سندھ بلڈنگ کے موجودہ و سابق ڈائریکٹر جنرلز اسحق کھوڑو اور عبدالرشید سولنگی نیب کے ریڈار پر
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
جرأت تحقیقاتی سیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭نیب نے قومی احتساب آرڈیننس، 1999کی دفعہ 9(a)کے تحت بیان کردہ کرپشن اور زیرِدفعہ 10 ملوث ملزمان، موجودہ ڈائریکٹر جنرل اسحاق کھوڑو اور سابقہ ڈی جی عبدالرشید سولنگی اور دیگر کے خلاف انکوائری کی اجازت دی
٭نیب کی رپورٹ کے مطابق تیسری بار بطور ڈی جی تعینات ہونے والے محمد اسحاق کھوڑوپر بدعنوانی، اختیارات کا غلط استعمال، اور غیرقانونی تعمیرات کو فروغ دینے کے سنگین الزامات ہیں
٭ نیب رپورٹ میں اسحق کھوڑو کو "پٹہ سسٹم”چلانے کا مرکزی کردار قرار دیا گیا ہے ، جس میں مافیا کے ساتھ مل کر رشوت کے بدلے غیرقانونی منزلیں، تجارتی استعمال اور ماسٹر پلان کے خلاف تعمیرات کی منظوری شامل ہے
٭ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20ماہ کے دوران کراچی میں 6000سے زائد غیر قانونی تعمیرات ہوئیں جبکہ صرف 3000کے قریب انہدامی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں جن میں سے اکثر فرضی اور ریکارڈ کا پیٹ بھرنے کے لئے تھیں
٭ رپورٹ میں پہلا تذکرہ ضلع کورنگی کے 120پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کا ہے ،یعنی 26 پلاٹ تو صرف لکھنؤ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کورنگی سیکٹر 31Eمیں ہی واقع ہیں
٭ضلع کورنگی کی غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افسران میں ڈپٹی ڈائریکٹر احسن ادریس، اور آغا جہانگیر جبکہ بلڈنگ انسپکٹر کاشف اور شہباز حسین کے نام شامل ہیں،جن کی غیرقانونی تعمیرات کی فہرست طویل ہے
٭ڈپٹی ڈائریکٹر احسن ادریس اور بلڈنگ انسپکٹر کاشف گزشتہ 20سال سے زیادہ عرصے سے اسی ضلع میں اپنی تعیناتی برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں، وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے کام کرواتے ہیں
ٔ
٭ نیب کراچی کے انکوائری افسران نے ان فہرستوں کی تیاری میں بہت تساہل ، تجاہل اور تغافل سے کام لیا ہے اور سالوں پرانی شماریات پر اکتفا کرتے ہوئے رپورٹ تیار کی ہے، جو غیر قانونی تعمیرات کی حالیہ سنگینی کو ظاہر نہیں کرتی
٭ ضلع کورنگی میں 101ایکڑ پر محیط صرف ایک چھوٹی سی لکھنؤ سوسائٹی میں غیر قانونی تعمیرات کی تعداد نیب رپورٹ کے برعکس 120سے کہیں زیادہ ہے، اس وقت بھی سوسائٹی میں بیس سے زائد پلاٹوں پر تعمیرات ہو رہی ہیں
٭ نیب رپورٹ میں نئی ناجائز تعمیرات کا کہیں تذکرہ ہے نہ ہی موجودہ ذمہ داران کا۔زیر نظر رپورٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور بلڈنگ کنٹرول انسپکٹرز تو بظاہر ان عہدوں پر کام نہیں کر رہے
٭ گزشتہ سالوں میں تو سمیع جلبانی (ڈی ڈی)، خاور حیات (اے ڈی)، عزیر امتیاز (اے ڈی)، سلمان شاہد (ایس بی آئی) اور محسن (بی آئی) نے یہاں کروڑوں روپوں کی غیر قانونی تعمیرات پر آنکھیں بند رکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی احتساب بیورو کی اسکروٹنی کمیٹی برائے نیب کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر آگئی۔ ذرائع کے مطابق مجاز اتھارٹی نے قومی احتساب آرڈیننس، 1999کی دفعہ 9(a)کے تحت بیان کردہ کرپشن اور زیرِدفعہ 10 ملوث ملزمان، موجودہ ڈائریکٹر جنرل اسحاق کھوڑو اور سابقہ ڈی جی عبدالرشید سولنگی اور دیگر کے خلاف انکوائری کی اجازت دی تھی۔ مؤرخہ 28؍مارچ 2025 کو نیب حکام نے 312 صفحات پر مشتمل اپنی تحقیقاتی رپورٹ بطور چار شیٹ برخلاف مذکورہ افسران، چیف سیکریٹری سندھ کو برائے اطلاع ارسال کی ہے ۔ نیب کی مرتب کردہ حتمی انکوائری رپورٹ کا موضوع سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کراچی کے افسران / اہلکاران اور دیگر افراد کا، منظم انداز میں ذاتی فوائد کے لیے بلڈنگ ضوابط کے برخلاف غیر قانونی تعمیرات اور عمارتوں کے نقشے کی منظوری میں ملوث ہونا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق اس رپورٹ میں یہ نوٹس کیا گیا ہے کہ محمد اسحاق کھوڑو کو تیسری بار بطور ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA)تعینات کیا گیا ہے ۔ ان پر بدعنوانی، اختیارات کا غلط استعمال، اور غیرقانونی تعمیرات کو فروغ دینے کے سنگین الزامات ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں انہیں "پٹہ سسٹم” چلانے میں مرکزی کردار قرار دیا گیا ہے ۔ جس میں مافیا کے ساتھ مل کر رشوت کے بدلے غیرقانونی منزلیں، تجارتی استعمال اور ماسٹر پلان کے خلاف تعمیرات کی منظوری شامل ہے ۔ متعدد شکایات اور میڈیا رپورٹس کے بعد، یکم ستمبر 2023تا اپریل 2025تک کے دورانیے میں یہ تفتیشی رپورٹ تیار کی گئی ہے ۔ جس میں مذکورہ ملزمان پر الزامات عائد کئے ہیں کہ
(1)ایس بی سی اے افسران نے دیگر افراد کے ساتھ مل کر رشوت کے بدلے غیرقانونی تعمیرات کی منظوری دی ۔
(2)( KBTPR 2002ترمیم شدہ) اور تعمیراتی ضوابط کی خلاف ورزی کی۔
(3)ماسٹر پلان اور زونل حدود کی خلاف ورزی سے شہری منصوبہ بندی کو تباہ کیا۔
(4)پٹہ سسٹم کے ذریعے تیزی سے غیرقانونی تعمیرات کو فروغ دینا اور بڑے پیمانے پر مالی فائدہ حاصل کرنا۔
(5)دکھاوے کے لیے جزوی طور پر تعمیرات کو گرانا، لیکن بعد ازاں دوبارہ غیرقانونی تعمیرپر سکوت۔
(6)نکاسی آب اور دیگر عوامی مقامات پر قبضے کی اجازت دینا۔ (7) کراچی کے ماسٹر پلان اور رہائشی مقامات کے استعمال میں بدعنوانی۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20ماہ کے دوران کراچی میں 6000سے زائد غیر قانونی تعمیرات ہوئیں جبکہ صرف 3000کے قریب انہدامی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں جن میں سے اکثر فرضی اور ریکارڈ کا پیٹ بھرنے کے لئے تھیں۔ مذکورہ رپورٹ میں پہلا تذکرہ ضلع کورنگی کے 120پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کا ہے ۔ جن میں سے پلاٹ نمبر D426، F56، F115، F108، F70، F54، F37، F33، F30، F22/5، F08، F04، A686، F57، F36، F38، F24، F1، F2، F3، F4، F75، F76، E199، D236، D445، LS115 یعنی 26 پلاٹ تو صرف لکھنؤ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کورنگی سیکٹر 31Eمیں واقع ہیں اور ضلع کورنگی کی غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افسران میں ڈپٹی ڈائریکٹر احسن ادریس، اور آغا جہانگیر جبکہ بلڈنگ انسپکٹر کاشف اور شہباز حسین کے نام شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹراحسن ادریس اور بلڈنگ انسپکٹر کاشف تو گزشتہ 20سال سے زیادہ عرصے سے اسی ضلع میں اپنی تعیناتی برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ چنانچہ وہ جائز و ناجائز طریقے سے کام کرواتے ہیں۔ اعلیٰ حکام بھی انہیں ضلع کورنگی میں ہی برقرار رکھنے پر زیادہ رضامند رہتے ہیں کیونکہ وہ بھی بھتہ کی وصولی کے لیے اپنی کام ہی کے افسران چاہتے ہیں۔
دوسری طرف جرأت تحقیقاتی سیل کی جانب سے جب پلاٹوں کی معلومات کیلئے لکھنؤ سوسائٹی کے ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ نیب کراچی کے انکوائری افسران نے ان فہرستوں کی تیاری میں بہت تساہل ، تجاہل اور تغافل سے کام لیا ہے اور سالوں پرانی شماریات پر اکتفا کرتے ہوئے رپورٹ تیار کی ہے جو غیر قانونی تعمیرات کی حالیہ سنگینی کو ظاہر نہیں کرتی۔
ذرائع نے جرأت تحقیقاتی سیل کو مزید بتایا کہ ضلع کورنگی میں 101ایکڑ پر محیط صرف ایک چھوٹی سی لکھنؤ سوسائٹی میں غیر قانونی تعمیرات کی تعداد 120 سے کہیں زیادہ ہے ۔ سال 2016 کے بعد سے تو اس سوسائٹی میں تعمیرات پر خود نیب نے پابندی لگائی ہوئی ہے جبکہ سال 2020سے سوسائٹی کا لے آؤٹ پلان بھی معطل ہونے کی وجہ سے بلڈنگ پلان کی منظوری اور تعمیرات پر مکمل پابندی عائد ہے ۔ مگر اس کے باوجود اس وقت بھی سوسائٹی میں بیس سے پلاٹوں پر تعمیرات ہو رہی ہیں جبکہ نہ ان کا کہیں نیب رپورٹ میں تذکرہ ہے نہ ہی موجودہ ذمہ داران کا۔ مذکورہ ڈپٹی ڈائریکٹر اور بلڈنگ کنٹرول انسپکٹرز تو بظاہر ان عہدوں پر کام نہیں کر رہے ہیں بلکہ گزشتہ سالوں میں تو سمیع جلبانی (ڈی ڈی)، خاور حیات (اے ڈی)، عزیر امتیاز (اے ڈی)، سلمان شاہد (ایس بی آئی) اور محسن (بی آئی) نے یہاں کروڑوں روپوں کی غیر قانونی تعمیرات پر آنکھیں بند رکھی ہوئیں ہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ جب سے لکھنؤ سوسائٹی میں ڈپٹی رجسٹرار میرپور خاص، جاوید شاہ کی بطور ایڈمنسٹریٹر تعیناتی ہوئی ہے اسی دوران ہی سوسائٹی کے پلاٹ نمبر F52پر تعمیرات اور E193پر پبلک سیل پروجیکٹ کی تکمیل ہوئی اور نشاندہی کے باوجود ان غیر قانونی یونٹس کی مارکیٹنگ آئیڈیل رئیل اسٹیٹ والے زمین ڈاٹ کام پر کر رہے ہیں۔ اسی طرح پلاٹ نمبر E152، F83، F83/2، D444، F83/3، F101، E182، D-212، وغیرہ وغیرہ غیرقانونی طور پر دو، تین، چار اور آٹھ چھوٹے یونٹس میں تقسیم اور تعمیرات پر سرکاری پابندی کے باوجود زیر تعمیر ہیں۔ جس کے لئے نہ صرف سوسائٹی کے رہائشی کی شکایات کو بلکہ ہائیکورٹ کے اسٹے آرڈر کو بھی حکامِ ودیگر نے ہوا میں اڑا دیا ہے ۔ مگر اس سب سے متعلق نیب کی رپورٹ بالکل خاموش ہے ۔ تاہم سندھ بلڈنگ کنٹرول میں بھتہ خوری کے ٹرینڈ سیٹرز کے خلاف باقاعدہ انکوائری اور رپورٹ کی تکمیل ایک خوش آئند عمل ہے بشرطیکہ کہ اس سے کراچی بھر کے شہریوں کو غیرقانونی تعمیرات کیخلاف کوئی ریلیف مل سکے خصوصاً لکھنؤ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کورنگی کے رہائشی شکایت کنندگان کیلئے کوئی آسانی مہیا ہو سکے۔
٭٭٭
نوٹ:(زیر نظر رپورٹ کو اس وقت اسی ایک موضوع یعنی لکھنؤ سوسائٹی ) تک محدود رکھا گیا ہے، دیگر علاقوں اور پلاٹوں کی تفصیلات قسط وار شائع کی جاتی رہیں گی)
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کی غیر قانونی تعمیرات غیر قانونی تعمیرات کی غیرقانونی تعمیرات رپورٹ کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر لکھنؤ سوسائٹی بلڈنگ کنٹرول اسحاق کھوڑو سوسائٹی میں تعمیرات پر پر تعمیرات ضلع کورنگی سندھ بلڈنگ تعمیرات کو ماسٹر پلان پلاٹوں پر نیب رپورٹ رپورٹ میں کی منظوری اور بلڈنگ کراچی کے اور دیگر نہیں کر کے خلاف نیب کی سے کام گیا ہے
پڑھیں:
وزیراعلی سندھ کا کراچی میں غیر قانونی ٹینکرز کے خاتمے اور کچے میں ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم
سید مراد علی شاہ نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ کچے کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا منصوبہ بنائیں اور وہاں سڑکیں، اسکول، اسپتال، ڈسپینسری اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں، سیلابی صورتحال کے بعد کچے میں ترقیاتی کام شروع کیے جائیں گے، گھوٹکی-کندھ کوٹ پل کی تعمیر کے بعد پورا علاقہ کھل جائے گا، سندھ حکومت کی ترجیح ہے کہ امن امان ہر صورت بحال ہو۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کچے کے علاقے میں ڈاکوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے اور کراچی میں غیر قانونی ٹینکرز کے خاتمے کا حکم دیا ہے۔ کچے کے علاقوں میں آپریشن اور کراچی سمیت صوبے میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اہم اجلاس وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں انہوں نے ڈکیتوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کچا ڈوب گیا ہے اور قانون شکن باہر آئے ہوں گے، ڈاکوؤں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن مزید تیز کیے جائیں۔ اجلاس میں وزیراعلی سندھ کو وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار اور انسپکٹر جنرل پولیس غلام نبی میمن نے بریفنگ دی، جس میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2024ء سے ٹیکنالوجی کے ذریعے کچے میں آپریشن تیز کیا گیا ہے، کچے میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر 760 ٹارگٹڈ آپریشن اور 352 سرچ آپریشن کیے ہیں، جنوری 2024ء سے اب تک آپریشن کے ذریعے 159 ڈکیت مارے گئے ہیں، جن میں 10 سکھر، 14 گھوٹکی، 46 کشمور اور 89 شکارپور کے شامل ہیں، 823 ڈکیتوں کو گرفتار کیا اور 8 اشتہاری ڈکیت مارے گئے، آپریشن کے دوران 962 مختلف نوعیت کے ہتھیار بھی برآمد کیے گئے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کچے کے ڈاکوؤں کا ہر صورت خاتمہ یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ کچے کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا منصوبہ بنائیں اور وہاں سڑکیں، اسکول، اسپتال، ڈسپینسری اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں، سیلابی صورتحال کے بعد کچے میں ترقیاتی کام شروع کیے جائیں گے، گھوٹکی-کندھ کوٹ پل کی تعمیر کے بعد پورا علاقہ کھل جائے گا، سندھ حکومت کی ترجیح ہے کہ امن امان ہر صورت بحال ہو۔ مراد علی شاہ نے کراچی میں غیرقانونی ٹینکرز کے خاتمے کی ہدایت بھی کی۔ اس موقع پر میئر کراچی مرتضی وہاب نے بتایا کہ 243 غیرقانونی ہائیڈرنٹس مسمار کیے گئے ہیں، 212 ایف آئی آر درج کر کے 103 ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، اس وقت 3200 کیو آر کوڈ کے ساتھ ٹینکرز رجسٹرڈ کیے ہیں، مختلف اقدامات سے 60 ملین روپے واٹر بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ اجلاس میں وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار، میئر کراچی مرتضی وہاب، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، آئی جی پولیس غلام نبی میمن، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن، پرنسپل سیکریٹری آغا واصف، کمشنر کرچی حسن نقوی، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو خالد حیدر شاہ، سیکریٹری بلدیات وسیم شمشاد، ایڈیشنل آئی جی آزاد خان، سی او او واٹر بورڈ اسداللہ خان اور دیگر شریک تھے۔