Daily Ausaf:
2025-04-25@03:15:41 GMT

آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیو ستہ)
ہائی کورٹ تک بات گئی اور ہائی کورٹ نے سزائے موت سنا دی، لیکن پوری مغربی لابیاں، وائس آف جرمنی، وائس آف امریکہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، عاصمہ جہانگیر یہ سارے متحرک ہو گئے کہ یہ زیادتی ہے، اور ٹائٹل آزادی رائے اور انسانی حقوق کا تھا۔ بین الاقوامی میڈیا اور لابی ان کو بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ اس دوران اسی کشمکش میں ان میں سے منظور مسیح قتل بھی ہو گیا، لیکن سلامت مسیح اور رحمت مسیح دو نوجوان لڑکے حراست میں تھے۔ کیس ابھی چل رہا تھا کہ یورپی یونین نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ ان کو پاکستان سے باہر نکالنا ہے۔ صدر فاروق لغاری صاحب کا دور تھا، جرمنی کے وائس چانسلر یہاں آئے۔ بظاہر ایجنڈا اور تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ میں ان لڑکوں کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ رات کے وقت ہائی کورٹ کے جج کو بلایا گیا، ان لڑکوں کی ضمانت منظور کروائی گئی، رات ہی جیل سے رہا کروا کر جرمنی حکومت کے خرچے پر ان کو جرمنی بھجوا دیا گیا اور اس وقت وہ جرمن حکومت کی نگرانی میں زندگی گزار رہے ہیں اور ٹائٹل وہی ہے آزادئ رائے اور انسانی حقوق۔
یہ چار کیس تو میرے سامنے کے ہیں۔ رتا دہتڑ کیس میں تو میں نے خود گوجرانوالہ میں مجلسِ عمل بنائی تھی، میں اس کا سیکرٹری تھا۔ یہ واقعات میں نے اس لیے بتائے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ جب آزادئ رائے کی بات کرتے ہیں تو آزادی رائے میں کون کون سی باتیں شامل ہیں۔ اس پر ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آزادئ رائے تو ٹھیک ہے، ہم بھی اس کے قائل ہیں لیکن اس کی کچھ حدود ہیں۔ آزادی رائے کا یہ مطلب تو نہیں کہ جس آدمی کی جو مرضی میں آئے کسی کے خلاف کہہ دے۔
میں یہ بات عرض کیا کرتا ہوں کہ رائے اور چیز ہے، توہین اور چیز ہے۔ میرا مغرب سے ہمیشہ سوال ہوتا ہے کہ توہین کو رائے میں آپ نے کب سے شامل کر لیا ہے؟ توہین تو مغربی دنیا میں بھی جرم ہے۔ بائبل میں تو باپ کی توہین پر بھی قتل کی سزا ہے۔ کسی کی اہانت، استہزا اور توہین تو دنیا کے ہر قانون میں جرم ہوتی ہے، اسے جرم کی فہرست سے نکال کر آزادئ رائے میں کیسے شامل کر لیا تم نے؟ برمنگھم جو برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے، وہاں سلمان رشدی کے خلاف تحریک کے زمانے میں ایک سیمینار میں گفتگو کر رہا تھا کہ ایک نوجوان کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا مولوی صاحب! آپ یہ شور کیوں مچا رہے ہیں کہ اس کو یہ کرو وہ کرو۔ اگر آپ کے پاس دلیل ہے تو اس کی کتاب کا جواب لکھیں۔ اس نے کتاب لکھی ہے، تم بھی لکھ دو۔ میں نے وہیں اسٹیج پر کھڑے کہا کہ بیٹا! جواب دلیل کا ہوتا ہے، گالی کا جواب نہیں ہوتا۔
