WE News:
2025-07-26@06:43:44 GMT

تین سال پہلے کیا کسی نے سوچا تھا؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

آج سے ٹھیک تین سال پہلے ایک طویل،  تھکا دینے والے دن کے بعد عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد  کامیاب ہوئی۔ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بنے جنہیں ایک جمہوری آئینی طریقے سے وزارت عظمٰی سے سبکدوش کیا گیا۔ اس دن اور پھر رات کو بہت کچھ ہوا، اسمبلیاں توڑنے کی سازش کی گئی، مارشل لا کی فرمائش کی گئی، آئین توڑا گیا مگر نتیجہ وہی نکلا جو نوشتہ دیوار تھا۔

عمران خان ہاتھ میں ایک ڈائری تھامے وزیر اعظم ہاؤس سے رخصت ہوئے۔ یوں سیاست کا ایک نیا باب کھل گیا۔ اس تحریر میں صرف اس بات پر غور کرنا ہے کہ تین سال پہلے جو حالات تھے اور جو سوچ تھی، جو خیال تھا کیا ہم آج اسی مقام پر کھڑے ہیں یا پھر حالات، خیالات اور نظریات تبدیل ہو چکے ہیں۔

تین سال پہلے جب عمران خان کو اقتدار سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے الگ کیا گیا تو سب نے سمجھا کہ عمران خان کا سیاسی سفر اب ختم ہو گیا ہے۔ وہ ایک سیلیکٹڈ وزیر اعظم تھے جو طاقتوروں کے کاندھوں پر بیٹھ کر آئے تھے اور اقتدار چھن جانے کے بعد ان کا حشر  اب شوکت عزیز یا میر ظفر اللہ جمالی جیسا ہو گا۔ عمران خان نے ان سب خیالات کو غلط ثابت کیا۔ وہ سیاست میں بھی سرگرم رہے اور اس دن کے بعد انہیں حقیقی قبولیت عامہ بھی حاصل ہوئی۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوتی تو عمران خان جلد ہی پاکستان کے سب سے ناکام، غیر مقبول وزیر اعظم بن جاتے لیکن تحریک عدم اعتماد نے انہیں ایک غیبی مدد فراہم کی جس کی شاید انہیں بھی توقع نہ تھی۔ عمران خان کو ان کی مدت پوری کرنے دی جاتی تو شاید وہ ختم ہو جاتے مگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے عمران خان کی سیاست کو ایک نیا جنم دیدیا۔

تین سال پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عمران خان کے ماننے والے ایک سیاسی جماعت کے کارکن نہیں بلکہ ایک فین کلب ہیں۔ عام تاثر یہ تھا کہ یہ برگر کلاس کے بچے ہیں جو بس پارٹی کرنا جانتے ہیں۔ جدوجہد  اور جارحیت ان کے بس کی بات نہیں۔ تین برس میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ عمران خان نے نہ صرف نوجوانوں کو  بھڑکایا، اکسایا  اور ان کو اس طرح اکٹھا کیا کہ انہی برگر بچوں نے نو مئی جیسا سانحہ کر دیا۔ اس میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے کبھی لڑائی مار کٹائی نہیں دیکھی تھی، وہ بچے بھی شامل تھے جو انگریزی میڈیم میں پڑھے تھے اور وہ افسران بھی شامل تھے جن کا تعلق اسی ادارے سے تھا جس کے خلاف نو مئی کیا گیا تھا۔

یہ ایک بہت بڑی سماجی تبدیلی تھی جس کا تصور کسی نے بھی تین سال پہلے نہیں کیا تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ برگر بچوں کی یہ جماعت اقتدار سے ہٹتے ہی فنا ہو جائے گی۔ اس کا شیرازہ خود ہی بکھر جائے گا اور چند دنوں میں اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔

تین سال پہلے عام خیال یہ تھا کہ شہباز شریف سے بہتر وزیر اعظم کا امیدوار کوئی نہیں ہو سکتا۔ شہباز سپیڈ سے زیادہ کسی اور چیز کی ضرورت پاکستان کو نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بنے اور ان کی سولہ ماہ کی کارکردگی سے ن لیگ اور پی ڈی ایم کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ بیانیہ، نظریہ، سوچ سب مہنگائی کے طوفان میں غارت ہو گئی۔

عوام کے لیے یہ سولہ ماہ اذیت کے مہینے تھے۔ ہر روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں نے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر دیا۔  شہباز شریف نے شیروانی تو ضرور پہن لی مگر عوام کے تن سے کپڑے تک  اتروا دیے۔ توقع تھی کہ حکومت اپنی کارکردگی سے اگلے انتخابات میں ن لیگ کی تاریخی فتح کے لیے راہ ہموار کرے گی مگر ایسا بھی نہ ہوسکا۔ ان سولہ ماہ میں ایک ایسی کالک تیار ہوئی جو شہباز شریف کے ہاتھ سے ساری جماعت کے منہ پر مل دی گئی۔ شہباز سپیڈ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی اور ووٹ کی عزت پر ایک چمکتی شیروانی ڈال دی گئی۔

تین سال پہلے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سمجھا گیا کہ اب تحریک انصاف کا ووٹر مایوس ہو جائے گا۔ پنجاب ہوا کا رخ پہچانے گا۔ خیبر پختونخوا پھر وہی تجربہ نہیں کرے گا۔ بلوچستان طاقتوروں کا ساتھ دے گا۔ سندھ روایت پسندی کا مظاہرہ کرے گا۔ آٹھ فروری کے انتخابات نے سب کچھ غلط ثابت کر دیا۔ اگرچہ تحریک انصاف عتاب کا شکار رہی، وہ اپنے انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکی، بے شمار لوگ روپوش رہے، بے شمار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے مگر اس استبداد کے باوجود تحریک انصاف کے ووٹر نے جس اکثریت سے ووٹ ڈالا اس سے عسکریت بھی حیران ہو گئی۔ خیبر پختونخوا میں کسی اور پارٹی کا وجود نہیں بچا۔ پنجاب میں ن لیگ بہ مشکل اکثریت حاصل کر سکی۔ وفاق میں تحریک انصاف اس سب کچھ کے باوجود ایک بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ اس سب کچھ کا کسی نے تین برس پیشتر تصور بھی نہیں کیا تھا۔

