WE News:
2025-06-09@18:08:43 GMT

تین سال پہلے کیا کسی نے سوچا تھا؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

آج سے ٹھیک تین سال پہلے ایک طویل،  تھکا دینے والے دن کے بعد عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد  کامیاب ہوئی۔ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بنے جنہیں ایک جمہوری آئینی طریقے سے وزارت عظمٰی سے سبکدوش کیا گیا۔ اس دن اور پھر رات کو بہت کچھ ہوا، اسمبلیاں توڑنے کی سازش کی گئی، مارشل لا کی فرمائش کی گئی، آئین توڑا گیا مگر نتیجہ وہی نکلا جو نوشتہ دیوار تھا۔

عمران خان ہاتھ میں ایک ڈائری تھامے وزیر اعظم ہاؤس سے رخصت ہوئے۔ یوں سیاست کا ایک نیا باب کھل گیا۔ اس تحریر میں صرف اس بات پر غور کرنا ہے کہ تین سال پہلے جو حالات تھے اور جو سوچ تھی، جو خیال تھا کیا ہم آج اسی مقام پر کھڑے ہیں یا پھر حالات، خیالات اور نظریات تبدیل ہو چکے ہیں۔

تین سال پہلے جب عمران خان کو اقتدار سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے الگ کیا گیا تو سب نے سمجھا کہ عمران خان کا سیاسی سفر اب ختم ہو گیا ہے۔ وہ ایک سیلیکٹڈ وزیر اعظم تھے جو طاقتوروں کے کاندھوں پر بیٹھ کر آئے تھے اور اقتدار چھن جانے کے بعد ان کا حشر  اب شوکت عزیز یا میر ظفر اللہ جمالی جیسا ہو گا۔ عمران خان نے ان سب خیالات کو غلط ثابت کیا۔ وہ سیاست میں بھی سرگرم رہے اور اس دن کے بعد انہیں حقیقی قبولیت عامہ بھی حاصل ہوئی۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوتی تو عمران خان جلد ہی پاکستان کے سب سے ناکام، غیر مقبول وزیر اعظم بن جاتے لیکن تحریک عدم اعتماد نے انہیں ایک غیبی مدد فراہم کی جس کی شاید انہیں بھی توقع نہ تھی۔ عمران خان کو ان کی مدت پوری کرنے دی جاتی تو شاید وہ ختم ہو جاتے مگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے عمران خان کی سیاست کو ایک نیا جنم دیدیا۔

تین سال پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عمران خان کے ماننے والے ایک سیاسی جماعت کے کارکن نہیں بلکہ ایک فین کلب ہیں۔ عام تاثر یہ تھا کہ یہ برگر کلاس کے بچے ہیں جو بس پارٹی کرنا جانتے ہیں۔ جدوجہد  اور جارحیت ان کے بس کی بات نہیں۔ تین برس میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ عمران خان نے نہ صرف نوجوانوں کو  بھڑکایا، اکسایا  اور ان کو اس طرح اکٹھا کیا کہ انہی برگر بچوں نے نو مئی جیسا سانحہ کر دیا۔ اس میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے کبھی لڑائی مار کٹائی نہیں دیکھی تھی، وہ بچے بھی شامل تھے جو انگریزی میڈیم میں پڑھے تھے اور وہ افسران بھی شامل تھے جن کا تعلق اسی ادارے سے تھا جس کے خلاف نو مئی کیا گیا تھا۔

یہ ایک بہت بڑی سماجی تبدیلی تھی جس کا تصور کسی نے بھی تین سال پہلے نہیں کیا تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ برگر بچوں کی یہ جماعت اقتدار سے ہٹتے ہی فنا ہو جائے گی۔ اس کا شیرازہ خود ہی بکھر جائے گا اور چند دنوں میں اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔

تین سال پہلے عام خیال یہ تھا کہ شہباز شریف سے بہتر وزیر اعظم کا امیدوار کوئی نہیں ہو سکتا۔ شہباز سپیڈ سے زیادہ کسی اور چیز کی ضرورت پاکستان کو نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بنے اور ان کی سولہ ماہ کی کارکردگی سے ن لیگ اور پی ڈی ایم کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ بیانیہ، نظریہ، سوچ سب مہنگائی کے طوفان میں غارت ہو گئی۔

عوام کے لیے یہ سولہ ماہ اذیت کے مہینے تھے۔ ہر روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں نے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر دیا۔  شہباز شریف نے شیروانی تو ضرور پہن لی مگر عوام کے تن سے کپڑے تک  اتروا دیے۔ توقع تھی کہ حکومت اپنی کارکردگی سے اگلے انتخابات میں ن لیگ کی تاریخی فتح کے لیے راہ ہموار کرے گی مگر ایسا بھی نہ ہوسکا۔ ان سولہ ماہ میں ایک ایسی کالک تیار ہوئی جو شہباز شریف کے ہاتھ سے ساری جماعت کے منہ پر مل دی گئی۔ شہباز سپیڈ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی اور ووٹ کی عزت پر ایک چمکتی شیروانی ڈال دی گئی۔

