Express News:
2025-04-25@04:56:02 GMT

آزاد منڈی اور ٹیرف

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

میں نے اس سے پہلے بھی آزاد منڈی پہ لکھا ہے، آج دوبارہ اس موضوع پہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ 2 اپریل کو صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے بارے میں تقریر کی ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عالمی سیاست کے منظرنامے پہ اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

دنیا کئی بار دیکھ چکی ہے کہ جب سرمایہ داری کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہو، منڈی کی دیوی اپنی چمکدار روشنیوں سے دنیا کو خیرہ کر رہی ہو اور منافع کی بھٹی میں سونا پگھل رہا ہو تب ہمیں آزاد منڈی کے ترانے سنائے جاتے ہیں۔ ریاست کی مداخلت کو معیشت کے لیے زہر قرار دیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مقابلے کی فضا میں ہی ترقی پنپتی ہے اور مارکیٹ سب سے بہتر فیصلے کرتی ہے اور حکومت کا کام بس نگرانی کرنا ہے اسے کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن تاریخ کی اپنی بے رحم منطق ہوتی ہے۔ کچھ سال بھی نہیں گزرتے کہ وہی آزاد منڈی کے علمبردار اچانک ٹیرف کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ جو ہاتھ کبھی ریاست کی مداخلت سے کانپتے تھے وہی پھر تحفظ (protectionism) کے لیے اٹھنے لگتے ہیں۔ وہی لوگ جو عالمی تجارتی تنظیموں میں بیٹھ کر ترقی پذیر ممالک کو ڈانٹ رہے تھے کہ ٹیرف اور سبسڈی معیشت کی تباہی ہے، اب انھی اصولوں کو قومی مفاد کا نام دے کر اپنا رہے ہیں۔

دو اپریل کو صدر ٹرمپ نے روز گارڈن سے کھڑے ہوکر ایک نیا معاشی جہاد چھیڑ دیا۔ انھوں نے اس دن کو لبریشن ڈے قرار دیا مگر یہ آزادی کسی غلام قوم کے لیے نہیں تھی بلکہ عالمی تجارت کی زنجیروں کو مزید سخت کرنے کے لیے تھی۔

چین پر اضافی 34 فیصد ٹیکس یورپ پر 20 فیصد اور باقی دنیا پر 10 فیصد۔ آزاد منڈی کے ان مجاہدوں کو یکایک ریاستی تحفظ کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔یہ تضاد صرف امریکا تک محدود نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب کسی طاقتور ملک نے اپنی صنعتوں کو بچانے کے لیے ٹیرف کا سہارا لیا ہو۔ 1930 کی دہائی میں جب امریکا شدید کساد بازاری (Great Depression) کا شکار تھا اس نے اسموٹ ہالی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا جس کے تحت غیر ملکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے ممالک نے جوابی اقدامات کیے اور عالمی تجارت مزید سکڑ گئی جس نے بحران کو اور گہرا کردیا۔

یہی کچھ 1980 کی دہائی میں جاپانی گاڑیوں کے ساتھ ہوا جب امریکی حکومت نے جاپان کی کار انڈسٹری پر قدغن لگانے کے لیے مختلف تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ وہی امریکا جو آج چائنا پر ٹیرف لگا رہا ہے کل جاپان کے خلاف ایسا کر رہا تھا اور اس سے پہلے یورپ کے خلاف۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ منڈی کا کھیل تب تک جاری رہتا ہے جب تک طاقتور کو فائدہ ہو۔ جب طاقتور کو نقصان ہونے لگے تو اصول بدل دیے جاتے ہیں۔

 آزاد منڈی دراصل صرف ایک نعرہ ہے، ایک ایسا خواب جسے ترقی پذیر ممالک کے لیے پالیسی کے طور پر نافذ کیا جاتا ہے مگر خود ترقی یافتہ ممالک اس پر مکمل عمل نہیں کرتے۔

عالمی مالیاتی ادارے (IMF اور World Bank) تیسری دنیا کے ممالک کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی معیشت کو اصلاحات کے نام پر کھول دیں، ریاستی اداروں کی نجکاری کریں، زرعی سبسڈی ختم کریں اور مقامی صنعتوں کو بیرونی سرمایہ کے لیے آسان ہدف بنا دیں۔

مگر جب یہی اصول امریکا، یورپ یا جاپان پر لاگو ہوتے ہیں تو وہ اچانک قومی سلامتی یا معاشی تحفظ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ جب پاکستانی یا بنگلہ دیشی حکومتیں اپنے ٹیکسٹائل مزدوروں کو سبسڈی دیتی ہیں تو انھیں مارکیٹ کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے لیکن جب امریکا اپنے زرعی کسانوں کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دیتا ہے تو وہ معاشی استحکام کہلاتا ہے۔