میں نے بات سمجھانے کے لیے اس کو مثال دی کہ بیٹا! میرے والد بڑے عالم ہیں، مصنف و محقق ہیں۔ اگر کوئی آدمی میرے پاس آ کر کہے کہ آپ کے والد صاحب نے فلاں کتاب میں یہ بات لکھی ہے، اس کا حوالہ صحیح نہیں دیا، یا حوالے سے استدلال صحیح نہیں کیا، یا فلاں بات انہوں نے دلیل کے خلاف لکھی ہے، تو میں اس کو جواب دوں گا اور میرا حق بنتا ہے کہ میں والد صاحب کا دفاع کروں۔ لیکن اگر خدانخواستہ کوئی آدمی میرے سامنے آ کر میرے والد کو گالی دے گا تو میں اس کو جواب دینے کے لیے لائبریری میں نہیں جاؤں گا، بلکہ الٹے ہاتھ کی اس کے منہ پر ماروں گا کہ بکواس بند کرو۔ دلیل کا جواب دلیل سے ہوتا ہے اور گالی کا جواب دلیل سے نہیں ہوتا۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ مغرب ہمارے ساتھ یہ دھاندلی کر رہا ہے کہ اس نے رائے اور توہین کو گڈمڈ کر دیا ہے، حالانکہ رائے اور چیز ہے، توہین اور چیز ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا۔ دنیا میں ہمارے خلاف یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مسلمان برداشت والے لوگ نہیں ہیں، بڑے جذباتی لوگ ہیں، اختلاف برداشت نہیں کرتے۔ اس پر میں نے لکھا بھی ہے، لیکچر بھی دیے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اختلاف ہم نے ہمیشہ سنا ہے، برداشت کیا ہے، اس کا جواب دیا ہے، مباحثہ و مکالمہ کیا ہے، لیکن توہین نہ کبھی برداشت کی ہے، نہ کرتے ہیں اور نہ کریں گے۔
مستشرقین تین سو سال سے لگے ہوئے ہیں، یورپ کی یونیورسٹیوں میں اسلام پر اعتراض کی باتیں چل رہی ہیں، قرآن پاک کے احکام پر اعتراضات ہوتے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر بہت سے اعتراضات ہوتے ہیں۔ ہم ان کا جواب دیتے آ رہے ہیں۔ اگر آپ یورپ کی یونیورسٹیوں میں لکھے جانے والے وہ مقالات، جن میں اسلام، قرآن اور آپؐ کی ذات گرامی سے اختلاف کیا گیا ہے، شمار کریں گے تو وہ سینکڑوں نہیں ہزاروں میں نکلیں گے۔ ہم نے ان کا جواب دیا ہے۔ دلیل کا جواب ہم دلیل سے دیتے آ رہے ہیں۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ ہم اختلاف برداشت نہیں کرتے۔ ہم نے اختلاف سنا بھی ہے، اس کو برداشت بھی کیا ہے، اس کا جواب بھی دیا ہے۔ لیکن توہین نہ برداشت کی ہے اور نہ کریں گے۔ ہمارے معاشرے میں پچھلے سو ڈیڑھ سو سال میں سے مثال کے طور پر ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں، اس پر کہ جہاں دلیل کی بات ہوئی ہے تو ہم نے دلیل سے جواب دیا ہے اور جب توہین کے لہجے میں بات کی گئی تو ہم نے دلیل سے جواب نہیں دیا، بلکہ جس طرح دینا چاہیے تھا اسی طرح دیا ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے معاصرین میں ایک ہندو پنڈت دیانند سرسوتی بڑے عالم، دانشور اور فلسفی آدمی تھے جو کہ ہندوؤں کے فرقہ آریہ سماج کے بانی تھے۔ جس طرح ہمارے ہاں دیوبندیوں کا بانی مولانا نانوتویؒ کو شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ ہے جو لاہور سے اردو میں چھپی ہے۔ اس کا ایک مستقل باب اسلام پر اعتراضات کا باب ہے۔ قرآن پاک پر، جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی پر اور اسلامی احکام پر تقریباً سو سے زیادہ اعتراضات کیے ہیں۔ عام فہم کامن سینس کے اعتراضات ہیں۔
مثال کے طور پر ایک اعتراض یہ لکھا ہے کہ مسلمان چودہ سو سال سے ابھی تک نماز میں کھڑے ہو کر یہی دعا مانگتے آ رہے ہیں ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ کہ یا اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ابھی تک سیدھا راستہ مانگ ہی رہے ہیں، ان کو ملا نہیں ہے۔ جبکہ ہمیں سیدھا راستہ مل چکا ہے، اس لیے ان کے پیچھے نہ جاؤ بلکہ ہمارے پیچھے آؤ۔
ایک یہ اعتراض کیا کہ مسلمان بلاوجہ ہم ہندوؤں پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم پتھروں کی پوجا کرتے ہیں، بت پرست ہیں، صنم کے گرد طواف کرتے ہیں۔ فرق یہی ہے کہ ہم پتھر کی مورتی بنا لیتے ہیں اور مسلمانوں نے پتھر کا مکان (کعبہ) بنایا ہوا ہے، اس کے گرد گھومتے ہیں، اس کا طواف کرتے ہیں۔ تم بھی پتھر پوجتے ہو، ہم بھی پتھر پوجتے ہیں۔
اس قسم کے سو سے زیادہ اعتراضات و اشکالات اس نے کیے۔ ہم نے نہ اس کے قتل کا فتوٰی دیا، نہ اسے قتل کیا، بلکہ اس سے مناظرے کیے ہیں۔ حضرت نانوتویؒ سے اس کے مناظرے ہوئے ہیں، اور مولانا نانوتویؒ نے اس کی کتاب کے جواب میں رسالے لکھے ہیں۔ ’’قبلہ نما‘‘ اسی قبلہ کے اعتراض پر ہے، اور بھی کئی رسالے ہیں۔ اس کے حضرت نانوتویؒ سے مناظرے اور تحریری مقابلے ہوئے۔
پنڈت دیانند سرسوتی کا جواب دلیل سے دیا گیا ہے۔ دوسرے مکاتب فکر کے علماء نے بھی اس کو جواب دیے۔ اہل حدیث مکتب فکر کے مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے ستیارتھ پرکاش کے جواب میں ’’حق پرکاش‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ اور بریلوی بڑے عالم ہیں مولانا نعیم الدین مراد آبادیؒ، انہوں نے بھی اس کے جواب میں کتاب لکھی ہے۔ چونکہ پنڈت دیانند سرسوتی کی اس کتاب میں دلیل سے بات کی گئی ہے، عقلی اعتراضات ہیں، تو ہم نے کتابوں کی صورت میں اس کا جواب دیا ہے۔
جبکہ اسی لاہور سے ایک کتاب چھپی جس کا نام ’’رنگیلا رسول‘‘ ہے، راج پال نے لکھی تھی۔ اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی ہے، اس کا جواب غازی علم الدین نے دیا تھا اور اسی کو دینا چاہیے تھا۔
(جار ی ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جواب دیا ہے اور چیز ہے اس کا جواب جواب دلیل کرتے ہیں رائے اور دلیل سے رہے ہیں یہ بات ہیں کہ

