ٹرمپ کی دھمکیاں اور ایران کی میزائل طاقت، کشیدگی میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
امریکااورایران کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی کشیدہ رہے ہیں،لیکن حالیہ بیانات اورعسکری تیاریوں نے اس تناکومزیدبڑھادیاہے اوریہ تنازعہ مزید شدت اختیارکرگیاہے ۔ ٹرمپ کی جانب سے ایران کودی گئی دھمکیاں اورسخت گیررویے ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے سخت ردِعمل نے خطے میں بے چینی کوبڑھادیاہے۔یوں محسوس ہورہاہے کہ امریکامیں جنگی سازوسامان بنانے والوں نے اپنے کارخانوں کومزیدتیزی سے چلانے کے لئے وائٹ ہاس پراپنی گرفت کواورزیادہ مضبوط کرلیاہے جس کی بناء پر خطے میں ہولناک تباہی کاسلسلہ کبھی بھی کسی بہانے شروع ہوسکتاہے۔
سی بی ایس نیوزکے مطابق اتوارکواین بی سی نیوزکودئیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدرٹرمپ کاکہناتھاکہ’’اگروہ(ایرانی حکام)معاہدہ نہیں کرتے تو پھر بمباری ہوگی اوربمباری بھی ایسی جوانہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی‘‘۔ایرانی خبرایجنسی ارناکے مطابق امریکی صدرکی جانب سے ایران کو12مارچ کوخط لکھاگیاتھاجسے متحدہ عرب امارات کے ایک سفارتکارنے تہران پہنچایا تھا۔یہ پیشکش ایک خط کے ذریعے رواں سال مارچ کے اوائل میں ایرانی قیادت کوبھیجی گئی تھی جس میں تہران کو فیصلہ کرنے کے لئے دو ماہ کاوقت دیا گیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوزکوبتایاتھاکہ انہوں نے ایران کے رہبرِاعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کوایک خط لکھ کرمذاکرات کی دعوت دی ہے۔اس کے بعد ٹرمپ کایہ حالیہ بیان ایران کے خلاف سخت امریکی پالیسی کی عکاسی کرتاہے اوراس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیداکردی ہے۔
امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی طرف سے دی گئی بمباری کی دھمکی کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے واضح الفاظ میں ٹرمپ کی تجویز کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔انہوں نے کہاہے کہ امریکااوراسرائیل کی ہمیشہ سے ہم سے دشمنی رہی ہے۔وہ ہمیں حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں جوہمیں زیادہ ممکنہ نہیں لگتالیکن اگرامریکا یااسرائیل نے کوئی جارحیت یاشرارت کی توایران سخت جواب دے گا۔ایران نے ہمیشہ اپنے دفاعی نظام کومضبوط بنانے پرزوردیاہے اورکسی بھی حملے کے جواب میں سخت کارروائی کاعندیہ دیاہے۔
ٹرمپ نے ایران پرمزیداقتصادی پابندیوں کابھی عندیہ دیاکہ اگرایران معاہدہ نہیں کرتاتواس پراضافی ٹیرف عائدکیے جائیں گے،جیسا کہ ان کی سابقہ حکومت میں کیاگیاتھالیکن ایرانی قیادت کامؤقف ہے کہ مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کوکمزور کرناچاہتے ہیں،لیکن وہ کسی بھی دباؤکے سامنے جھکنے کوتیارنہیں۔اقتصادی پابندیاں ایران کی معیشت پرپہلے ہی گہرے اثرات مرتب کرچکی ہیں،لیکن ایران نے اب تک ان پابندیوں کوجھیلتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔ایرانی حکام کاکہناہے کہ 2019ء اوراس کے تین سال بعد2022ء اور 2023ء میں مہساامینی احتجاج اورایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے مظاہرے مغربی سازش کاحصہ تھے۔ایران کا مؤقف ہے کہ یہ مظاہرے ایرانی استحکام کونقصان پہنچانے کے لئے ترتیب دئیے گئے تھے۔ امریکا اوراس کے اتحادی ایرانی داخلی سیاست کوغیرمستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایرانی صدرمسعودپژشکیان کاکہناہے کہ ان کے ملک نے امریکاکومطلع کردیاہے کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کے لئے راضی ہے ایران نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیالیکن دوسرے فریق کی جانب سے وعدے ٹوٹنے کے سبب اعتمادکوٹھیس پہنچی ہے۔ایرانی صدرکا کابینہ کے اجلاس میں کہناتھاکہ ’’ہم نے اپنے جواب میں فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے امکان کوردکردیاہے لیکن بالواسطہ بات چیت کاراستہ کھلاہے۔مذاکرات جاری رہنے کاانحصارامریکاکے برتاؤپرہوگا‘‘۔
