نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو ریگولیٹری فیصلوں پر نظر ثانی اور اپیلوں کے لیے صارفین سے بھاری فیس وصول کرنے پر اندرون و بیرون ملک سے تنقید کا سامنا ہے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ بات کراچی کے صنعتی صارف محمد عارف بلوانی کی جانب سے کے الیکٹرک کے بجلی کے پیداواری نرخوں کے معاملے میں خامیوں کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کو تکنیکی بنیاد پر مسترد کرنے پر بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے نیپرا کے ممبر (ٹیرف) متھر نیاز رانا کے سخت اختلافی نوٹ کے بعد سامنے آئی۔

10 اپریل کو جاری ہونے والے ریگولیٹری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عارف بلوانی کے الیکٹرک کے بجلی کی پیداوار کے ٹیرف کے معاملے میں فریق نہیں تھے اور انہوں نے تقریباً 10 لاکھ روپے فیس ادا نہیں کی لیکن عام صارف کے طور پر صرف ایک ہزار روپے ادا کیے اور اس وجہ سے ریگولیٹر کی جانب سے قبول کیے جانے کے اہل نہیں ہیں۔

تاہم متھر نیاز رانا نے اپنے اختلافی نوٹ میں ریگولیٹر کو یاد دلایا کہ نیپرا نے ماضی میں بھی اسی طرح کی درخواستوں کی منظوری دی تھی جس میں وفاقی حکومت بھی شامل تھی۔

انہوں نے کہا کہ نیپرا کو نیپرا ایکٹ کے تحت شفافیت اور غیر جانبداری کے ذریعے صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے فیصلوں کو چیلنج کرنے کے لیے عوام کو قابل رسائی اور سستا میکانزم فراہم کرنے کی ضرورت ہے، ’یہ انصاف، رازداری اور کارروائی کی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے عوامی شرکت اور انصاف تک رسائی کو فروغ دیتا ہے‘۔

رکن نیپرا بلوچستان نے کہا کہ نیپرا کی قانونی ٹیم نے نظرثانی کی تحریک کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ عارف بلوانی ریگولیشنز کے تحت کارروائی میں براہ راست فریق نہیں تھے، لیکن نیپرا ایکٹ کے سیکشن 7 (6) نے وسیع پیمانے پر عوام کی شمولیت کی اجازت دینے کے لیے کافی لچک فراہم کی ہے، انہوں نے کم سے کم یا بغیر لاگت کے عمل کے ذریعے عوام کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستوں کی اجازت دینے کی پرزور وکالت کی۔

انہوں نے دلیل دی کہ ’طریقہ کار کے ایسے تکنیکی معاملات جن میں عوام کے حقوق متاثر ہورہے ہوں، ان میں عوامی شرکت کو خارج نہیں کرنا چاہیے‘، اس کے بجائے گزارشات کو ان کے میرٹ کی بنیاد پر جانچا جانا چاہئے اور اگر ضروری ہو تو انہیں صرف ٹھوس بنیاد پر مسترد کیا جانا چاہیے’۔

انہوں نے کہا کہ مداخلت اور تبصروں کے ذریعے عوام کی فعال شمولیت کا مطلب ریگولیٹری شفافیت اور احتساب کو مضبوط بنانا ہے، ریگولیٹر کو یاد دلایا گیا کہ مظفر گڑھ میں 600 میگاواٹ کے سولر پلانٹ کیس میں انرجی اینڈ پاور سلوشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ کی مداخلت کو بھی اصل کارروائی میں فریق نہ ہونے کے باوجود قبول کیا گیا۔

اس کے علاوہ نیپرا میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں نظرثانی درخواست دائر کرنے میں تاخیر کو معاف کیا گیا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ عوامی جائزے کی تحریکوں کے لیے پہلے سے طے شدہ ایک ہزار روپے کی فیس کو بحال کیا جائے کیونکہ یوٹیلیٹی کی جانب سے ادا کی جانے والی فیس کا نصف وصول کرنا غیر معقول ہے۔

