Express News:
2025-11-03@08:10:07 GMT

غیرذمے داری

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنا کر دنیا کو دہشت گردی کی نئی سوچ دینے والے تخریب کاروں نے اپنی ناکامی کے بعد جہاں دہشت گردی بڑھائی ہے وہاں اس واقعے کو بنیاد بنا کر ان کی حمایت کرنے والوں نے بھی اپنے سیاسی مفادات کے لیے راہ تبدیل کر لی ہے اور حقائق کے برعکس احتجاجی سیاست شروع کر دی ہے۔

انھی پیچیدہ حالات میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر جان مینگل نے اپنا احتجاج شروع کر رکھا ہے، مزے کی بات ہے کہ پی ٹی آئی نے اس احتجاج کی حمایت کررکھی ہے حالانکہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں بھی بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوئے تھے ، اس کو بنیاد بنا کر سردار اختر مینگل نے پی ٹی آئی حکومت کی حمایت ترک کی تھی اور دونوں کے راستے الگ ہوگئے تھے۔

اس دور میں بھی بلوچستان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ یہ بات ماننا ہوگی کہ دہشت گردوں کی منفی سوچ اب وہاں تک پہنچ گئی ہے جس کا تصور کسی نے بھی نہ کیا تھا کہ دہشت گرد ملک میں پہلی بار ٹرین کے مسافروں کو یرغمال بنا کر پیغام دیں گے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے ٹرین کو نشانہ بنائیں گے۔

بلوچستان میں برسوں سے جاری دہشت گردی کے باعث رات کے وقت ٹرینیں کوئٹہ آتی ہیں نہ ہی جاتی ہیں، اس لیے ٹرینوں کا سفر اور وقت محدود کر دیا گیا تھا۔ یوں توکراچی، راولپنڈی و پشاور کے لیے کوئٹہ سے صبح دن چڑھنے کے بعد ہی روانہ ہوتی تھیں جو اندرون ملک رات کو سفرکر کے منزل مقصود پہنچتی تھیں اور دہشت گردی بڑھنے کے بعد کراچی و پشاور سے کوئٹہ آنے والی ٹرینوں کے ایسے اوقات بنائے گئے تھے کہ وہ رات کے وقت سندھ و پنجاب سے گزر کر دن کی روشنی میں بلوچستان میں داخل ہوں اور سورج غروب ہونے سے پہلے کوئٹہ پہنچ جائیں، اگر موسم یا کسی اور وجہ سے شام تک ٹرین کوئٹہ نہ پہنچ سکے تو مسافروں کی حفاظت کے لیے مذکورہ ٹرین کو محفوظ مقام پر روک لیا جاتا تھا۔

جعفر ایکسپریس پہلے کوئٹہ ایکسپریس تھی جو دن میں کوئٹہ سے روانہ ہو کر راولپنڈی جاتی تھی جس سے راقم نے اپنے آبائی شہر شکارپور سے کوئٹہ کے لیے متعدد بار رات کا سفرکیا جو صبح کوئٹہ پہنچا کرتی تھی۔ کراچی کوئٹہ کا سفر کوئٹہ راولپنڈی سے کم تھا، اس لیے بولان میل کراچی سے شام کو روانہ ہوکر دوسرے روز شام تک کوئٹہ پہنچ جاتی تھی۔

چھ سات سال قبل راقم نے دوستوں کے ساتھ بولان میل سے کوئٹہ جانا تھا مگر کوئٹہ آنے سے قبل ریلوے پولیس اہلکار بوگیوں میں آئے اور انھوں نے مسافروں سے کہا کہ وہ آہنی کھڑکیاں بند کر لیں۔ ان سے راقم نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا تھا کہ شرپسند ٹرین پر پتھراؤ کرتے ہیں، اس لیے مسافر نقصان سے بچنے کے لیے کھڑکیاں بند کرلیں ۔ ان دنوں پتھر لگنے سے بعض مسافر زخمی بھی ہوئے تھے اس لیے احتیاط کی جاتی تھی۔

 کوئٹہ کا سفر جیکب آباد سے سبی تک میدانی علاقوں کا سفر ہے جہاں جیکب آباد کے بعد سبی تک کوئی بڑا شہر نہیں ہے، صرف نصیرآباد ضلع کا طویل علاقہ ہے اور سبی کے بعد پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پہاڑوں کے درمیان متعدد ٹنل ہیں۔ ایسی ٹنل جہلم سے راولپنڈی جاتے ہوئے بھی آتی ہیں مگر کوئٹہ کے راستے کی ٹنل طویل اور خطرناک ہیں جس کے اطراف آبادی نہیں پہاڑ ہیں جنھیں عبور کر کے کوئٹہ سے آیا جایا جاتا ہے۔

