میں نے اس سے پہلے بھی آزاد منڈی پہ لکھا ہے، آج دوبارہ اس موضوع پہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ 2 اپریل کو صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے بارے میں تقریر کی ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عالمی سیاست کے منظرنامے پہ اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
دنیا کئی بار دیکھ چکی ہے کہ جب سرمایہ داری کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہو، منڈی کی دیوی اپنی چمکدار روشنیوں سے دنیا کو خیرہ کر رہی ہو اور منافع کی بھٹی میں سونا پگھل رہا ہو تب ہمیں آزاد منڈی کے ترانے سنائے جاتے ہیں۔ ریاست کی مداخلت کو معیشت کے لیے زہر قرار دیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مقابلے کی فضا میں ہی ترقی پنپتی ہے اور مارکیٹ سب سے بہتر فیصلے کرتی ہے اور حکومت کا کام بس نگرانی کرنا ہے اسے کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن تاریخ کی اپنی بے رحم منطق ہوتی ہے۔ کچھ سال بھی نہیں گزرتے کہ وہی آزاد منڈی کے علمبردار اچانک ٹیرف کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ جو ہاتھ کبھی ریاست کی مداخلت سے کانپتے تھے وہی پھر تحفظ (protectionism) کے لیے اٹھنے لگتے ہیں۔ وہی لوگ جو عالمی تجارتی تنظیموں میں بیٹھ کر ترقی پذیر ممالک کو ڈانٹ رہے تھے کہ ٹیرف اور سبسڈی معیشت کی تباہی ہے، اب انھی اصولوں کو قومی مفاد کا نام دے کر اپنا رہے ہیں۔
دو اپریل کو صدر ٹرمپ نے روز گارڈن سے کھڑے ہوکر ایک نیا معاشی جہاد چھیڑ دیا۔ انھوں نے اس دن کو لبریشن ڈے قرار دیا مگر یہ آزادی کسی غلام قوم کے لیے نہیں تھی بلکہ عالمی تجارت کی زنجیروں کو مزید سخت کرنے کے لیے تھی۔
چین پر اضافی 34 فیصد ٹیکس یورپ پر 20 فیصد اور باقی دنیا پر 10 فیصد۔ آزاد منڈی کے ان مجاہدوں کو یکایک ریاستی تحفظ کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔یہ تضاد صرف امریکا تک محدود نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب کسی طاقتور ملک نے اپنی صنعتوں کو بچانے کے لیے ٹیرف کا سہارا لیا ہو۔ 1930 کی دہائی میں جب امریکا شدید کساد بازاری (Great Depression) کا شکار تھا اس نے اسموٹ ہالی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا جس کے تحت غیر ملکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے ممالک نے جوابی اقدامات کیے اور عالمی تجارت مزید سکڑ گئی جس نے بحران کو اور گہرا کردیا۔
یہی کچھ 1980 کی دہائی میں جاپانی گاڑیوں کے ساتھ ہوا جب امریکی حکومت نے جاپان کی کار انڈسٹری پر قدغن لگانے کے لیے مختلف تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ وہی امریکا جو آج چائنا پر ٹیرف لگا رہا ہے کل جاپان کے خلاف ایسا کر رہا تھا اور اس سے پہلے یورپ کے خلاف۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ منڈی کا کھیل تب تک جاری رہتا ہے جب تک طاقتور کو فائدہ ہو۔ جب طاقتور کو نقصان ہونے لگے تو اصول بدل دیے جاتے ہیں۔
آزاد منڈی دراصل صرف ایک نعرہ ہے، ایک ایسا خواب جسے ترقی پذیر ممالک کے لیے پالیسی کے طور پر نافذ کیا جاتا ہے مگر خود ترقی یافتہ ممالک اس پر مکمل عمل نہیں کرتے۔
عالمی مالیاتی ادارے (IMF اور World Bank) تیسری دنیا کے ممالک کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی معیشت کو اصلاحات کے نام پر کھول دیں، ریاستی اداروں کی نجکاری کریں، زرعی سبسڈی ختم کریں اور مقامی صنعتوں کو بیرونی سرمایہ کے لیے آسان ہدف بنا دیں۔
مگر جب یہی اصول امریکا، یورپ یا جاپان پر لاگو ہوتے ہیں تو وہ اچانک قومی سلامتی یا معاشی تحفظ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ جب پاکستانی یا بنگلہ دیشی حکومتیں اپنے ٹیکسٹائل مزدوروں کو سبسڈی دیتی ہیں تو انھیں مارکیٹ کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے لیکن جب امریکا اپنے زرعی کسانوں کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دیتا ہے تو وہ معاشی استحکام کہلاتا ہے۔
جب افریقہ یا لاطینی امریکا کی حکومتیں اپنی منڈیوں پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو انھیں رجعت پسند کہا جاتا ہے مگر جب یورپی یونین اپنی مصنوعات کو تحفظ دیتی ہے تو وہ معاشی دانشمندی بن جاتی ہے۔
ٹرمپ کے ان ٹیرف سے کیا واقعی امریکی مزدور کو فائدہ ہوگا؟ شاید کچھ صنعتوں کو عارضی طور پر سہارا ملے مگر عالمی تجارت کی سطح پر اس کے اثرات کچھ اور ہوں گے۔ چین اور یورپ جیسے بڑے تجارتی شراکت دار جوابی اقدامات کریں گے۔
امریکی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں سکڑ جائیں گی۔ عالمی سطح پر مہنگائی بڑھے گی، اشیائے ضرورت کی قیمتیں اوپر جائیں گی اور نتیجتاً عام امریکی مزدور مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیرف سے مقامی صنعتوں کو وقتی سہارا ملے لیکن اگر درآمدی اشیاء مہنگی ہوئیں تو صنعتی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا۔