توانائی کے شعبے کے تجزیہ کار اور نیپرا کی سماعتوں میں باقاعدگی سے شریک ریحان جاوید نے بھی نیپرا کے رکن متھر رانا کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کس طرح ریگولیٹری طریقہ کار، جس کا اصل مقصد شفافیت کو یقینی بنانا تھا، عوام کی شرکت کو محدود کرنے اور صارفین پر بوجھ ڈالنے کے لیے تیار ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیپرا کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کو طریقہ کار کی بنیاد پر مسترد کیا گیا، خاص طور پر ’فریق‘ کے طور پر اہل نہ ہونے اور صرف ایک ہزار روپے کی فیس کے بجائےاصل ٹیرف پٹیشن کی عائد کردہ نئی 50 فیصد فیس ادا کرنے میں ناکامی کو جواز بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’فیس کے ڈھانچے میں مناسب لچک کے بغیر تبدیلی مؤثر طریقے سے عوامی نگرانی کو خارج کرتی ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ صارفین ٹیرف میں اضافے کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں جو ان کے بلوں کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔

دریں اثنا طریقہ کار کی سختی کا سبب بننے والی ریگولیٹری ترامیم ٹیرف کے فیصلوں کو وسیع تر جانچ پڑتال سے بچا کر طاقتور اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔

ریحان جاوید نے کہا کہ ممبر (ٹیرف) متھر نیاز رانا کے اختلاف رائے نے ریگولیٹری قوانین کے بارے میں اجارہ داریوں کو تحفظ فراہم کرنے والے اوزار میں تبدیل ہونے جبکہ نااہلیوں اور نقصانات کو عوام پر منتقل کیے جانے کے خطرے کی نشاندہی کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس سے احتساب کو نقصان پہنچتا ہے، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور بلاجواز ٹیرف منظوریوں کے ذریعے عوام کے پیسے کا غلط استعمال ہوتا ہے۔

نیپرا نے اپنے اکثریتی فیصلے میں صارف محمد عارف کی جانب سے جمع کرائی گئی نظرثانی کی تحریک کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے واپس کردیا تھا اور موقف اپنایا تھا کہ وہ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کے لیے کے الیکٹرک ٹیرف پٹیشن کے معاملے میں فیصلے کی کارروائی میں فریق بننے کے اہل نہیں ہیں۔

نیپرا نے مزید کہا تھا کہ درخواست گزار نے 9 لاکھ 34 ہزار 722 روپے فیس اور درخواست دائر کرنے میں تاخیر پر یومیہ 10 ہزار روپے بھی جمع نہیں کرائے تھے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کی درخواست کی جانب سے ہزار روپے طریقہ کار بنیاد پر کہ نیپرا کے ذریعے عوام کی کے لیے

پڑھیں:

عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا

اسلام ٹائمز: رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں، عبرانی میڈیا دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف اقتصادی، سائنسی اور فنی پابندیوں کی لہر کے بارے میں بہت زیادہ رپورٹنگ کر رہا ہے، اور اس عمل کو "سیاسی سونامی" سے تشبیہ دے رہا ہے جو اسرائیل کی برآمدی منڈیوں کو شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ اشاریے اور اعداد و شمار بین الاقوامی منڈیوں اور نمائشوں میں صیہونی مصنوعات کے بڑھتے ہوئے ردّ اور تنہائی کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کی تجارتی پوزیشن کمزور پڑ رہی ہے۔ خصوصی رپورٹ: 

