تمام صوبے آن بورڈ ہیں، افغان باشندوں کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں ہو رہی، طلال چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ افغان باشندوں کی وطن واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن میں کسی قسم کی ایکسٹینشن نہیں ہونے جارہی۔
وزیرمملکت داخلہ طلال چوہدری نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مرحلے میں ان افغان باشندوں کو پاکستان سے واپس افغانستان بھیجا گیا جن کے پاس کوئی لیگل دستاویزات نہیں، اس کے بعد افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے لیے 31 مارچ 2025 ڈیڈ لائن دی گئی۔ اس کے بعد پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گزشتہ رات آپریشن کے دوران 37 افغان باشندے گرفتار، 45 گنز برآمد ہوئیں، عطاتارڑ
طلال چوہدری نے کہا کہ وزارت داخلہ نے تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو آن بورڈ لیا اور افغان باشندوں کی افغانستان واپسی کے حوالے سے پیشرفت کا جائزہ لیا گیا، افغان باشندوں کی وطن واپسی کے حوالے سے ڈیڈ لائن میں کسی قسم کی کوئی ایکسٹینشن نہیں ہونے جارہی،نہ ہوئی ہے اور نہ ہوگی
انہوں نے کہا کہ ابھی تک 8 لاکھ 57 ہزار 157 غیر قانونی اور اے سی سی کارڈ ہولڈرر افغان باشندوں کو پاکستان سے واپس افغانستان بھیجا گیا ہے، افغان ہمارے بھائی اور ہمسائے ہیں لیکن یہ فیصلہ کچھ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کرنا پڑا، اس وقت پاکستان میں ہونے والے بہت سے دہشتگردی کے واقعات کے کنیکشنز افغان شہریوں سے ملتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان سیٹزن کارڈ والے باشندوں کی واپسی:اب تک کتنے افغان باشندے واپس جاچکے ہیں؟
طلال چوہدری نے کہا کہ ملک میں افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے شہریوں کی تعداد 8 لاکھ 15 ہزار 247 پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں اور پی او آر، یہ پروگرام پاکستان میں 2006 سے شروع ہوا اور 2023 تک جاری رہا اس میں 15 لاکھ 69 ہزار 522 افغان شہری اس میں رجسٹرڈ ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں منشیات کی بہت بڑی کھیپ افغانستان سے آتی ہے، دنیا کی 40 فیصد منشیات افغانستان میں پیدا ہورہی ہیں، بہت زیادہ تعداد میں افغان شہری منشیات استعمال کرتے ہیں، ان منشیات کا پیسہ بعد میں کسی نہ کسی لنک سے کرائم یا دہشتگردی سے جڑا ہوتا ہے، اس بنا پر ہم نے یہ فیصلہ کئی سال تک اپنے افغان بہن بھائیوں کی مہمان نوازی کرنے کے بعد کیا، یہ فیصلہ پاکستان کے مفاد میں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردی میں اضافے کی وجہ افغان باشندے، وقت آ گیا ہے انہیں نکال باہر کیا جائے، جان اچکزئی
طلال چوہدری نے کہا کہ ون ڈاکومنٹ ریجیم کا آغاز کیا گیا کہ جس طرح کسی بھی ملک سے کوئی پاکستان میں مصدقہ ویزے یا پاسپورٹ پر آسکتا ہے، کاروبار کرسکتا ہے، رہ سکتا ہے اور وزٹ کرسکتا ہے، اس طریقے سے افغان شہری بھی اب پاکستان پاکستان آئیں گے، جن لوگوں کو ہم واپس بھیج رہے ہیں وہ پاسپورٹ بنوا کر اور ویزے لے کر پاکستان آئیں، مگر اب پاکستان میں غیر قانونی اور بغیر رجسٹرین کے پاکستان میں انہیں رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وزیر مملکت داخلہ نے کہا کہ حکومت کا فیصلہ ہے کہ ون ڈاکیومنٹ رجیم پر مکمل عملدرآمد کیا جائے گا، وہ افغانستان کے شہریوں ہوں یا کسی اور ملک کے، جیسے مغرب کا بارڈر ہے ویسے ہی مشرق کے سرحد کو بھی ویسے ہی ریگولیٹ کریں گے، 2 ہزار 600کلو میٹر کی یہ لمبی سرحد بہت مشکل ہے کیوں کہ دہشتگردی یہی سے ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان باشندوں کے لیے پاکستان چھوڑنے کی 31 مارچ کی ڈیڈلائن میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ اس معاملے پر افغان حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور جتنے بھی شہری واپس بھیجے جاتے ہیں، ان کا پورا ایک طریقہ کار ہے، ان کی رجسٹریشن ہمارے طرف سے بھی ہوتی ہے اور ان کی جانب سے بھی کی جاتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغان باشندے افغانستان ایکسٹینشن پاکستان طلال چوہدری وزیر مملکت داخلہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان باشندے افغانستان ایکسٹینشن پاکستان طلال چوہدری وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا افغان باشندوں کی افغان باشندے پاکستان میں افغان شہری نے کہا کہ لائن میں ڈیڈ لائن کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کے لیے