وہ کمپنیاں جو دوسرے ممالک سے سستا خام مال لاتی تھیں وہ مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو وہ نقصان برداشت کریں گی یا مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کریں گی یا نوکریاں ختم کریں گی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرمایہ دارانہ آزاد منڈی کا یہ حال ہے تو کیا اس کا کوئی متبادل ہے؟ سوشلسٹ ماڈل کو دنیا میں کئی بار آزمایا جا چکا ہے لیکن اس کے بھی اپنے مسائل رہے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ نظام بے عیب ہے۔
چین ویتنام اور کیوبا جیسے ممالک نے کچھ حد تک ریاستی کنٹرول اور آزاد منڈی کے امتزاج سے ترقی حاصل کی ہے۔ یورپ میں بھی اسکینڈے نیوین ماڈل ایسا ہے جہاں ریاست فلاحی اقدامات کرتی ہے، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ساتھ ہی سرمایہ داری کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں معاشی طاقتور ممالک ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں وہ کمزور ممالک سے وسائل سستی لیبر اور منڈی تو حاصل کریں مگر جب ان ممالک کی صنعت ترقی کرنے لگے تو انھیں مختلف تجارتی پابندیوں میں جکڑ دیا جائے۔
یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ کون سا نظام انسانیت کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے مگر تاریخ کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ تضادات بالآخر خود ہی اپنا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔
آزاد منڈی کا جادو ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ جب بھی یہ اپنے ہی اصولوں کے تحت چلتی ہے اس کا سامنا ایسے سوالات سے ہوتا ہے جن کا جواب اس کے پاس نہیں ہوتا۔ ٹرمپ کے ٹیرف وقتی سیاست کا حصہ ہیں جن کا مقصد امریکی عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت ان کے لیے کچھ کر رہی ہے۔
لیکن اصل فائدہ ہمیشہ کی طرح بڑے سرمایہ داروں کو ہوگا۔ مزدور چاہے وہ امریکا کا ہو، چین کا ہو یا کسی اور ملک کا ہمیشہ ان پالیسیوں کی قیمت ادا کرتا ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک ایسے معاشی نظام پر بحث کرے جو نہ صرف منڈی کے اصولوں کو تسلیم کرے بلکہ مزدوروں اور عوام کے حقوق کو بھی مقدم رکھے۔ کیا ایسا کوئی نظام ممکن ہے؟ یہ سوال آج بھی دنیا کے ذہین ترین معیشت دانوں کے لیے کھلا چیلنج ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرمایہ دارانہ ا زاد منڈی کے صنعتوں کو یہ ہے کہ جاتا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی بنیادوں پر تجارتی معاہدہ طے پاگیا
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی بنیادوں پر تجارتی معاہدہ طے پاگیا WhatsAppFacebookTwitter 0 23 July, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی بنیادوں پر تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی درآمدی اشیا پر ٹیرف میں نمایاں کمی کریں گے۔ اس معاہدے پر اسلام آباد میں دستخط کی تقریب منعقد ہوئی جہاں افغان ڈپٹی وزیر تجارت ملا احمد اللہ زاہد اور پاکستان کے سیکریٹری تجارت جواد پال نے معاہدے پر دستخط کیے۔
معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے ٹیرف کی شرح 60 فیصد سے کم کر کے 27 فیصد تک لانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اقدام دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے اور خطے میں اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ معاہدہ یکم اگست 2025 سے نافذ العمل ہوگا اور ابتدائی طور پر ایک سال کے لیے موثر رہے گا۔
معاہدے کے تحت پاکستان افغانستان سے درآمد کیے جانے والے انگور، انار، سیب اور ٹماٹر پر ڈیوٹی کم کرے گا، جبکہ افغانستان پاکستان سے آنے والے آم، کینو، کیلے اور آلو پر ٹیرف میں کمی کرے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاری، پیٹرولیم لیوی مزید 10روپے تک بڑھانے پر غور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاری، پیٹرولیم لیوی مزید 10روپے تک بڑھانے پر غور روانڈا کی ہائی کمشنر کی چیئرمین سی ڈی اے سے ملاقات،دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بڑھانے پر تبادلہ خیال کوہستان کرپشن اسکینڈل، ملزمان کی جانب سے پلی بارگین کیلئے درخواستیں دائر اسحاق ڈار جمعہ کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے اہم ملاقات کریں گے چھبیسویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، پاک برطانیہ تعلقات پر تبادلہ خیالCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم