیا میں جس ملک کا بیانیہ سب سے زیادہ غالب اور عوامی رائے اور پالیسی پر اثرانداز: اسرائیل۔ امریکی تھنک ٹینکس، یونی ورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور خصوصی پروجیکٹس میں جس ملک کا امیج سب سے زیادہ پاور فل اور مثبت: اسرائیل۔
مسلم اور عرب دشمنی اور لا کھوں فلسطینیوں کے قتل اور ان کی بربادی میں امریکا اور اسرائیل کی یہ وہ یکجائی ہے جو پہلے دن سے مسلسل اور مستقل ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام کے جوش وخروش میں جو باہم مدغم ہیں۔ جن کی جنگوں اور تاریخی ڈھانچے میں، ماضی، حال اور مستقبل کے ادراک میں جو کچھ قابل فنا ہے وہ سوائے مسلمانوں کے کچھ نہیں۔ اس کے باوجود قطر امریکا کے ساتھ کس طرح شیرو شکر ہے، کس طرح امریکا کا ممد ومعاون ہے، کس طرح سیاسی معاہدوں میں شریک اور سیکورٹی پارٹنر ہے اور کس طرح امریکا کی طاقت کی برقراری اور اس میں اضافے کے لیے کوشاں ہے، ملا حظہ ہو:
قطر میں العدید ائر بیس (Al Udeid Air Base) واقع ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں امریکا کا کمانڈ اور آپریشنل مرکز ہے۔ اس میں تقریباً 11 سے 13 ہزار امریکی فوجی تعینات رہتے ہیں جن کی تعداد 20 ہزار تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ یہاں برطانیہ اور دیگر اتحادی ممالک کے فوجی بھی محدود تعداد میں موجود رہتے ہیں۔ F15 اور F16 اور F22Raptor لڑاکا طیارے باقاعدہ اس اڈے پر تعینات رہتے ہیں۔ جاسوسی اور کمانڈ کنٹرول طیارے اور انٹیلی جنس اور ہدفی حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرونزبھی اسی بیس سے اڑان بھرتے ہیں۔ سیٹلائٹ کمیونیکیشن، انٹیلی جنس گیدرنگ، ڈرون کنٹرول اور ریجنل ریڈار سسٹمز سب اسی اڈے کے ذریعے مربوط ہوتے ہیں۔ یہیں سے لڑاکا طیاروں کو ہوا میں ایندھن بھرنے والے جہاز کے ذریعے ری فیول کیا جاتا ہے۔ میزائل ڈیفنس اور کروز میزائل لانچنگ سسٹمز بھی یہاں موجود ہیں۔ اسی اڈے سے امریکا پورے خلیج، ایران، افغانستان، عراق، شام اور یہاں تک کہ مشرقی افریقا کو آپریشنز کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے پچھلے دنوں دورے کے دوران قطر نے امریکی کمپنیوں کے جو معاہدے کیے ان کی مقدار 243.5 بلین ڈالر ہے اور جو مزید معاہدے طے پائے ان کی مجموعی اقتصادی تبادلے کی قیمت 1.2 ٹریلین ڈالر ہے۔ قطر ائر ویز کے لیے 160 بوئنگ طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا جس کی مالیت 96 بلین ڈالر Raython اور جنرل اٹامکس سے بھی کئی ارب ڈالر کے معاہدے کیے گئے اس کے علاوہ العدید ائر بیس کی فضائی، دفاعی اور بحری سلامتی کے معاملات میں سرمایہ کاری کی حد 38 بلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ قطر کی جانب سے صدر ٹرمپ کو ایک بوئنگ طیارہ بطور تحفہ دیا گیا جس کی مالیت تقریباً 400 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ توانائی کے شعبے میں بھی قطر نے امریکا کے ساتھ بڑی سرمایہ کاری کی ہے خصوصاً ایل این جی ایکسپنشن کے منصوبے اور امریکی توانائی بنیادی ڈھانچے میں شراکت داری۔
قطر خطے میں امریکا کے لیے ثالثی یا فرنٹ ایجنٹ کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 2020 میں طالبان اور امریکا کے درمیان دوحا مذاکرات ہوں یا حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات اور قیدیوں کا تبادلہ۔ امریکا کے ساتھ بے حدو حساب تعاون، چاپلوسی، خوشامد اور قریبی اتحادی کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے قطر کو یقین تھا کہ امریکی چھتری تلے آنے کے بعد اب وہ اسرائیل اور امریکا کی جارحیت سے محفوظ رہے گا لیکن امریکا اور اسرائیل نے قطر پر حملہ کرکے ثابت کردیا کہ یہود ونصاریٰ کے لیے کتنی ہی قربانیاں دی جائیں وہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں بن سکتے۔ وہ صرف آپس میں دوست ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہی قائم ودائم اور اسی کا حکم مسلسل جاری ہے۔