بچوں کی قاتل سفاک صیہونی رجیم کو روکنے میں دنیا کی حکومتوں اور سیاسی نظاموں کی کوتاہیوں اور ناکامی کی تلافی یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ کے مخلتف ملکوں کے عام لوگوں، یونیورسٹیوں، اداکاروں اور فلمی ستاروں اور کھلاڑیوں نے کی ہے۔ ایک طرح سے عوام اور بعض حکومتوں کی طرف سے پابندیوں کے دباو نے اس حکومت کو بری حالت میں دھکیل دیا ہے۔ غزہ میں 710 دنوں سے جاری مسلسل جرائم اور اس پٹی میں رہنے والے 680،000 فلسطینیوں کے قتل عام کے پیچھے بنیادی وجہ حکومتوں، تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کی خاموشی ہے اور اس خاموشی اور پیچیدگی کی سب سے بڑی وجہ امریکہ اور مغربی اور عرب ممالک کے رہنماؤں کی ملی بھگت ہے۔ تاہم، اس عظیم غداری اور جرم نے پوری دنیا کے لوگوں، کھلاڑیوں، فلم اور ٹیلی ویژن کے اداکاروں اور ماہرین تعلیم کے ضمیروں کو بیدار کیا، وہ بچوں کو قتل کرنے والی صیہونی رجیم کے خلاف مظاہروں، بائیکاٹ، آڈیو، ویڈیو اور سائبر اسپیس میں تحریری پیغامات کے ساتھ جنگ ​​جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس جدوجہد میں موثر ثابت ہو رہے ہیں۔

عالمی سنیما انڈسٹری میں بائیکاٹ کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ:
اعداد و شمار کے مطابق کچھ عرصہ قبل فلم انڈسٹری کے ہدایت کاروں اور کارکنوں نے ایک بیان پر دستخط کیے تھے، جس میں اسرائیلی فلم انڈسٹری کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ حالیہ دنوں میں اس کارروائی میں نمایاں طور پر توسیع ہوئی ہے، دستخط کرنے والوں کی تعداد میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اب اس بیان پر دستخط کرنے والوں کی تعداد 4000 فلم سازوں سے تجاوز کر گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم تہواروں، تھیٹروں، براڈکاسٹ نیٹ ورکس، اور پروڈکشن کمپنیوں سمیت جو فلسطینی عوام کے خلاف جرائم اور نسل پرستی میں ملوث ہیں، اسکریننگ، تقریبات میں شرکت، یا اسرائیلی فلمی اداروں کے ساتھ کسی بھی تعاون میں شرکت نہ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ 

سینما انڈسٹری کے معروف نام، جیسے جوکین فینکس، ایما ڈارسی، رونی مارا، ایرک آندرے، ایلیٹ پیج، اور گائے پیئرس نے حال ہی میں دستخط کرنے والوں کے گروپ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس سے پہلے، جوش او کونر، لینا ہیڈی، ٹلڈا سوئنٹن، جیویئر بارڈیم، اولیویا کولمین، برائن کاکس اور مارک روفالو جیسے ستارے ابتدائی 1300 دستخط کنندگان میں شامل تھے۔ فلم جوکر کے لیے آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار اور ہالی ووڈ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک، جوکوئن فینکس ہمیشہ اپنی سماجی اور ماحولیاتی سرگرمی کے لیے جانے جاتے ہیں، انہوں نے انصاف اور انسانی حقوق کے دفاع کے لیے بارہا عالمی پلیٹ فارمز کا استعمال کیا ہے، اور ان کی اس مہم میں شمولیت نے اسے ایک خاص اخلاقی وزن دیا ہے۔ ان کے ساتھ، آسکر نامزد اداکارہ رونی مارا، فینکس کی اہلیہ، جنہوں نے سماجی تحریکوں کی حمایت کی تاریخ کے ساتھ دی گرل ود دی ڈریگن ٹیٹو جیسے کاموں میں کردار ادا کیا، ایک بار پھر یہ ظاہر کیا کہ فنکاروں کی وابستگی اسٹیج اور اسکرین سے بالاتر ہے۔