ملک بھر میں ریلوے لائن کے اطراف آبادیاں ہیں مگر وہاں کھڑکیاں بند نہیں کرائی جاتیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دور اندیش سرکاری افسروں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوئٹہ سے مچھ کا سفر غیر محفوظ ہو جائے گا اور ٹنل کے قریب ٹرین روک کر یرغمال بنائی جا سکتی ہے، یہ سوچ دہشت گردوں کی تھی جنھوں نے 12 مارچ کو اپنے مذموم منصوبے پر کامیابی سے عمل کیا اور پہاڑوں اور ٹنل سے گزرنے والی جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنایا جس میں 26 افراد شہید ہوئے۔ یہ ایسا مقام تھا کہ جہاں سے سڑک بھی دور تھی، دہشت گرد پہاڑ پر مورچہ زن تھے مگر پاک فوج نے اپنی صلاحیت سے چند گھنٹوں کی فضائی کارروائی سے 33 دہشت گردوں کو ہلاک کرکے باقی مسافروں کو دہشت گردوں سے بازیاب کرانے کا کارنامہ انجام دیا اور دہشت گرد ناکام رہے مگر یہ منفی سوچ دہشت گردوں کی تھی جس سے متعلق سرکاری دماغوں کو پہلے سوچنا چاہیے تھا۔

جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد پی ٹی آئی، اختر مینگل، علیحدگی پسندوں کے حامیوں نے جعفر ایکسپریس سانحہ پر دہشت گردی کی کوئی مذمت نہیں کی۔ اسی لیے ماہ رنگ لانگھو کو بھی سیاست کرنے کا موقعہ ملا۔ حالانکہ یہ وقت دہشت گردوں کی مذمت کا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جعفر ایکسپریس دہشت گردوں کی کوئٹہ سے کے لیے تھا کہ کا سفر اس لیے کے بعد

پڑھیں:

کوئٹہ کے نوجوان ہائیکر ماحولیاتی تحفظ کے سفیر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ٹہ میں ہائیکرز کی درجنوں ٹیمیں ہیں، جو پہاڑوں پر بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے گڑھے کھودتی ہیں، شجرکاری کرتی ہیں اور جنگلی پرندوں اور درختوں کے لیے پانی کا بندوبست کرتی ہیں۔بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ہائیکرز اپنا شوق پورا کرنے کے ساتھ خدمتِ خلق میں بھی پیش پیش ہیں اور اونچے پہاڑوں پر ہائیکنگ کے ساتھ شجر کاری، جنگلی حیات کے تحفظ اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیمز بھی بنا رہے ہیں۔ کوئٹہ میں نوجوانوں کے لیے دیگر سرگرمیاں زیادہ میسر نہ ہونے سے کافی تعداد میں نوجوان ہائیکنگ کا شوق رکھتے ہیں۔ کوہ سلیمان رینج میں گھرے کوئٹہ کے چاروں اطراف میں کوہ زرغون، کوہ تکتو، کوہ چلتن اور کوہ مہردار واقع ہیں۔ ان تمام پہاڑیوں پر ہائیکنگ کے لیے سینکڑوں ٹریکس موجود ہیں۔ شہر سے قریب مری آباد میں پہاڑی پر پیدل اور سائیکلوں کے لیے بھی ٹریک تعمیر کیا گیا ہے اور ان چوٹیوں سے رات کے وقت کوئٹہ شہر کے انتہائی حسین مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔کوئٹہ میں ہائیکرز کی درجنوں ٹیمیں ہیں جو اجتماعی اور کچھ انفرادی طور فلاحی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مستونگ سے تعلق رکھنے ایک نوجوان کئی دہائیوں سے ان چوٹیوں پر شجر کاری کرتے اور کئی فٹ بلندی پر پانی پہنچاتے ہیں، جہاں ایک عام شخص بغیر کسی سامان کے آسانی سے پہنچ بھی نہیں سکتا۔کوئٹہ کے ہائیکرز ان پہاڑی چوٹیوں کو سرسبز کر رہے ہیں، جن میں ایک چوٹی چلتن پہاڑ کی بھی ہے۔ یہ چوٹی تین ہزار میٹر سے بلند ہے اور اس کے اطراف میں موسم انتہائی ٹھنڈا رہتا ہے اور سب سے پہلے برف باری بھی یہاں ہوتی ہے۔ دو سال قبل حکومت نے ان پہاڑی علاقوں میں زیتون کے درخت لگانے کا اعلان کیا تھا لیکن اب تک کوئی اقدام نظر نہیں آ رہے۔ حکومت اگر ان نوجوانوں کو زیتون کے درخت فراہم کرے تو ان پہاڑی چوٹیوں کو نہ صرف سرسبز کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے معاشی طور پر فائدہ اٹھانے کے ساتھ سیاحت میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

ویب ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • کوئٹہ کے نوجوان ہائیکر ماحولیاتی تحفظ کے سفیر
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • افغان وفدنے دہشت گردوںکی حوالگی کی پیشکش نہیں کی‘پاکستان
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری
  • افغانستان سے دراندازی بندہونی چاہیے،وزیردفاع۔بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا، پاک فوج
  • دہشت گردوں کی سرپرستی کاخاتمہ ناگزیر
  • افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید ہیں، دفتر خارجہ
  • پاکستان میں امن کی ضمانت کابل کو دینا ہوگی، وزیر دفاع
  • افغانستان سے دراندازی بند ہونی چاہئے، دہشتگردی پر پیچھے نہیں ہٹیں گے: وزیر دفاع