ایرانی صدرنے اپنی کابینہ کویہ بھی بتایاکہ ایران نے عمان کے ذریعے امریکاکے خط کاجواب دیتے ہوئے ’’براہ راست مذاکرات مسترد کردئیے گئے ہیں‘‘۔ ایرانی اورامریکی دونوں ممالک کے حکام اس خط میں موجودتفصیلات پربات کرنے سے گریزاں نظرآتے ہیں۔ایران کی وزارتِ خارجہ کاایک بیان میں کہناتھاکہ ایران اورامریکا کے درمیان خطوط کے تبادلے کواس وقت تک صیغہ رازمیں رکھاجائے گاجب تک یہ ملک کے مفادمیں ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیاتھاکہ ’’بین الاقوامی مذاکرات،خطوط کے تبادلے اورسفارتی عمل کی تفصیلات کوجاری نہ کرناایک پیشہ وارانہ عمل ہے اورقومی مفاد سے مطابقت رکھتاہے‘‘۔ اس سے قبل ایرانی وزیرِخارجہ عباس عراقچی کہہ چکے ہیں کہ اس(امریکی)خط کے مختلف پہلوہیں اوراس کے ایک حصے میں دھمکیاں بھی موجودہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایران کے ایران نے ٹرمپ کی کے لئے
پڑھیں:
عراقچی کی تقریر منسوخ کردی گئی: اقوام متحدہ میں ایران کے مشن کی وضاحت
یہ اعلان کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی ایک کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کانفرنس میں تقریر کریں گے بہت سے ان لوگوں کے لیے حیران کن تھا جو ایرانی معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خاص طورپر ایران سے متعلق حالیہ پیش رفت کے تناظر میں تو یہ اعلان زیادہ تعجب خیز تھا۔ تاہم پھر اچانک عباس عراقچی کی تقریر کو منسوخ کردیا گیا۔
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے واضح کیا ہے کہ وزیر خارجہ کی تقریر جو پیر کو کارنیگی انڈومنٹ کانفرنس میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کی جانی تھی، تبدیلیوں کے بعد منسوخ کر دی گئی۔
تقریر مباحثہ میں تبدیل
ایرانی مشن نے پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ منسوخی اس وقت ہوئی جب آرگنائزنگ باڈی نے تقریر کی شکل کو بحث میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایرانی مشن نے منتظمین کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار بھی کیا اور عندیہ دیا کہ عراقچی کی تقریر کا مکمل متن مناسب وقت پر شائع کیا جائے گا۔
اس سے قبل اپنی پریس کانفرنس کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام بین الاقوامی ایٹمی پالیسی کانفرنس میں عباس عراقچی کی شرکت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیا اور کہا کہ وزیر خارجہ کو دعوت پہلے ہی دی جا چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ سیشن آج سہ پہر 4 سے 5 بجے کے درمیان مقامی وقت کے مطابق ہوگا۔۔ انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ وزیر کا شیڈول انہیں شرکت کرنے اور آن لائن تقریر کرنے کی اجازت دے گا۔ عراقچی جو امریکی فریق کے ساتھ اپنے ملک کے مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں کو مذاکرات کا ماسٹر قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ تجربہ کار سیاست دان ہیں اور ان کے پاس برسوں کا سفارتی تجربہ بھی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے انہیں وزیر خارجہ کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا تھا۔ عراقچی ملنسار آدمی ہیں اور مشکل مذاکرات کے ماہر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے ایران اور مغرب کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے پر عمل درآمد ہوا تھا۔
Post Views: 2