اسپین میں صیہونی ایتھلیٹس کی توہین:
اسپین میں بھی لوگوں نے فلسطین کی حمایت میں تاریخی اقدام کرتے ہوئے صہیونی سائیکلنگ ٹور روک دیا۔ ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے بھی لا بویلٹا سائیکلنگ ریس کے دوران صیہونی حکومت کے خلاف پرامن مظاہروں کی تعریف کی اور تل ابیب پر بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ ہسپانوی حکومت تشدد کی مذمت کرتی ہے، لیکن میڈرڈ اور دیگر شہروں میں حالیہ شہری مظاہروں نے ظاہر کیا کہ "آزاد بحث" کو مضبوط کیا جانا چاہیے اور اس کا پیغام پوری دنیا تک پہنچنا چاہیے۔ اسپین کے بادشاہ فیلیپ ششم کے جاری کردہ شاہی فرمان کے مطابق صیہونی حکومت کے ساتھ تمام تعلقات منقطع ہیں اور صیہونی رہنماؤں کا اسپین میں داخلہ بھی ممنوع ہے۔ دوسری جانب بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں نے صیہونی اشیا کا بائیکاٹ کرکے حکومت پر دباؤ ڈالا ہے۔ صیہونی حکومت کے خلاف عالمی پابندیاں کاغذی کاروائیوں سے آگے نکل کر حکومتی ایوانوں تک پہنچ چکی ہیں۔ اب نہ تو اسرائیلی پھل برآمد ہوتے ہیں اور نہ ہی اسرائیلی دوائیاں یورپ میں دستیاب ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں، عبرانی میڈیا دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف اقتصادی، سائنسی اور فنی پابندیوں کی لہر کے بارے میں بہت زیادہ رپورٹنگ کر رہا ہے، اور اس عمل کو "سیاسی سونامی" سے تشبیہ دے رہا ہے جو اسرائیل کی برآمدی منڈیوں کو شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ اشاریے اور اعداد و شمار بین الاقوامی منڈیوں اور نمائشوں میں صیہونی مصنوعات کے بڑھتے ہوئے ردّ اور تنہائی کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کی تجارتی پوزیشن کمزور پڑ رہی ہے۔

عالمی منڈیوں میں اسرائیلی برآمدات کا خاتمہ:
صیہونی حکومت کے چینل 12 نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کیا ہے کہ اسرائیل کی برآمدات کو حقیقی بحران کا سامنا ہے، کیونکہ دنیا ایسی اشیا حاصل کرنے سے سختی سے انکار کر رہی ہے جن پر "میڈ ان اسرائیل" کا لیبل موجود ہے۔ دنیا کی مختلف مارکیٹیں اب مختلف شعبوں میں اسرائیلی مصنوعات خریدنے پر آمادہ نہیں ہیں اور یہ پابندیوں میں غیر معمولی شدت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسرائیلی مینجمنٹ کنسلٹنگ فرم این ایس جی کے ڈپٹی سی ای او نینی گولڈفین نے کہا ہے کہ اب یہ خاموش پابندیاں نہیں ہیں، اور اب یہ پابندیاں زیادہ موثر اور واضح ہو گئی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • صارفین کیلئے بری خبر،بجلی مزید مہنگی کرنے کی درخواست نیپرا میں جمع،سماعت 29ستمبرکوہوگی
  • کراچی سمیت ملک بھر کے صارفین کیلئے بجلی مہنگی کرنے کی درخواست نیپرا میں جمع
  • پنجاب کو تاریخ کے بد ترین سیلاب کا سامنا ہے ، مریم نواز
  • کراچی سمیت ملک بھر کے صارفین کےلئے بجلی مہنگی کرنے کی تیاری
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • ٹک ٹاک بارے معاہدہ طے، عوام دوبارہ موقع دے امریکا کو مضبوط بنائیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پی ٹی آئی کے سینئر رہنما قاضی انور کی پارٹی قیادت پر تنقید
  •  صنعتکاروں کی پالیسی ریٹ 11فیصد برقرار رکھنے پر کڑی تنقید
  • عوام کی خدمت پر تنقید کی جارہی ہے، ایسا کرنے والوں کی بے بسی سمجھتی ہوں، مریم نواز
  • تنقید کرنے والوں کی بے بسی سمجھتی ہوں، وزیراعلیٰ مریم نواز