واشنگٹن :گزشتہ چند دنوں سے ٹرمپ انتظامیہ کی ” ریسیپروکل ٹیرفپالیسی کو امریکہ میں تمام حلقوں کی جانب سے مخالفت کا سامناہے اور امریکہ کے کئی مقامات پر ٹیرف پالیسی مخالف مظاہرے بھی ہو ئے ہیں۔

منگل کے روز عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق جے پی مورگن چیز کے سی ای او جیمی ڈیمن نے 7 اپریل کو کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی ٹیرف پالیسی امریکہ میں افراط زر کو بڑھائے گی اور امریکہ کی پہلے سے سست معاشی ترقی پر مزید دباؤ ڈالے گی۔ 2024 کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی حمایت کرنے والے امریکی معروف ہیج فنڈ منیجر بل ایکرمین نے 6 تاریخ کو سوشل میڈیا پر کہا کہ امریکہ کی جانب سے عائد بھاری اور غیر متناسب محصولات دنیا کے خلاف معاشی جوہری جنگ شروع کرنے کے مترادف ہیں اور تجارتی شراکت دار، کاروبار اور سرمایہ کاری کے مقام کے طور پر امریکہ پر لوگوں کے اعتماد کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس سے امریکی عوام اور ٹرمپ کی حمایت کرنے والوں، بلخصوص کم آمدنی والے صارفین پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے جو پہلے ہی شدید معاشی دباؤ کا شکار ہیں۔

دوسری جانب امریکا کی بڑی مقدار میں زرعی پیداوار کی برآمد کا انحصار بین الاقوامی منڈیوں پر ہے۔ نیشنل ایسوسی ایشن آف افریقن امریکن فارمرز کے صدر جان بوئڈ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کی بدولت امریکی کسانوں کو اب مشکل وقت کا سامنا ہے اور بہت سے امریکی کسان بے روزگار ہوں گے۔ امریکن سویابین ایسوسی ایشن کے صدر کیلیب راگ لینڈکا ماننا ہے کہ پچھلی تجارتی جنگ امریکی سویابین کے کاشتکاروں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی تھی۔ اب ہمیں نئے مواقع اور نئے گاہکوں کی تلاش کرنی پڑےگی، لیکن یہ مشکل ہے۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

کیا عالمی طاقتیں جنوب مشرقی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھ پائیں گی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) جنوب مشرقی ایشیا میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کے مدنظر، کچھ علاقائی رہنما کئی دہائیوں پرانے 'بنکاک معاہدے‘ کو سفارتی اقدام کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں، جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے فروغ کو روکنا ہے۔

جب کہ عالمی طاقتیں جنوب مشرقی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کر رہی ہیں، ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) نے جوہری تخفیف اسلحے کی سلسلے میں اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔

آسیان طویل عرصے سے چین، امریکہ، برطانیہ، روس اور فرانس پر زور دے رہی ہے کہ وہ جنوب مشرقی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک زون معاہدے (SEANWFZ ) ٹریٹی پر دستخط کریں۔ اس معاہدے کو 'بنکاک معاہدہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

آسیان نے اس معاہدے کو، 1995 میں منظور کیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد علاقے کو ''جوہری اور بڑے پیمانے پر تباہی کے دوسرے ہتھیاروں‘‘ سے پاک رکھنا جبکہ جوہری توانائی کے شہری استعمال کی اجازت دینا ہے۔

گزشتہ ہفتے کوالالمپور میں آسیان کے علاقائی فورم ک‍ا اجلاس ہوا، جس میں اس کے موجودہ سربراہ ملائیشیا نے جوہری طاقتوں پر زور دیا کہ وہ ''جوہری ہتھیاروں کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت کو تسلیم کریں۔‘‘

ملائیشیا کے وزیر خارجہ محمد حسن کے مطابق، بیجنگ نے پہلے ہی تصدیق کر دی ہے کہ وہ 'بنکاک معاہدے‘ کی توثیق کرے گا۔

حسن نے گزشتہ ہفتے آسیان کی ایک سفارتی تقریب کے موقع پر صحافیوں کو بتایا، ''چین نے اس بات کو یقینی بنانے کا عہد کیا ہے کہ وہ بغیر کسی تحفظات کے معاہدے پر دستخط کرے گا۔‘‘

کیا امریکہ اور روس بھی اس معاہدے کی توثیق کریں گے؟

حسن نے یہ عندیہ بھی دیا کہ روس، جو دنیا کے سب سے بڑے جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے، بھی اس معاہدے پر دستخط کرے گا۔

اگرچہ ماسکو نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، تاہم روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جولائی کے اوائل میں ملائیشیا کا دورہ کیا تھا جس میں کئی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی کئی کثیرالجہتی اور دو طرفہ مذاکرات کے لیے گزشتہ ہفتے کوالالمپور میں تھے۔ تاہم، یہ واضح نہیں کہ آیا امریکہ ’بنکاک معاہدے‘ پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

واشنگٹن اور ماسکو دونوں خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو، بشمول جوہری توانائی کے شعبے میں، محفوظ بنانے کے خواہاں ہیں، کیونکہ کئی آسیان ریاستیں سویلین جوہری پروگرام تیار کرنے کے لیے بیرونی شراکت داروں کی تلاش میں ہیں۔

ایک مبہم عالمی آرڈر

تاہم، واشنگٹن کے ساتھ شراکت داری اتنی قابل اعتماد نہیں ہو سکتی جتنی پہلے تھی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ غیر معمولی اور بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی پر گامزن ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں عمومی احساس ہے کہ بین الاقوامی نظام کے اصول و ضوابط تباہ ہو رہے ہیں، اور خطے میں امریکہ کی ساکھ اور دلچسپی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

بیشتر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے گزشتہ چند مہینوں میں روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھایا ہے۔

وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روس کے اعلیٰ ترین سفارت کار سرگئی لاوروف کا یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری ایک ''کثیر قطبی عالمی نظام‘‘ میں منقسم رہی ہے۔

اس سے چین کے لیے واشنگٹن کے خرچ پر اپنی سفارتی طاقت کو بڑھانے کی گنجائش بنتی ہے۔ خارجہ تعلقات کونسل میں جنوب مشرقی ایشیا کے سینئر فیلو جوشوا کرلانٹزک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چین 'بنکاک معاہدے‘ کی توثیق کر کے، یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اسے ’’آسیان کا خیال ہے جب کہ امریکہ ممکنہ طور پر جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں پر محصولات عائد کر رہا ہے اور انہیں چین کو الگ تھلگ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''چین کا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اسے جنوب مشرقی ایشیا میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت پڑے۔‘‘

نیز، بیجنگ اب اپنی پالیسی اور امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا پر مشتمل اے یو کے یو ایس معاہدے کے درمیان تضاد پر زور دے سکتا ہے۔ تینوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ ایشیا بحرالکاہل میں جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔

بحیرہ جنوبی چین میں چینی آبدوزوں کی تعیناتی

واشنگٹن میں نیشنل وار کالج کے پروفیسر ذاکری ابوزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ''چین 'بنکاک معاہدے‘ کی شرائط کی قطعاً پابندی نہیں کرے گا۔‘‘

یہ معاہدہ اپنے دستخط کنندگان کو خطے یا اس کے آبی راستوں سے جوہری ہتھیار منتقل نہ کرنے کا عہد کرتا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، چین پر اپنی آبدوزوں کو بحیرہ جنوبی چین میں ''ذخیرہ‘‘ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

یہ ایک متنازعہ سمندری علاقہ ہے جس کا بیجنگ کے ساتھ کئی جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کا تنازعہ ہے۔

دو سال قبل روئٹرز نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا تھا کہ چین نے ہر وقت کم از کم ایک جوہری طاقت سے چلنے والی بیلسٹک میزائل آبدوز کو سمندر میں رکھنا شروع کر دیا ہے، جب کہ بہت سے ہینان سے لے کر جنوبی بحیرہ چین تک کے پانیوں میں گشت کر رہے ہیں۔

پچھلے سال، امریکی فوج نے زور دے کر کہا تھا کہ بیجنگ بحیرہ جنوبی چین میں اپنے مصنوعی جزیروں کے قریب تیرتے جوہری ری ایکٹر نصب کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

بیجنگ کی خود کو قابل اعتماد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش

خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس سینکڑوں آپریشنل جوہری وار ہیڈز ہیں، اور پینٹاگون کے مطابق اس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

ابوزا کا کہنا تھا کہ بیجنگ 'بنکاک معاہدے‘ پر دستخط کرنے والا پہلا ملک بننے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایک سفارتی چالاکی ہے۔ بیجنگ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ آسیان کے ساتھ ہے، خواہ زبانی ہی سہی۔

ابوزا نے کہا، ''چین اپنے آپ کو خطے میں ذمہ دار اسٹیک ہولڈر کے طور پر پیش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، ایک ایسا ملک، جو کہ قواعد و ضوابط کا پابند ہے۔

بیجنگ واشنگٹن کو خطے میں جمود اور اقتصادی ترقی میں خلل ڈالنے والے کے طور پر دکھانا چاہتا ہے۔‘‘

’آسیان وونک‘ نیوز لیٹر کے بانی ماہر سیاسیات پرشانت پرمیشورن کا کہنا یے کہ، عدم پھیلاؤ کی حقیقی کوششوں کے لیے معاہدے پر دستخط سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ علاقائی نیوکلیئر فری زون کا وژن ملائیشیا سمیت آسیان کی کچھ ریاستوں میں ''تاریخی طور پر اصولی اہمیت کا حامل ہے۔

‘‘

تاہم، پرمیشورن بتاتے ہیں۔ ''خطے میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہیں ہے کہ صرف یہی معاہدہ جوہری طاقتوں کو روک سکے گا یا جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کی تشویشناک حالت کو عام طور پر تبدیل کر دے گا۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • مودی کی ٹرمپ سے دوستی کھوکھلی نکلی،بھارتی وزیراعظم پراپوزیشن کا طنز
  • چین کی  امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے کچھ سیاست دانوں کی جانب سے چین کے داخلی معاملات کو دانستہ طور پر بدنام کرنے کی سختی سے مخالفت
  • ٹرمپ کٰساتھ مودی کی دوستی کھوکھلی ثابت ہو رہی ہے، کانگریس
  • کیا عالمی طاقتیں جنوب مشرقی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھ پائیں گی؟
  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • غزہ کے لیے امداد لے جانے والے جہاز “حنظلہ” سے رابطہ منقطع، اسرائیلی ڈرون حملے کا خدشہ
  • ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ
  • تیل کی قیمت نیچے لانا چاہتے ہیں، امریکا میں کاروبار نہ کھولنے والوں کو زیادہ ٹیرف دینا پڑے گا، ٹرمپ
  • امریکی صدر کا مختلف ممالک پر 15 سے 50 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کا اعلان
  • یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے