خشک سالی اور غذائی بحران کے خطرات
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جنھیں اس سال یعنی 2025 سے پانی کے شدید بحران کا سامنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کی حکومت اور افراد نے مل کر اس بحران کو حل نہ کیا تو اگلے چند سال میں خشک سالی کی وجہ سے پاکستان میں شدید ترین غذائی بحران شروع ہو جائے گا جس سے نہ صرف یہ کہ ملک کا اقتصادی استحکام متاثر ہوگا بلکہ اس کے وجود کو بھی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان 50 فیصد سے زائد پانی کی کمی کا شکار ہے اور بڑے آبی ذخائر میں بھی کافی کمی واقع ہو چکی ہے۔ پانی کی اس کمی کی وجہ سے چاول اور گندم کی فصل کی پیداوار بھی متاثر ہوگی۔
پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ لبنان، افغانستان، شام، ترکی، برکینوفاسو، قطر، اسرائیل، قبرص اور کویت شامل ہیں۔ ان سب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا تو کرنا ہی پڑ رہا ہے لیکن اس کے علاوہ ہر ملک کے اپنے انفرادی مسائل اس نوعیت کے ہیں جس سے وہاں زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
پانی کی کمیابی بنی نوع انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کمیابی کا مشاہدہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں کیا جا رہا ہے جب کہ صحرائے افریقہ میں پانی کی کمی کے اثرات تو نمایاں طور پر سامنے آرہے ہیں۔ دنیا بھر میں پانی کی طلب بڑھ رہی ہے اور جب طلب سپلائی سے بڑھ جائے تو یہ کمی قوموں کو ایک دوسرے کے مقابل میدان جنگ میں لا کھڑا کرتی ہے۔
پانی کی کمی اور خشک سالی کی وجہ سے خدشہ ہے کہ 24 کروڑ آبادی کا ملک پاکستان اپنی تاریخ کے ایک بڑے خوراک کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پانچ براعظموں میں پچاس سے زائد ممالک پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اس لیے اشد ضروری ہے کہ یہ ممالک جتنا جلد ممکن ہو سکے، دریاؤں اور زیرزمین پانی کے ذرایع کو محفوظ تر بنانے اور اس کے مشترکہ استعمال پر مبنی معاہدوں پر متفق ہو جائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں پانی کے مسئلے پر جھگڑے اور جنگیں جلد دنیا کے مختلف خطوں میں سر اٹھانے لگیں گے۔
جنوبی ایشیاء میں پانی کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر علاقائی منظرنامے پر نظر رکھنے والے ماہرین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان اگلی جنگ پانی کے مسئلے پر چھڑنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت پر اپنے حصے کے پانی کی چوری کے الزام کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ پہلے ہی بڑھ رہا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت اس کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر بندھ باندھ کر اور ڈیم تعمیر کر کے دونوں ممالک کے درمیان عالمی بینک کے ذریعے 1960ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
سرحدوں کے دونوں اطراف کی سیاسی جماعتیں پانی کے مسئلے پر اپنی سیاست بھی چمکا رہی ہیں۔ پاکستان میں میٹھے پانی کی کمی کے کئی عوامل ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی کو نہ روکنا اور دیہی آبادی کا شہروں کی طرف تیزی سے منتقل ہونا ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان دس ملکوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جو سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 1950ء میں پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 5,260 مکعب میٹر تھی، جو 2019ء تک کم ہو کر صرف 1,032 مکعب میٹر رہ گئی ہے۔
اس کے علاوہ ملک کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن ہے جب کہ عالمی اوسط 220 دن ہے۔ بحران کی وجوہات میں ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتا ہوئا درجہ حرارت اور بارش کا غیرمتوقع پیٹرن ملک کے آبی نظام کو متاثر کر رہا ہے جس کے نتیجے میں خشک سالی اور سیلاب عام ہو جائیں گے۔
پاکستان میں پانی کا دس فیصد استعمال گھریلو ضروریات کے لیے ہوتا ہے، بیس فیصد صغعتوں کے لیے اور باقی ستر فیصد پانی زرعی شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کو پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی جس کے تحت ہنگامی طور پر کئی اقدامات کرنے ہوں گے۔
پانی کی بچت: جدید آبپاشی نظام، جیسے کہ ڈرپ اریگیشن اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے والے طریقے متعارف کروا کر پانی کے ضیاع کو کم کرنا ہوگا۔ پانی ذخیرہ کرنے کی سہولیات: ملک میں نئے ڈیم اور ذخائر تعمیر کر کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھائی جائے۔
پاکستان آج بھی دستیاب پانی کا بڑا حصہ سمندر میں گرا کر ضایع کر دیتا ہے۔ 60 کی دہائی کے بعد ہم کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہیں بنا سکے، اب وقت آ گیا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا کے لیے کالا باغ ڈیم سمیت تمام ڈیزائن کردہ چھوٹے بڑے ڈیمز ترجیحاً تعمیر کیے جائیں اور پانی کے کم استعمال اور اس ’’لیکویڈ گولڈ‘‘ کی حفاظت کا شعور اجاگر کیا جائے۔
