ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں 8 پاکستانی موٹر میکینکس قتل
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
تہران:ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں پاک، ایران سرحد کے قریب ایک افسوسناک واقعے میں 8 پاکستانیوں کو قتل کر دیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ابتدائی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ مقتولین موٹر میکینکس تھے اور ان کا تعلق پاکستان کے شہر بہاولپور سے تھا۔
پاکستانی سفارت خانہ کے حکام واقعے کی تفصیلات حاصل کرنے میں مصروف ہیں اور سفارت خانے کے افسران کو جائے حادثہ کی جانب روانہ کر دیا گیا ہے۔
واقعہ ایک دور دراز علاقے میں پیش آیا جس کی وجہ سے ایرانی حکام کی جانب سے تاحال کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔
لاشوں کی شناخت اور تصدیق کا عمل جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق حملہ آوروں کا تعلق مبینہ طور پر ایک پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم سے ہے جس نے پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
پاکستانی سفارت خانہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور متاثرین کے اہل خانہ کے لیے ضروری اقدامات کر رہا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مسئلہ نمبر پلیٹ کا
کراچی شہر میں گیس فراہم کرنے والی کمپنی نے پورے شہر میں گیس کی نئی لائنیں ڈالنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت کراچی شہر کی سڑکوں کو توڑ کر پائپ لائن بچھانی تھیں، یوں پورے شہر کی سڑکیں جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہیں مزید تباہ ہوجاتیں۔ گیس کمپنی کی انتظامیہ نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے کراچی میں شہری سہولتوں کی فراہمی کے ذمے دار تمام اداروں کو پیشگی 11.9 بلین روپے دینے کا فیصلہ کیا۔ گیس کمپنی نے یہ رقم بلدیہ کراچی، تمام ٹاؤنز کے ڈی اے اور تمام کنٹونمنٹ کو فوری طور پر ادا کردی۔
ان اداروں کی اجازت سے گیس کی نئی لائنوں کی تنصیب کا کام شروع ہوا۔ گیس کمپنی نے کئی ماہ قبل اپنا کام مکمل کرلیا مگر شہر کی سڑکوں پر کھودے گئے گڑھے اپنی جگہ موجود رہے، یوں موٹر سائیکل والے تو شدید مشکلات کا شکار ہوئے ہی مگر کار اور بس والوں کے لیے بھی مشکلات بڑھ گئیں۔ شہر میں ایک دن بارش ہوئی، کچھ علاقوں میں تیز بارش اور کچھ میں کم ہوئی مگر جتنی بھی بارش ہوئی پیدل چلنے والے گڑھوں میں گرے اور موٹر سائیکل کے حادثات بڑھ گئے۔
بہت سے افراد ان گڑھوں کی زد میں آکر اسپتال پہنچ گئے۔ گاڑیوں کی کمانیاں کمزور پڑ گئیں اور کئی گاڑیوں کی لوہے کی کمانیاں شدید ضرب کی تاب نہ لاتے ہوئے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں مگر گیس کمپنی کے کام کو مکمل ہوئے کئی ہفتے ہوگئے سڑکوں کی مرمت کا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا۔ اخبارات میں شہر کے مختلف علاقوں کی تصاویر کی اشاعت معمول کی بات بن گئی ہے جہاں سڑک ٹوٹنے کی بناء پر ٹریفک جام ہورہا ہے ۔اسی طرح الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر روزانہ سڑکوں کی حالت زار کے مناظر نشر اور وائرل ہونا عام سی بات ہوگئی ہے۔ کراچی شہر میں گزشتہ ایک سال کے دوران ٹریفک کے حادثات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ موٹر سائیکل والے سب سے زیادہ حادثات کا شکار ہوئے ہیں۔
ہیوی ٹرالر اور پانی کے ٹینکروں کا زیادہ تر نشانہ موٹر سائیکل سوار بنتے ہیں۔ صرف نیشنل ہائی وے کی بات کی جائے تو زیبسٹ کے ایک لیکچرار کا ٹرالر کے پہیوں تلے جان دینا ،شاہراہ فیصل پر ایک مرد ، ان کی حاملہ عورت او ر پیٹ میں موجود بچے کی دنیا میں آنے سے پہلے ہلاکت کے واقعات ہولناک ہیں۔ ہر روز کراچی شہر کے کسی نہ کسی حصے سے خوفناک حادثہ کی خبر آجاتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سڑکوں کا ٹوٹنا، ٹرالر اور ٹینکروں کے ڈرائیوروں کی ناقص ڈرائیونگ زیادہ حادثات کی وجہ ہیں۔
گزشتہ مالیاتی سال کے آخری عشرہ میں پوری دنیا میں تیل اور پٹرول کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوئیں۔ وفاقی حکومت نے بھی تیل اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی، حتیٰ کہ عالمی اندازوں کے باوجود ایران اور اسرائیل کی 10 روزہ جنگ کے دوران بھی تیل اور پٹرول کی قیمتیں کم ہوئیں مگر حکومت نے گزشتہ تین ماہ سے تیل اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرنا شروع کردیا ہے۔ اب پھر تیل اور پٹرول کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے اعلان کے مطابق پٹرول کی قیمت میں مزید 5 روپے کے قریب اضافہ ہوا ۔
پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی اشیاء صرف کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی روزگار کے ذرایع بھی کم ہوگئے ہیں۔ اس بدترین طرز حکومت اور شفافیت سے محروم صوبائی حکومت نے موٹر سائیکل اور کاروں کی نمبر پلیٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب اجرک کے نشان والی نمبر پلیٹ فراہم کی جائے گی۔ حکومت نے موٹر سائیکل کی اس نمبر پلیٹ کی قیمت 1500روپے مقرر کی۔ موٹر سائیکل کا ایک دفعہ کا ٹیکس 1800 روپے ہے۔ اسی طرح کار کے لیے نمبر پلیٹ کی قیمت بھی بڑھادی گئی ۔
اس کے ساتھ ہی گزشتہ سال کا ٹیکس ادا کرنا لازمی قرار پایا۔ کراچی میں ایک اندازے کے مطابق رجسٹرڈ شدہ موٹر سائیکلوں کی تعداد 30لاکھ سے زیادہ ہے۔ محکمہ ایکسائز نے سوک سینٹر میں نئی نمبر پلیٹ کی فراہمی کا ایک مرکز قائم کیا، یوں اس دفتر میں روزانہ اتنا بڑا ہجوم جمع ہوتا ہے کہ عام آدمی کے لیے دفتر تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ نمبر پلیٹ لے جانے والے بعض افراد کا کہنا ہے کہ اگر دفتر کے قریب منڈلانے والے ایجنٹوں سے سودا کیا جائے تو معاملہ آسان ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹریفک پولیس نے اجرک کے نشان والی نمبر پلیٹ نہ لگانے والے موٹر سائیکل والوں کا چالان کرنا شروع کردیا۔ کچھ لوگوں نے 5، 5 ہزار روپے تک چالان دیا۔
گزشتہ سال ایک ارب سینتالیس کروڑ روپے کے جرمانے کیے گئے اور اس مالیاتی سال کے دوران ایک ارب بہتر کروڑ روپے جمع کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ مگر یہ رقم سڑکوں کی تعمیر و مرمت، سگنل کے جدید ترین نظام کی تنصیب اور عام آدمی کو سڑک پار کرنے کی زیبرا کراسنگ یا سگنل کی سہولت فراہم کرنے پر خرچ نہیں ہوتی۔ جب ذرایع ابلاغ پر موٹر سائیکل سواروں کے بڑی بڑی رقموں کے چالان کی خبریں ٹیلی کاسٹ اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو اعلیٰ حکام کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوا اور اب 5 اگست تک نئی نمبر پلیٹ لگانے کی تاریخ بڑھادی گئی ہے۔
بعض صحافیوں نے لکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام سے 15 سال بعد سیف سٹی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اسی بناء پر نئی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹ ضروری ہے تاکہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت شاہراہوں پر لگے ہوئے کیمرے موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی شناخت کرسکیں۔ مگر حکومت سندھ کی ایک خاتون ترجمان نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ابھی تو شہر کے بیشتر حصوں میں کیمروں کی تنصیب کا کام ہوا ہی نہیں ہے۔ صرف ریڈ زون میں یہ کیمرے لگے نظر آتے ہیں۔ پورے شہر میں ہر چوک پر کیمرے نصب ہونے میں مہینوں اور برسوں لگ سکتے ہیں۔ اس وقت کچھ لوگوں نے اس مسئلے کو لسانی شکل دینے کی کوشش کی مگر یہ بنیادی طور پر اچھی طرز حکومت اور مہنگائی کا معاملہ ہے۔
نارتھ کراچی کے علاقہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم (N.G.O) کے نوجوان کارکنوں نے اجرک والی نمبر پلیٹ مفت تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو کئی ہزار افراد نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔ بعد میں پولیس والوں نے ان کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں کم قیمت پر نمبر پلیٹیں فروخت ہورہی ہیں اور لوگ ان پلیٹوں کو خرید رہے ہیں۔ سندھ حکومت کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نے یہ بھی بتایا ہے کہ سندھ حکومت نے چند سال قبل نئی نمبر پلیٹ کے نام پر کروڑوں روپے جمع کیے تھے، پھر کسی ٹھیکیدار کی عرضداشت پر عدالت نے اسٹے آرڈر دے دیا اور یہ رقم کہیں اور محفوظ ہوگئی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی خبروں کے مطابق سوئی گیس کمپنی سے ملنے والی اربوں روپوں کی رقم بینکوں میں ڈپازٹ کردی گئی ہے۔ سندھ میں مخصوص لسانی صورتحال کی بناء پر بعض عناصر اس معاملے کو اپنے مخصوص مفادات کے لیے لسانی مسئلہ بنارہے ہیں۔
ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر اس معاملے پر توجہ دے اور اس مسئلے کا فوری حل یہ ہے کہ اس نمبر پلیٹ کی قیمت انتہائی کم مقرر کی جائے۔ حکومت کا فرض ہے کہ شہر میں بلدیاتی امور انجام دینے والے تمام اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ فوری طور پر سڑکوں کی مرمت کرائیں۔ شہر میں دن کے وقت ہیوی ٹریفک کی آمد پر عائد پابندی پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے ، بین الاقوامی معیار کے مطابق ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا جدید نظام نافذ کیا جائے اور اجرک والی نمبر پلیٹ کو 100 روپے میں موٹر سائیکل والوں کو فراہم کیا جائے۔