امریکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کے لیے براہ راست بات چیت کرے گا.صدرٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 اپریل ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کے حوالے سے براہ راست بات چیت کرے گا تاکہ ایران کو ایٹمی بم حاصل کرنے سے روکا جا سکے‘ مذاکرات کا مقصد ظاہر طور پر ہونے والے اقدامات کو روکنا ہے جو ممکنہ طور پر امریکی یا اسرائیلی فوجی حملوں کی صورت میں ہو سکتے ہیں.
(جاری ہے)
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار نہیں بنانا چاہیے اس وقت ایسے ممالک بھی ہیں جن کے پاس جوہری طاقت موجود ہے جوکہ نہیں ہونی چاہیے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم ان سے بات چیت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اس سے قبل صدر ٹرمپ نے اپنے دورصدارت میں 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا تھا جس کے تحت ایران کو یورینیم کی افزودگی محدود کرنے کے بدلے اقتصادی پابندیوں میں نرمی دی گئی تھی صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران نے اس معاہدے کے باوجود اپنی جوہری سرگرمیاں بڑھا دیں اور اب وہ ایٹمی بم کے حصول کے قریب تر ہے .
اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم نے ایران کو ایک سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنا اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری ہے ایران نے ہمیشہ اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے قرار دیا ہے اور اس بات کو مسترد کیا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے دونوں ممالک کے درمیان 1980 کے بعد سے کسی بھی قسم کے براہ راست تعلقات نہیں ہیں اگر بات چیت کامیاب ہوتی ہے تو یہ عالمی امن کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے مگر اگر ناکام ہو گئی تو اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں. صدرٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان ٹیرف پالیسی اور یرغمالیوں کی رہائی پر بھی گفتگو کی گئی امریکی صدر نے اسرائیلی وزیراعظم سے کہاکہ ٹیرف پر بہت سے ممالک کے ساتھ زبردست پیش رفت کر رہے ہیں ٹیرف کا نفاذ روکنا زیر غور نہیں انہوں نے کہا یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی پر غور کر رہے ہیں کسی وقت غزہ جنگ رک جائے گی. اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا غزہ کی پٹی میں حماس کے پاس اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے نئے معاہدے پر کام کر رہے ہیں جس کے حوالے سے کامیابی کی امید ہے ہم تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرانے کے پابند ہیں ملاقات کے بعد طے مشترکہ پریس کانفرنس منسوخ کردی گئی.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کہ ایران ایران کے ایران کو بات چیت کے لیے
پڑھیں:
بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو
اپنے ایک کالم میں اسرائیلی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر "موشے ایلاد" نے "معاریو" اخبار میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 2020ء میں اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے درمیان ہونے والا "ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان تک بڑھایا نہیں جا سکے گا۔ تاہم موشے ایلاد نے اس معاہدے کو اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات میں تاریخی قدم اور معیاری تبدیلی قرار دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے نہ صرف سفارتی تعلقات کی نوید دیتے ہیں بلکہ ٹیکنالوجی، معیشت، سیاحت، سیکورٹی اور زراعت کے شعبوں میں بھی معمول کے تعلقات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ سوال ابھارا کہ کیا ابراہیم معاہدہ واقعی دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہیں یا اسرائیل کو ہمیشہ ممکنہ خطرات کا سامنا رہے گا؟۔ اس سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذکورہ سوال کا جواب اس معاہدے کی کامیابی کی تفصیلات میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ ابراہیم اکارڈ کا حصہ بننے والے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے یہ معاہدے ایک نئی سیاسی صورتحال کا نتیجہ ہیں، وہ ممالک جو اقتصادی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ البتہ شام اور لبنان میں ایسی صورتحال ممکن نہیں۔
اس ریٹائرڈ کرنل نے دعویٰ کیا کہ ابراہیم معاہدہ سفارتی تعلقات سے آگے بڑھ کر دہشت گردی اور ایران جیسے مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے بارے میں ہے جن سے اسرائیل فرنٹ لائن پر نبرد آزما ہے۔ اس کے باوجود انہیں شک ہے کہ خطے کے تمام ممالک قیام امن کے لیے حقیقی تعاون کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے گہرے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان جیسے ممالک تک پھیلایا جا سکے گا؟۔ جس کی مستقبل میں کوئی خاص امید نہیں۔ دونوں ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے اور اندرونی سیاسی مخالفت بھی امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہو گی۔ آخر میں اس اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ اگر ہم صحیح معنوں میں شام اور لبنان کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں نہ صرف سلامتی کے میدان میں بلکہ اقتصادی و ثقافتی میدانوں میں بھی ٹھوس کامیابیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس راستے میں صبر اور موجودہ عمل میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ان دو ممالک میں عوامی شعور کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ، ابراہیم معاہدے کی کامیابیاں بے حسی اور منفی رویے کی دیوار سے ٹکرا سکتی ہیں۔