مقدمے کا مکمل ریکارڈ ون لنک، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ منصوبے کا کل افتتاح کریں گی
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس کے حکم پر پراجیکٹ مکمل، افتتاح کل ہوگا۔ عدلیہ، پراسکیوشن اور پولیس کو ریکارڈ تک مکمل رسائی حاصل ہوگی، بروقت چالان جمع نہ کروانے اور ناقص تفتیش سمیت تاخیری حربے استعمال کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی ہوسکے گی۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کی تاریخ کا پہلا منصوبہ، ایف آئی آر سے لیکر مقدمہ کے فیصلے تک مکمل ریکارڈ ون لنک پر ہو گا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم کے حکم پر پراجیکٹ مکمل، افتتاح کل ہوگا۔ عدلیہ، پراسکیوشن اور پولیس کو ریکارڈ تک مکمل رسائی حاصل ہوگی، بروقت چالان جمع نہ کروانے اور ناقص تفتیش سمیت تاخیری حربے استعمال کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی ہوسکے گی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے سائلیں کو بروقت انصاف کی فراہمی کے لیے آئی ٹی سے استفادہ حاصل کر کے تاریخی اقدامات کئے ہیں۔
خیال رہے چیف جسٹس عالیہ نیلم نے مقدمہ کے چالان بروقت جمع نہ کروانے پر جب دوران سماعت سخت نوٹس لیا تو رپورٹس سامنے آئیں جس کے مطابق 4 لاکھ سے زائد مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع نہیں ہوئے اور وجہ یہ بتائی گئی کہ کہیں تفتیشی افسراان کی غفلت اور کہیں پراسکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اقدامات نہیں کیے گئے۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے حکم دیا کہ ایسا منصوبہ بنایا جائے کہ جب کوئی ایف آئی آر درج ہو تو اس دن سے لیکر اس مقدمے کے فیصلے تک مکمل ریکارڈ ون لنک پر ہو جس سے پتہ چلے گا کہ تفتیشی یا پراسکیوٹر کس کی غلطی سے مقدمے کے فیصلے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
یاد رہے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم کے حکم پر آئی جی پنجاب، پراسکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ اور آئی ٹی کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے دن رات انتھک محنت سے پراجیکٹ مکمل کیا، منصوبہ کا پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر کل لاہور سے آغاز کیا جائے گا، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم پراجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح کریں گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم تک مکمل
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