پڑھیں:
کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
19 اپریل کو پاک افغان مذاکرات کے دوران زیادہ تر گفتگو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات میں بہتری اور افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق رہی۔ پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار نے افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہی بات کی کہ 2 سال سے زائد عرصے سے دونوں مُلکوں کے درمیان تجارتی معاملات پر بات چیت نہیں ہو سکی جس سے دونوں ممالک مواقع کھو رہے ہیں۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاک افغان تعلقات میں جو بہتری متوقع تھی وہ تو نہ آ سکی بلکہ 15 اگست 2021 کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشتگردی کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا جس میں زیادہ تر واقعات میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد، پاکستان نہ صرف افغان عبوری حکومت بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر شیئر کرتا رہا۔
پھر ستمبر 2024 میں تمام افغان غیر قانونی افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ فیصلہ افغان عبوری حکومت کو پسند نہیں آیا۔ اِس پر اُنہوں نے اپنی ناراضی کا برملا اظہار بھی کیا۔
19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اس سارے عرصے میں دونوں مُلکوں کے درمیان اعلٰی سطحی مذاکرات کا پہلا موقع تھا جس کو تمام سفارتی اور سکیورٹی ماہرین کی جانب سے نہ صرف خوش آئند قرار دیا گیا بلکہ معاملات کی درستی کے لیے اُٹھایا گیا قدم قرار دیا گیا۔
اسحاق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے سلسلے میں بات چیت کی۔ افغان مہاجرین کے اس مسئلے پر دونوں مُلکوں کے درمیان کابل میں بھی بات چیت ہوئی اور آج افغان مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کر دی گئی۔
اسحاق ڈار کے دورے کی سب سے اہم بات دونوں مُلکوں کے درمیان ازبکستان، افغانستان پاکستان 647 کلومیٹر ریلوے ٹریک تعمیر کا اعلان تھا، ساتھ ہی ساتھ پاکستان افغانستان اور چین سہ فریقی فورم کو فعال کرنے کا اعلان بھی ہوا اور 30 جون تک پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ تجارتی معاہدے کی تجدید کی بات بھی کی گئی۔ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک تجارتی روابط میں بہتری چاہتے ہیں۔
ایمبیسیڈر عبدالباسط
پاکستان کے سابق سینئر سفارتکار عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کی شروعات حوصلہ افزا ہے۔ ایک سوال کہ آیا ان مذاکرات سے پاکستان کو درپیش دہشتگردی کا معاملہ ختم ہو پائے گا؟ کے جواب میں ایمبیسیڈر عبدالباسط نے کہا کہ اُن کے خیال میں افغان طالبان ٹی ٹی پی کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اِسلامک سٹیٹ آف خُراسان بدستور ایک خطرہ رہے گا۔
سلمان بشیر
سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی ایک معاملہ ہے جبکہ نائب وزیراعظم نے وہاں مختلف دیگر موضوعات و مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔
پاک افغان مذاکرات میں ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق بات چیت ہوئی۔
افغان اُمور کے بعض ماہرین کی رائے ہے کہ پاک افغان تعلقات میں تلخی کا بڑا سبب دونوں مُلکوں کے تجارتی تعلقات ہیں۔ افغانستان میں کوئی صنعت نہیں اور تجارت ہی اُن کا ذریعہ معاش ہے جس کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے سے اپنی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی لیکن ایک تو یہ کہ ایران کے ساتھ افغانستان کا صرف ایک بارڈر ملتا ہے جس سے افغانستان کے تجارتی سامان کو بندرگاہ تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن سمیت زیادہ گزرگاہیں ہیں۔ افغان تجارت کے لیے پاکستان موزوں ترین مُلک ہے۔
افغان اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی فخر کاکاخیل کے مطابق جب پاکستان، افغانستان کے ساتھ اپنے بارڈرز کو بند کرتا ہے تو وہاں کاروبار کا شدید نقصان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں غم و غصّہ بڑھتا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ کابل کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا فوکس تجارت ہی رہی۔ افغان اُمور کےماہرین کا خیال ہے کہ تجارت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کر سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں