تین سال پہلے کیا کسی نے سوچا تھا؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
آج سے ٹھیک تین سال پہلے ایک طویل، تھکا دینے والے دن کے بعد عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بنے جنہیں ایک جمہوری آئینی طریقے سے وزارت عظمٰی سے سبکدوش کیا گیا۔ اس دن اور پھر رات کو بہت کچھ ہوا، اسمبلیاں توڑنے کی سازش کی گئی، مارشل لا کی فرمائش کی گئی، آئین توڑا گیا مگر نتیجہ وہی نکلا جو نوشتہ دیوار تھا۔
عمران خان ہاتھ میں ایک ڈائری تھامے وزیر اعظم ہاؤس سے رخصت ہوئے۔ یوں سیاست کا ایک نیا باب کھل گیا۔ اس تحریر میں صرف اس بات پر غور کرنا ہے کہ تین سال پہلے جو حالات تھے اور جو سوچ تھی، جو خیال تھا کیا ہم آج اسی مقام پر کھڑے ہیں یا پھر حالات، خیالات اور نظریات تبدیل ہو چکے ہیں۔
تین سال پہلے جب عمران خان کو اقتدار سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے الگ کیا گیا تو سب نے سمجھا کہ عمران خان کا سیاسی سفر اب ختم ہو گیا ہے۔ وہ ایک سیلیکٹڈ وزیر اعظم تھے جو طاقتوروں کے کاندھوں پر بیٹھ کر آئے تھے اور اقتدار چھن جانے کے بعد ان کا حشر اب شوکت عزیز یا میر ظفر اللہ جمالی جیسا ہو گا۔ عمران خان نے ان سب خیالات کو غلط ثابت کیا۔ وہ سیاست میں بھی سرگرم رہے اور اس دن کے بعد انہیں حقیقی قبولیت عامہ بھی حاصل ہوئی۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوتی تو عمران خان جلد ہی پاکستان کے سب سے ناکام، غیر مقبول وزیر اعظم بن جاتے لیکن تحریک عدم اعتماد نے انہیں ایک غیبی مدد فراہم کی جس کی شاید انہیں بھی توقع نہ تھی۔ عمران خان کو ان کی مدت پوری کرنے دی جاتی تو شاید وہ ختم ہو جاتے مگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے عمران خان کی سیاست کو ایک نیا جنم دیدیا۔
تین سال پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عمران خان کے ماننے والے ایک سیاسی جماعت کے کارکن نہیں بلکہ ایک فین کلب ہیں۔ عام تاثر یہ تھا کہ یہ برگر کلاس کے بچے ہیں جو بس پارٹی کرنا جانتے ہیں۔ جدوجہد اور جارحیت ان کے بس کی بات نہیں۔ تین برس میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ عمران خان نے نہ صرف نوجوانوں کو بھڑکایا، اکسایا اور ان کو اس طرح اکٹھا کیا کہ انہی برگر بچوں نے نو مئی جیسا سانحہ کر دیا۔ اس میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے کبھی لڑائی مار کٹائی نہیں دیکھی تھی، وہ بچے بھی شامل تھے جو انگریزی میڈیم میں پڑھے تھے اور وہ افسران بھی شامل تھے جن کا تعلق اسی ادارے سے تھا جس کے خلاف نو مئی کیا گیا تھا۔
یہ ایک بہت بڑی سماجی تبدیلی تھی جس کا تصور کسی نے بھی تین سال پہلے نہیں کیا تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ برگر بچوں کی یہ جماعت اقتدار سے ہٹتے ہی فنا ہو جائے گی۔ اس کا شیرازہ خود ہی بکھر جائے گا اور چند دنوں میں اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔
تین سال پہلے عام خیال یہ تھا کہ شہباز شریف سے بہتر وزیر اعظم کا امیدوار کوئی نہیں ہو سکتا۔ شہباز سپیڈ سے زیادہ کسی اور چیز کی ضرورت پاکستان کو نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بنے اور ان کی سولہ ماہ کی کارکردگی سے ن لیگ اور پی ڈی ایم کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ بیانیہ، نظریہ، سوچ سب مہنگائی کے طوفان میں غارت ہو گئی۔
عوام کے لیے یہ سولہ ماہ اذیت کے مہینے تھے۔ ہر روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں نے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر دیا۔ شہباز شریف نے شیروانی تو ضرور پہن لی مگر عوام کے تن سے کپڑے تک اتروا دیے۔ توقع تھی کہ حکومت اپنی کارکردگی سے اگلے انتخابات میں ن لیگ کی تاریخی فتح کے لیے راہ ہموار کرے گی مگر ایسا بھی نہ ہوسکا۔ ان سولہ ماہ میں ایک ایسی کالک تیار ہوئی جو شہباز شریف کے ہاتھ سے ساری جماعت کے منہ پر مل دی گئی۔ شہباز سپیڈ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی اور ووٹ کی عزت پر ایک چمکتی شیروانی ڈال دی گئی۔
تین سال پہلے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سمجھا گیا کہ اب تحریک انصاف کا ووٹر مایوس ہو جائے گا۔ پنجاب ہوا کا رخ پہچانے گا۔ خیبر پختونخوا پھر وہی تجربہ نہیں کرے گا۔ بلوچستان طاقتوروں کا ساتھ دے گا۔ سندھ روایت پسندی کا مظاہرہ کرے گا۔ آٹھ فروری کے انتخابات نے سب کچھ غلط ثابت کر دیا۔ اگرچہ تحریک انصاف عتاب کا شکار رہی، وہ اپنے انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکی، بے شمار لوگ روپوش رہے، بے شمار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے مگر اس استبداد کے باوجود تحریک انصاف کے ووٹر نے جس اکثریت سے ووٹ ڈالا اس سے عسکریت بھی حیران ہو گئی۔ خیبر پختونخوا میں کسی اور پارٹی کا وجود نہیں بچا۔ پنجاب میں ن لیگ بہ مشکل اکثریت حاصل کر سکی۔ وفاق میں تحریک انصاف اس سب کچھ کے باوجود ایک بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ اس سب کچھ کا کسی نے تین برس پیشتر تصور بھی نہیں کیا تھا۔
ان تین برسوں میں بہت سے نظریات باطل ہوئے، بہت سی باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ کوئی تین سال پہلے سوچ نہیں سکتا تھا کہ تحریک انصاف کا نیا جمہوری جنم ہو گا۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا اس ملک میں نو مئی ہو گا۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا شہباز شریف کی گورننس منہ کے بل گر پڑے گی۔ کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ پنجاب میں ن لیگ کا ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں نکلے گا۔ کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے باوجود ن لیگ سادہ اکثریت لینے میں ناکام رہے گی اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس ساری جدوجہد کا نتیجہ محسن نقوی کی حکمرانی کی صورت میں نکلے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم پاکستان تحریک انصاف شہباز شریف عمار مسعود عمران خان مسلم لیگ ن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اردو کالم پاکستان تحریک انصاف شہباز شریف مسلم لیگ ن تحریک عدم اعتماد تین سال پہلے تحریک انصاف شہباز شریف سکتا تھا تھا کہ کے بعد
پڑھیں:
شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش مسترد کر دی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی نے تین سابق پارٹی رہنماؤں کی جانب سے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش کو مسترد کر دیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کے لاہور کے ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد تین سابق پی ٹی آئی رہنماؤں نے اُن کے کمرے میں جا کر ملاقات کی، مبینہ طور پر انہیں ’عمران خان کی رہائی مہم‘ میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، تاہم شاہ محمود قریشی نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل رانا مدثر عمر کے مطابق سابق رہنما فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور مولوی محمود جمعرات کو اُس وقت شاہ محمود قریشی کے کمرے میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے جب وہ اکیلے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی انہیں دیکھ کر حیران رہ گئے اور فوراً ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار سے کہا کہ ان کے وکیل کو بلاؤ جو ابھی ایک منٹ پہلے ہی گیا ہے اور اسے بتاؤ کہ کچھ ’مہمان‘ آگئے ہیں۔
رانا مدثر نے مزید کہا کہ جب وہ واپس پہنچے تو سابق پی ٹی آئی رہنما جا چکے تھے، ملاقات تقریباً دس منٹ سے کچھ زیادہ جاری رہی اور اس دوران کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی۔
یہ غیر اعلانیہ ملاقات اُس وقت ہوئی جب مبینہ طور پر تینوں میں سے ایک رہنما کو شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق سابق پی ٹی آئی رہنما یہ تاثر بھی دینا چاہتے تھے کہ اسد عمر بھی اُن کے عمران خان کی رہائی کے لیے رابطہ مہم شروع کرنے کے فیصلے سے متفق ہیں، تاہم اسد عمر نے وضاحت کی کہ وہ اس گروپ کا حصہ نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تینوں رہنماؤں کو ہسپتال جانے سے روکا تھا کیونکہ اس سے پارٹی میں تناؤ پیدا ہوگا اور شاہ محمود قریشی کے خاندان کے لیے بھی تکلیف دہ صورتحال بن سکتی ہے۔
انہوں نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مہم کا حصہ نہیں ہیں، کچھ سیاستدانوں کا ایک گروپ اسے نمایاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ مؤقف انہوں نے ٹوئٹ میں بھی واضح کیا۔
اسد عمر نے لکھا کہ اگرچہ عمران خان اور دیگر قید رہنماؤں کی رہائی کے لیے کوئی بھی کوشش خوش آئند ہے، مگر وہ ’ریلیز عمران خان‘ نامی نئی مہم کا حصہ نہیں ہیں، انہیں صرف اخبارات سے پتا چلا کہ چند سابق رہنماؤں کی سربراہی میں یہ مہم شروع کی گئی ہے۔
آج اخباروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے نظر آیا کہ میں کسی عمران خان رہائی تحریک کا حصہ ہوں، جو تحریک انصاف کے ماضی کے رہنما شروع کر رہے ہیں ۔ کوئی بھی کاوش جو عمران خان اور دوسرے اسیروں کی رہائی کے لئے ہو، اچھی بات ہے۔ لیکن میں جس تحریک کا زکر ہو رہا ہے، اس کا حصہ نہیں ہوں۔
— Asad Umar (@Asad_Umar) November 1, 2025
مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش
دوسری جانب سابق پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ وہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی ممکن بنانے اور سیاسی قیدیوں کے لیے ضمانت کے حق کو تسلیم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اُن کا مقصد ایک ایسا ماحول بنانا ہے جس میں مذاکرات ہو سکیں، ملک میں سیاسی درجہ حرارت اسی وقت کم ہو سکتا ہے جب پی ٹی آئی ایک قدم پیچھے ہٹے اور حکومت ایک قدم آگے بڑھے۔
فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اعجاز چوہدری اور دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقات کی اور خوشی ہے کہ وہ بھی سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر متفق ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اُن کا گروپ مسلم لیگ (ن) کے سینئر وزیروں اور مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کرے گا۔
وکیل کا ردعمل
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے فواد چوہدری کے بیان کو گمراہ کن قرار دیا اور کہا کہ سابق پی ٹی آئی رہنما نے جمعرات یا جمعہ کو کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی قیادت سے کوئی ملاقات نہیں کی۔
انہوں نے بتایا کہ جیل میں ٹرائل صبح 10:30 سے شام 4:30 تک جاری رہا، اس لیے ہسپتال جانے کا مقصد مشکوک لگتا ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ متحد ہیں اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عمران خان کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے اور قانونی طریقے سے اپنے مقدمات لڑیں گے۔
علاج اور سہولیات کی صورتحال
ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی کو اگلے ہفتے پتھری کے آپریشن کے لیے ہسپتال میں رکھا گیا ہے، عمر سرفراز چیمہ اور میاں محمود الرشید بھی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، بتایا جاتا ہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں قید رہنماؤں کو مناسب طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے کہا کہ عدالتیں گزشتہ چھ ہفتوں سے اُنہیں ہسپتال منتقل کرنے کے احکامات جاری کر رہی تھیں لیکن انتظامیہ عمل درآمد نہیں کر رہی تھی، بالآخر دو طبی معائنے کے بعد ڈاکٹرز نے انہیں ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کے مختلف لیب ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور اگلے ہفتے ان کا آپریشن متوقع ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھی اُن کی صحت کے باوجود باقاعدہ فزیوتھراپی کی سہولت نہیں دی جا رہی۔