زرعی پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے نہروں، راجباہوں کی باقاعدگی کے ساتھ بھل صفائی کی جائے، روز مرہ کے گھریلو استعمال کے لیے ضرورت کے مطابق پانی استعمال کرنے کا کلچر اختیار کیا جائے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب پٹرول ڈیزل نہیں تھا تب بھی انسانی زندگی موجود تھی، پانی کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے۔
پاکستان میں پانی کا بحران گھڑی کی ٹک ٹک کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر ہم نے فوری توجہ اور عملی اقدامات نہ کیے اوراس مسئلے کو نظرانداز کیا تو مستقبل میں ملک کو شدید ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پانی کے تحفظ کے لیے بروقت اور مؤثر حکمت عملی اپنا کر ہی ہم ایک محفوظ اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پانی کے مسئلے پر پاکستان میں پانی کی کمی کی وجہ سے کے مطابق خشک سالی کا سامنا کے علاوہ میں پانی نے والے کے لیے
پڑھیں:
لکڑی کے فرنیچر کو دیمک سے بچانے کے آسان اور سستےٹوٹکے آزمائیں
ویب ڈیسک: دیمک کو ”خاموش تباہ کن“ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ لکڑی کے فرنیچر اور ڈھانچے کو بغیر فوری علامات کے اندر ہی اندر نقصان پہنچاتی ہے۔
لکڑی کا فرنیچر دیمک کے حملے کا سب سے عام شکار ہوتا ہے، جو اس کی مضبوطی اور خوبصورتی کو متاثر کر کے اسے اندر ہی اندر سے کھوکھلاکردیتا ہے۔
اگرچہ کیڑوں سے نجات کے لیے پیشہ ورانہ خدمات دستیاب ہیں، مگر وہ مہنگی ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس لیے گھریلو اور سستے قدرتی علاج انتہائی مؤثر اور محفوظ متبادل ہیں۔
دریائے چناب میں پانی کی سطح بلند, الرٹ جاری
دیمک یا ٹرمائٹس تاریک اور نم ماحول میں زیادہ پروان چڑھتے ہیں، اس لیے فرنیچر کی حفاظت کے لیے مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔
دیمک کے خاتمے کے لیے سب سے آسان اور سستا طریقہ یہ ہے کہ فرنیچر کو روزانہ سورج کی روشنی میں رکھا جائے کیونکہ دیمک نمی پسند کرتا ہے دیمک کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے اور لکڑی کو خشک کرنے کا ایک آسان اور قدرتی طریقہ ہے، جو مستقبل میں دیمک کے انفیکشن کے امکانات کو کم کر دیتا ہے۔
ملک بھر میں پلاٹس کی آن لائن تصدیق کا جدید نظام تیار
دیمک سے بچاؤ کے لیے نیم کےتیل کا استعمال بھی بہت مفید ہے۔ اس تیل کو متاثرہ جگہوں پر لگانے سے دیمک کی افزائش رک جاتی ہے اور مزید نقصان سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔
اسی طرح، سنترے کے تیل کا علاج بھی موثر ہے، جو سنترے کے چھلکوں سے نکالا جاتا ہے۔ اس میں موجود ڈی لیمونین دیمک کے خارجی ڈھانچے کو تحلیل کر کے اسے پانی کی کمی اور موت کی طرف لے جاتا ہے۔
متاثرہ لکڑی میں چھوٹے سوراخ کر کے تیل انجیکٹ کرنے سے دیمک کو براہ راست نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ بورک ایسڈ ایک غیر زہریلا کیڑے مار دوا ہے جو دیمک کے نظام انہضام میں خلل ڈالتی ہے۔ بورک ایسڈ کو پانی میں حل کر کے متاثرہ جگہوں پر اسپرے کرنے سے وقت کے ساتھ دیمک کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے۔
کاہنہ :لڑائی کے دوران چھریوں کے وار، 2 بھائیوں سمیت 3 افراد زخمی
دیمک کی کالونی کو ختم کرنے کے لیے متاثرہ فرنیچر کے قریب گیلے گتے رکھنا بھی کارگر طریقہ ہے۔ دیمک گتے پر منتقل ہو کر وہاں جمع ہو جاتی ہے، جس کے بعد گتے کو ہٹا کر کالونی کا ایک حصہ ختم کیا جا سکتا ہے۔
ایلو ویرا جیل کی موٹی تہہ لکڑی کی سطح پر لگانے سے ایک حفاظتی رکاوٹ بنتی ہے جو دیمک کو لکڑی میں گھسنے سے روکتی ہے اور نئے انفیکشن سے بچاؤ میں مدد دیتی ہے۔
چھوٹے انفیکشنز کے لیے نمک کا انجیکشن ایک سادہ اور مؤثر علاج ہے۔ لکڑی کے سوراخوں میں نمک اور گرم پانی کا مکسچر لگانے سے دیمک کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ مر جاتی ہے۔
لاہور: داتا دربار پولیس کی کارروائی، 2 رکنی چور گینگ گرفتار
چلکڑی کے فرنیچر کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر:
باقاعدگی سے معائنہ: دیمک کی سرگرمی کی علامات کے لیے وقتاً فوقتاً فرنیچر کا جائزہ لیں۔
خشک حالات کو برقرار رکھیں: فرنیچر کو خشک اور ہوا دار جگہ پر رکھیں تاکہ نمی دیمک کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔
دیمک سے بچاؤ والی پالش کا استعمال: ایسی پالش لگائیں جو دیمک کو روکنے میں مددگار ہو۔
دراڑیں اور خلاؤں کو سیل کریں: لکڑی کے قریب دیواروں یا فرش میں موجود دراڑوں کو سیل کر کے دیمک کی داخلہ راہیں بند کریں۔
31 جولائی سے شرح سود 10فیصد ہونے کا امکان
یہ آسان اور قدرتی طریقے آپ کے لکڑی کے فرنیچر کو دیمک سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کے گھر کو بھی محفوظ ماحول فراہم کرتے ہیں۔