تین سال پہلے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سمجھا گیا کہ اب تحریک انصاف کا ووٹر مایوس ہو جائے گا۔ پنجاب ہوا کا رخ پہچانے گا۔ خیبر پختونخوا پھر وہی تجربہ نہیں کرے گا۔ بلوچستان طاقتوروں کا ساتھ دے گا۔ سندھ روایت پسندی کا مظاہرہ کرے گا۔ آٹھ فروری کے انتخابات نے سب کچھ غلط ثابت کر دیا۔ اگرچہ تحریک انصاف عتاب کا شکار رہی، وہ اپنے انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکی، بے شمار لوگ روپوش رہے، بے شمار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے مگر اس استبداد کے باوجود تحریک انصاف کے ووٹر نے جس اکثریت سے ووٹ ڈالا اس سے عسکریت بھی حیران ہو گئی۔ خیبر پختونخوا میں کسی اور پارٹی کا وجود نہیں بچا۔ پنجاب میں ن لیگ بہ مشکل اکثریت حاصل کر سکی۔ وفاق میں تحریک انصاف اس سب کچھ کے باوجود ایک بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ اس سب کچھ کا کسی نے تین برس پیشتر تصور بھی نہیں کیا تھا۔

ان تین برسوں میں بہت سے نظریات باطل ہوئے، بہت سی باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ کوئی تین سال پہلے سوچ نہیں سکتا تھا کہ تحریک انصاف کا نیا جمہوری جنم ہو گا۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا اس ملک میں نو مئی ہو گا۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا شہباز شریف کی گورننس منہ کے بل گر پڑے گی۔ کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ پنجاب میں ن لیگ کا ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں نکلے گا۔ کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے باوجود ن لیگ سادہ اکثریت لینے میں ناکام رہے گی اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس ساری جدوجہد کا نتیجہ محسن نقوی کی حکمرانی کی صورت میں نکلے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

اردو کالم پاکستان تحریک انصاف شہباز شریف عمار مسعود عمران خان مسلم لیگ ن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم پاکستان تحریک انصاف شہباز شریف مسلم لیگ ن تحریک عدم اعتماد تین سال پہلے تحریک انصاف شہباز شریف سکتا تھا تھا کہ کے بعد

پڑھیں:

پی ٹی آئی کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں، انہیں کچھ نہیں ملے گا، رانا ثناء اللّٰہ

---فائل فوٹو

وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں، انہیں کچھ نہیں ملے گا۔

فیصل آباد میں نماز عید کی ادائیگی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات کی پیشکش کو قبول کرے، ہمارے ساتھ بیٹھے اور الیکشن قوانین میں ترامیم کرے، عمران خان قومی مسائل کو اپنی رہائی سے مشروط کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے خسارے کا سودا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خوشحالی کا ہمارے آبا و اجداد کا خواب آج پورا ہوتے نظر آرہا ہے، حکومت کے دلیرانہ فیصلوں کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر خوشحال ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ بھارت نے پاکستان پر بغیر کسی وجہ کے حملہ کیا، پاکستان نے بھارت کو ایسا جواب دیا کہ وہ آج دنیا میں ذلیل ہو رہا ہے، پاکستان آج دنیا میں ایک مضبوط ملک کے طور پر جانا جارہا ہے۔

سندھ کا ایک بوند پانی بھی چوری کا ارادہ نہیں: رانا ثناء اللّٰہ

وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ سندھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، سندھ کا ایک بوند بھی پانی چوری کا ارادہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مودی کی سیاست مسلمان اور پاکستان دشمن ہے، نریندر مودی کے ہوتے ہوئے ہندوستان کے عزائم ٹھیک نہیں ہوسکتے، بھارت پاکستان پر دوبارہ حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔

رانا ثناءاللّٰہ نے کہا کہ پاکستان کو درپیش مسائل پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جانا چاہیے، اپوزیشن 24 کروڑ عوام کے مسائل کے حل کے لیے ہمارے ساتھ بات کرے، معاشی خوشحالی ہر فرد کا مسئلہ ہے، اپوزیشن پہلے میثاق معیشت کرے، اس کے بعد سیاست سمیت دیگر مسائل پر بھی بات ہوجائے گی۔

وزیرِاعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ میثاق معیشت ذاتی نہیں ایک قومی مسئلہ ہے، اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت قومی معاملات پر دے رہے ہیں، قومی معاملات حل ہوجائیں تو دیگر مسائل کے حل کا بھی راستے نکل سکے گا۔

ن لیگ کے رہنما نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہوتی تو یہ حکومت پر الزام لگادیتے ہیں، پی ٹی آئی اس وقت کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں، یہ جو تحریک شروع کرنے جارہے ہیں ان کو اس سے کچھ نہیں ملے گا۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی رہائی کے لیے تحریک کی تیاری کر رہے ہیں، علی امین گنڈا پور
  • بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے تحریک کی تیاری کر رہے ہیں، علی امین گنڈاپور
  • نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی تحریک کامیاب ہوگی، شرجیل میمن
  • پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، رانا ثنا اللہ
  • عمران خان اچھے بیانیے کے ساتھ آگے آئیں، انتشار پھیلاکر کوئی بات نہیں منوائی جاسکتی، شرجیل میمن
  • نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی تحریک کامیاب ہوگی:شرجیل میمن
  • تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا پی ٹی آئی ہم سے بات کرے، رانا ثنااللہ
  • راولپنڈی: عمران خان نے نماز عید ادا نہیں کی
  • عمران خان کی کال پر احتجاجی تحریک شروع ہوگی: اپوزیشن لیڈر عمر ایوب
  • پی ٹی آئی کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں، انہیں کچھ نہیں ملے گا، رانا ثناء اللّٰہ