پڑھیں:

مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، شزہ فاطمہ

وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ اگر خواتین معاشرے کی رکاوٹوں اور باہر درپیش مسائل کا ذکر کریں تو انہیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے، مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔

ان خیالات کا  اظہار انہوں نے یو ایس ایف کے  زیر اہتمام آئی سی ٹی شعبے میں خواتین کے عالمی دن 2025 کے سلسلے میں منعقدہ "گرلز ان آئی سی ٹی فار انکلوسیو ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن" کی  تقریب  سے بطور مہمان خصوصی  خطاب کرتے ہوئے کیا۔

تقریب میں وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام اور یو ایس ایف کے سینئر حکام، رکن قومی اسمبلی  محترمہ شرمیلا فاروقی، موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے سی ای او حارث محمود، جی ایس ایم اے کی کنٹری لیڈ محترمہ سائرہ فیصل، ماہرین تعلیم، ممتاز خواتین آنٹرپرینیورز، ٹیلی کام سیکٹر بشمول جاز، آئی ٹی اور ٹیلی کام انڈسٹری کے نمائندوں نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ نے کہا کہ ایک پاکستانی خاتون کی حیثیت سے انہوں نے ایک نوجوان خاتون کی زندگی میں ٹیکنالوجی کی تبدیلی کا براہ راست مشاہدہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں کے دوران، ٹیکنالوجی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے منصوبے عملی جامہ پہن رہے ہیں جس کے نتیجے میں آج آئی ٹی شعبے میں بہت سی ٹاپ اسٹوڈنٹس خواتین ہیں، اور خواتین کی زیر قیادت ٹیک وینچرز نے عالمی پلیٹ فارمز پر بھی دھوم مچانا شروع کر دی ہے۔

شزہ فاطمہ نے کہا کہ یہ کامیابی ان کے انتھک محنت اور حکومتی معاون پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے، آئیے مل کر ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں ہر لڑکی اپنی صلاحیتوں کو پورا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکے اور جہاں بااختیار بنانا کوئی خواب نہیں بلکہ ڈیجیٹل حقیقت ہو۔

نیشنل براڈ بینڈ اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ نے کہا کہ اپنے قیام سے اب تک یو ایس ایف نے بلاامتیاز ملک کے چاروں صوبوں میں 161 منصوبوں کے ذریعے 4،400 موبائل ٹاورز لگائے ہیں جبکہ 17 ہزار 200کلومیٹر طویل آپٹیکل فائبر کیبل کے ذریعے ایک ہزار سے زائد ٹاؤنز اور یونین کونسلوں کو منسلک کیا گیا ہے۔

اس طرح اب تک مجموعی طورپر دور دراز علاقوں کے 3 کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد کو ڈیجیٹل سروسز فراہم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سے علاقوں میں خواتین اور لڑکیاں پہلی بار ڈیجیٹل دنیا سے منسلک ہوتے ہوئے اپنی تعلیم، معلومات میں اضافے کے ساتھ، کاروبار کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی سہولیات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال وزیر اعظم نے یو ایس یف کو 23 ارب روپے کے فنڈز دیئے ہیں۔

وفاقی وزیر ائی ٹی نے کہا کہ ہماری وزارت ملک کے نوجوانوں خاص طور پر خواتین کو با اختیار بنانے اور ڈیجیٹل سہولیات کی فراہمی کیلئے ہر ممکن تعاون اور اقدامات کررہی ہے۔

شزہ فاطمہ نے کہا کہ وزارت آئی ٹی خواتین کو ہرسطح پر سپورٹ کرتی ہے،برابری کا ماحول پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہیں،  خواتین کے ساتھ ہمارے معاشرے اور مردوں کا رویہ لمحہ فکریہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر خواتین معاشرے کی رکاوٹوں اور باہر درپیش مسائل کا ذکر کریں تو انہیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے، مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، ہماری خواتین میں کوئی کمی نہیں، ملک ترقی اسلئے نہیں کرتا کہ آدھی آبادی کو بہترماحول میسر نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، شزہ فاطمہ
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کیس سنگل بینچ میں کیسے لگ گیا؟ رپورٹ طلب
  • آج عدالتی آرڈر کی توہین ہو رہی ہے کل ہر ادارے کی ہوگی، علیمہ خانم
  • پنکج ترپاٹھی کے مداحوں کیلیے بڑی خوشخبری! انتظار ختم
  • استنبول سمیت مغربی ترکی 6.2 شدت کے زلزلے سے لرز اٹھا
  • آج عدالتی آرڈر کی توہین ہو رہی ہے کل ہر ادارے کی توہین ہوگی، علیمہ خان
  • آج عدالتی آرڈر کی توہین ہو رہی ہے کل ہر ادارے کی توہین ہوگی، علیمہ خان
  • مذہب اور لباس پر تنقید، نصرت بھروچا کا ردعمل
  • خیبرپختونخوا کی سینیٹ نشستوں پر انتخابات کی قرارداد کثرت رائے سے مسترد