ان تین برسوں میں بہت سے نظریات باطل ہوئے، بہت سی باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ کوئی تین سال پہلے سوچ نہیں سکتا تھا کہ تحریک انصاف کا نیا جمہوری جنم ہو گا۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا اس ملک میں نو مئی ہو گا۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا شہباز شریف کی گورننس منہ کے بل گر پڑے گی۔ کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ پنجاب میں ن لیگ کا ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں نکلے گا۔ کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے باوجود ن لیگ سادہ اکثریت لینے میں ناکام رہے گی اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس ساری جدوجہد کا نتیجہ محسن نقوی کی حکمرانی کی صورت میں نکلے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

اردو کالم پاکستان تحریک انصاف شہباز شریف عمار مسعود عمران خان مسلم لیگ ن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم پاکستان تحریک انصاف شہباز شریف مسلم لیگ ن تحریک عدم اعتماد تین سال پہلے تحریک انصاف شہباز شریف سکتا تھا تھا کہ کے بعد

پڑھیں:

ملک میں ایک شخص کی مرضی چل رہی ہے( عمران خان)

قاسم اور سلیمان میری اولادیں ہیں،باپ کی رہائی کیلئے آواز اٹھانا اُن کا حق ہے، گنڈا پور، بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجا رہائی کیلئے بھرپور تحریک چلائیں، بانی کی ہدایت
ملک میں قانون یا مارشل لا نہیں ہے،میرے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے،فیملی، وکلاء اور میڈیا کو آج اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا، علیمہ خان کی میڈیا سے گفتگو

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ قاسم اور سلیمان میری اولادیں ہیں اور باپ کی رہائی کیلئے آواز اٹھانا اُن کا حق ہے۔ ملک میں قانون یا مارشل لا نہیں بلکہ ایک شخص کی ایماں پر سب کچھ ہورہا ہے۔ علی امین گنڈا پور، بیرسٹر گوہر خان اور سلمان اکرم راجہ کو ہدایت کی ہے کہ بھرپور تحریک چلائیں۔اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے ایک بار پھر بیانات دہرا کر انہیں بانی پی ٹی آئی سے منسوب کرنے کا دعویٰ کیا۔اڈیالہ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے کہا کہ آج توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں تھی، ہمیں گزشتہ رات 12 بجے سماعت کی اطلاع دی گئی اور آج صرف دو وکلاء کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے کہا کہ فیملی، وکلاء اور میڈیا کو آج اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا، ہم ساڑھے چار گھنٹے تک اڈیالہ جیل کے دروازے پر انتظار کرتے رہے۔علیمہ خان کے مطابق ’بانی نے کہا ہے انہیں 22 گھنٹے تک سیل میں رکھا جارہا ہے، اُن کا اخبار، کتابیں اور ٹی وی تک بند کردیا گیا ہے جبکہ انہوں نے وکیل کو بتایا کہ انہیں آج ایک کتاب فراہم کی گئی ہے۔علیمہ خان کے مطابق بانی نے اپنے وکیل کو بتایا ہے باہر جاکر بتائیں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے، ملک میں قانون یا مارشل لا نہیں بلکہ ایک شخص کی ایماں پر سب کچھ ہورہا ہے۔بہن کے مطابق بانی نے کہا ہے پاکستان میں ڈاکو ڈفر الائنس بن چکا ہے، عدلیہ کی آزادی ختم کردی گئی ہے، عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے اور پاکستان میں انصاف کا نظام دفن ہوچکا ہے۔علیمہ خان نے مطالبہ کیا کہ ہمیں بتایا جائے بانی کے ساتھ کس بات پر غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے۔علیمہ خان کے مطابق بانی نے علی امین گنڈا پور، بیرسٹر گوہر خان اور سلمان اکرم راجہ کو ہدایت کی ہے کہ بھرپور تحریک چلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • پارٹی کا ہر فرد 5 اگست کی تحریک پر توجہ دے (عمران خان کا جیل سے پیغام )
  • 9 مئی اتفاق نہیں سوچا سمجھا پلان تھا، طارق فضل چودھری
  • ’’ پارٹی کا ہر فرد فوری طور پر آپس کے تمام اختلافات بھلا دے اور مکمل طور پر 5 اگست کی تحریک پر توجہ دے ‘‘عمران خان نے جیل سے پیغام جاری کر دیا 
  • ملک میں ایک شخص کی مرضی چل رہی ہے( عمران خان)
  • عمران خان کے ساتھ عدل نہیں ہو رہا ہے
  • عمران خان کی رہائی کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے، بیرسٹر سیف
  • سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کی اندرونی بغاوت کا عمران خان کی رہائی کی تحریک پر کیا اثر ہوگا؟
  • پہلے تھپڑ منسا نے مارا، میں نے جواب میں جوتا پھینکا، علیزے شاہ کا دعویٰ
  • ملکی تاریخ کی مشکل ترین جیل کاٹ رہا ہوں، مجھے 5 اگست کی تحریک کا مومینٹم نظر نہیں آرہا :عمران خان
  • عمران خان نے تحریک انصاف میں انتشار پھیلانےوالوں کےخلاف کارروائی کا حکم دیا ہے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور