امریکا کو اپنی غلطیوں کو درست کرنے میں زیادہ بڑا قدم اٹھانا چاہئے، عالمی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
واشنگٹن :امریکہ نے ایک میموریٹم جاری کیا، جس میں کمپیوٹرز ، اسمارٹ فونز ، سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ آلات ، اور انٹگریڈڈ سرکٹوں کو “ریسیپروکل محصولات” سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ چینی حکومت نےاس کے جواب میں کہا کہ یکطرفہ “ریسیپروکل محصولات” کے غلط عمل کو درست کرنے میں یہ امریکا کی جانب سےایک چھوٹا سا قدم ہے۔ کچھ بین الاقوامی تنظیموں نے نشاندہی کی ہے کہ اگر امریکی حکومت متعلقہ مصنوعات کو استثنیٰ نہیں دیتی ہے تو ، “امریکی ٹیکنالوجی کی صنعت دس سال پیچھے چلی جائے گی اور مصنوعی ذہانت کا انقلاب نمایاں طور پر سست ہوجائے گا۔ حقائق سے ثابت ہوا ہے کہ 2 اپریل کو امریکہ کی طرف سے “ریسیپروکل محصولات” کے نفاذ کے بعد سے، بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظم و نسق میں خلل پڑا ہے، کاروباری سرگرمیاں اور لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں، اور خود امریکہ کو زیادہ سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہاہے.
اس کے ساتھ ہی یورپی یونین، جس کا امریکہ کے ساتھ سیکڑوں ارب یورو کا سروس تجارتی خسارہ ہے، یہ بھی کہا کہ اگر امریکہ اپنا خیال بار بار تبدیل کرتا اور یورپ پر دباتا رہا تو وہ سروس تجارت کے ذریعے جوابی اقدامات سے انکار نہیں کرے گا۔دراصل امریکی حکومت نے اپنے محصولات کے حساب میں خدمات کی برآمدات کو جان بوچھ کر نظر انداز کیا ہے اور اب اس علاقے کو تجارتی جنگ میں گھسیٹا جا رہا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سروس ٹریڈ کی بنیاد اشیاء کی تجارت ہے۔ مثال کے طور پر، بین الاقوامی مالیاتی خدمات کا مقصد بین الاقوامی تجارت کو مالی اعانت اور سرمایہ کاری فراہم کرنا ہے. اگر دنیا کی نصف حصے سے زیادہ اشیاء کی بین الاقوامی تجارت ختم ہو جائے تو دنیا کو امریکہ سے کتنی مالیاتی خدمات کی ضرورت ہوگی؟ اس بار کچھ مصنوعات پر “ریسیپروکل محصولات” سے استثنیٰ کو کسی حد تک امریکا کی جانب سے کچھ علاج کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن امریکا کو جو کرنا چاہیئے، وہ “ریسیپروکل محصولات” کے نفاذ کو مکمل طور پر ختم کرکے اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر بات چیت کرنا ہے۔ تجارتی تنازعات کو حل کرنے کے لئے یہ واحد درست انتخاب ہے۔
Post Views: 4ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بین الاقوامی
پڑھیں:
غزہ میں فلسطینیوں کیخلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، ترکیہ
اپنے ایک جاری بیان میں یورو-میڈیٹیرین ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ غزہ کے اقصادی محاصرے کے خاتمے اور بلا مشروط انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کیلئے عالمی برادری موثر تعاون کرے۔ جان بوجھ کر اس طرح کی غیر انسانی شرائط کو مسلط کرنا، نسل کشی کی واضح ترین مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار انقرہ میں وزارت خارجہ کی عمارت میں اپنے نارویجین ہم منصب "سپین بارت ایدہ" کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے غزہ میں انسانی صورت حال کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں 50 روز سے انسانی امدادکا داخلہ بند ہے۔ یہ صورت حال مزید جاری نہیں رہ سکتی۔ اسی سلسلے میں یورو-میڈیٹیرین ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کی پٹی کی سنگین معاشی اور انسانی صورت حال سے خبردار کیا۔ اس ادارے نے اعلان کیا کہ غزہ کی مالی امداد روک کر اسرائیل نے منظم طریقے سے یہاں کے مکینوں کو تباہ کرنے کی ٹارگٹڈ پالیسی اپنائی ہے۔
غزہ میں نسل کشی کے آغاز سے صیہونی رژیم نے یہاں کسی بھی قسم کی امداد اور رقوم کو داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ یہ مالی محاصرہ غزہ میں شدید اقتصادی بحران پیدا کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ بلیک مارکیٹ سے مہنگی قیمتوں پر اشیائے ضروریہ خریدیں جو کہ اُن کی مالی حالت کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے اس ادارے نے مزید کہا کہ یہ اقتصادی دباؤ صرف غزہ کے اقتصادی ڈھانچے پر ہی حملہ نہیں بلکہ وہاں کی آبادی کو بھوک سے مرنے اور بتدریج تباہ کرنے کی صیہونی پالیسیوں کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس ادارے نے مطالبہ کیا کہ غزہ کے اقصادی محاصرے کے خاتمے اور بلا مشروط انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لئے عالمی برادری موثر تعاون کرے۔ جان بوجھ کر اس طرح کی غیر انسانی شرائط کو مسلط کرنا، نسل کشی کی واضح ترین مثال ہے۔