جب افریقہ یا لاطینی امریکا کی حکومتیں اپنی منڈیوں پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو انھیں رجعت پسند کہا جاتا ہے مگر جب یورپی یونین اپنی مصنوعات کو تحفظ دیتی ہے تو وہ معاشی دانشمندی بن جاتی ہے۔

ٹرمپ کے ان ٹیرف سے کیا واقعی امریکی مزدور کو فائدہ ہوگا؟ شاید کچھ صنعتوں کو عارضی طور پر سہارا ملے مگر عالمی تجارت کی سطح پر اس کے اثرات کچھ اور ہوں گے۔ چین اور یورپ جیسے بڑے تجارتی شراکت دار جوابی اقدامات کریں گے۔

امریکی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں سکڑ جائیں گی۔ عالمی سطح پر مہنگائی بڑھے گی، اشیائے ضرورت کی قیمتیں اوپر جائیں گی اور نتیجتاً عام امریکی مزدور مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیرف سے مقامی صنعتوں کو وقتی سہارا ملے لیکن اگر درآمدی اشیاء مہنگی ہوئیں تو صنعتی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا۔

وہ کمپنیاں جو دوسرے ممالک سے سستا خام مال لاتی تھیں وہ مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو وہ نقصان برداشت کریں گی یا مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کریں گی یا نوکریاں ختم کریں گی۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرمایہ دارانہ آزاد منڈی کا یہ حال ہے تو کیا اس کا کوئی متبادل ہے؟ سوشلسٹ ماڈل کو دنیا میں کئی بار آزمایا جا چکا ہے لیکن اس کے بھی اپنے مسائل رہے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ نظام بے عیب ہے۔

چین ویتنام اور کیوبا جیسے ممالک نے کچھ حد تک ریاستی کنٹرول اور آزاد منڈی کے امتزاج سے ترقی حاصل کی ہے۔ یورپ میں بھی اسکینڈے نیوین ماڈل ایسا ہے جہاں ریاست فلاحی اقدامات کرتی ہے، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ساتھ ہی سرمایہ داری کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں معاشی طاقتور ممالک ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں وہ کمزور ممالک سے وسائل سستی لیبر اور منڈی تو حاصل کریں مگر جب ان ممالک کی صنعت ترقی کرنے لگے تو انھیں مختلف تجارتی پابندیوں میں جکڑ دیا جائے۔

 یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ کون سا نظام انسانیت کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے مگر تاریخ کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ تضادات بالآخر خود ہی اپنا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔

آزاد منڈی کا جادو ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ جب بھی یہ اپنے ہی اصولوں کے تحت چلتی ہے اس کا سامنا ایسے سوالات سے ہوتا ہے جن کا جواب اس کے پاس نہیں ہوتا۔ ٹرمپ کے ٹیرف وقتی سیاست کا حصہ ہیں جن کا مقصد امریکی عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت ان کے لیے کچھ کر رہی ہے۔ 

لیکن اصل فائدہ ہمیشہ کی طرح بڑے سرمایہ داروں کو ہوگا۔ مزدور چاہے وہ امریکا کا ہو، چین کا ہو یا کسی اور ملک کا ہمیشہ ان پالیسیوں کی قیمت ادا کرتا ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک ایسے معاشی نظام پر بحث کرے جو نہ صرف منڈی کے اصولوں کو تسلیم کرے بلکہ مزدوروں اور عوام کے حقوق کو بھی مقدم رکھے۔ کیا ایسا کوئی نظام ممکن ہے؟ یہ سوال آج بھی دنیا کے ذہین ترین معیشت دانوں کے لیے کھلا چیلنج ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرمایہ دارانہ ا زاد منڈی کے صنعتوں کو یہ ہے کہ جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ چین کا پیغام

اسلام ٹائمز: دونوں ممالک 25 سالہ تعاون کے پروگرام پر عملدرآمد کو تیز کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ توانائی کے مرکز کے طور پر ایران کی پوزیشن اور چین کی اشیا پیدا کرنیوالے سب سے بڑے ملک کے طور پر کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ تعاون دونوں ممالک کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور عالمی منڈیوں پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ اس دورہ کی اہمیت اس لحاظ سے مزید بڑھ جاتی ہے، جب ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں اور ایران امریکہ پر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اسکے پاس صرف امریکہ کا آپشن نہیں بلکہ وہ روس اور چین سمیت دنیا کے بڑے ممالک کیساتھ اپنے سفارتی و اقتصادی تعلقات کو آگئے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تحریر: احسان شاہ ابراہیم

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے چینی حکام کے ساتھ مشاورت اور دوطرفہ معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے آج بیجنگ کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک اور کثیرالجہتی تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بتایا ہے کہ دورہ چین کے موقع پر وزیر خارجہ چین کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات اور گفتگو کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور چین کے تعلقات تاریخی ہیں اور گذشتہ نصف صدی کے دوران بھی تہران اور بیجنگ کے تعلقات ہمیشہ پرفروغ رہے ہیں۔ ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ بہت سے بین الاقوامی معاملات کی جانب ایران اور چین کی نگاہ یکساں ہے اور قیادت کی سطح پر مذاکرات کا تسلسل ان قریبی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہران اور بیجنگ باہمی اعتماد اور احترام کی بنیاد پر اور دونوں قوموں کے مفادات کے لیے پرعزم ہیں۔

یہ دورہ ایران چین تعلقات بالخصوص اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں مضبوطی کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ جوہری مذاکرات اور کثیرالجہتی تعاون میں چین کے کردار کے پیش نظر، یہ دورہ علاقائی اور عالمی مساوات پر گہرے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ عراقچی کا دورہ چین دونوں ممالک کے اسٹریٹجک تعلقات اور تعاون کو وسعت دینے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب ایران اور چین، برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اہم رکن کے طور پر دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ عراقچی نے چینی ہم منصب کو ایرانی صدر کا پیغام پہنچایا ہے۔ یہ دورہ ان کے چینی ہم منصب کی سرکاری دعوت پر ہے اور اس میں اعلیٰ چینی حکام سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی جو اپنے چینی ہم منصب کی سرکاری دعوت پر بیجنگ کے دورہ پر ہیں، نے آج صبح چین کی کمیونسٹ پارٹی کی پولیٹیکل بیورو کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن اور چین کے نائب وزیراعظم ڈینگ زوژیانگ سے گریٹ پیپلز ہال میں ملاقات کی۔

ملاقات میں فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی طویل تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے چین - ایران جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے فریم ورک کے اندر تعاون کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا اور 25 سالہ جامع تعاون کے منصوبے پر عملدرآمد کو تیز کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ ایران کے اسٹریٹجک اور قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر چین کے کردار کو سراہتے ہوئے، ایرانی وزیر خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس گروپ کے فریم ورک کے اندر دو طرفہ اور کثیرالجہتی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایران کی ایشیائی پالیسی اور علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے، عراقچی نے ایران اور چین سمیت ہم خیال ممالک کے درمیان قریبی تعاون کو دھونس اور یکطرفہ فائدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری قرار دیا اور چین کے ساتھ جامع تعلقات کو وسعت دینے کے لیے ایران کے پختہ عزم کا اظہار کیا۔

ڈینگ ژو ژیانگ نے ایران اور چین کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات کی توسیع پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کو باہمی اعتماد اور احترام کی پیداوار اور دونوں قوموں کے مشترکہ مفادات پر مبنی قرار دیا اور چینی قیادت کی ایران کے ساتھ باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں تعلقات اور تعاون کو مزید فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک 25 سالہ تعاون کے پروگرام پر عمل درآمد کو تیز کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ توانائی کے مرکز کے طور پر ایران کی پوزیشن اور چین کی اشیا پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک کے طور پر کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ تعاون دونوں ممالک کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور عالمی منڈیوں پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ اس دورہ کی اہمیت اس لحاظ سے مزید بڑھ جاتی ہے، جب ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں اور ایران امریکہ پر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کے پاس صرف امریکہ کا آپشن نہیں بلکہ وہ روس اور چین سمیت دنیا کے بڑے ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی و اقتصادی تعلقات کو آگئے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟
  • چین اور کینیا کے درمیان دوستی کی ایک طویل تاریخ ہے، اہلیہ چینی صدر
  • ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکنا اب ناممکن، یو این چیف
  • ترکیہ میں 6.2 شدت کا زلزلہ، کئی یورپی ممالک میں بھی جھٹکے محسوس کیے گئے
  • ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ چین کا پیغام
  • پوپ فرانسس کے انتقال پر ایک درجن ممالک کا قومی سطح پر سوگ کا اعلان
  • چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے، امریکی صدر
  • یہ سونا بیچنے کا نہیں بلکہ خریدنے کا وقت ہے، مگر کیوں؟
  • چیئرمین پی اینڈ ڈی نے والڈ سٹی کے تین منصوبوں کیلئے اجلاس طلب کرلیا
  • پاکستانی وزیراعظم آج ترکی کے دورے پر