شہزادہ ہیری نے اپنی ذاتی سکیورٹی ختم کرنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج کردیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اپریل2025ء)شہزادہ ہیری نے لندن کی اپیل کورٹ میں حکومت کی جانب سے ان کی مالی اعانت فراہم کرنے والی ذاتی سکیورٹی کی تفصیلات سے محروم کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق شہزادہ ہیری اپنا کیس کورٹ آف اپیل میں لے کر پہنچے جہاں انہوں نے برطانیہ میں اپنی ذاتی سکیورٹی کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
(جاری ہے)
شہزادہ ہیری جن کے پاس ڈیوک آف سسیکس سمیت دیگر القابات ہیں فروری 2020 میں شاہی خاندان کے ایک ورکنگ ممبر کی حیثیت سے سبکدوش ہونے اور ریاستہائے متحدہ چلے جانے کے بعد اپنا حکومتی فنڈ سے تحفظ سے محروم ہو گئے۔شہزادہ ہیری نے ماتحت عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جس نے شہزادے کو اپنی ذاتی حفاظتی تفصیلات سے محروم کرنے کے حکومتی فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شہزادہ ہیری
پڑھیں:
فوجی عدالتوں میں سویلنزکےٹرائل کا فیصلہ، سابق چیف جسٹس نے نظرثانی درخواست دائرکردی
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کی اجازت دینے کے فیصلے کو واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔
سابق چیف جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے آئینی بینچ سے درخواست کی ہے کہ سپریم کورٹ نے حقائق اور قانون کا درست جائزہ نہیں لیا۔ نظرثانی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اگر فیصلے میں غلطی کی نشاندہی ہو جائے تو تصحیح کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے۔
درخواست کے مطابق فیصلے میں ایف بی علی کیس پر انحصار درست نہیں کیونکہ یہ فیصلہ 1962 کے آئین کے مطابق تھا جس کا اب وجود نہیں۔ اکیسویں ترمیم میں فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے نتیجے میں قائم کی گئی تھیں جبکہ موجودہ کیس میں کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوئی، اس لیے فیصلے پر انحصار بھی درست نہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تضادات کا مجموعہ ہے، ایک جانب کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب لکھا گیا کہ بنیادی حقوق یقینی بنانے کیلئے اپیل کا حق دیا جائے۔ 9 اور 10 مئی واقعات پر سپریم کورٹ کی آبزرویشن سے ٹرائل متاثر ہوں گے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کا مؤقف فیصلے کا حصہ بنایا، جبکہ آئینی بینچ نے فیصلے میں شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا۔