خلائی مخلوق نے سوویت فوجیوں کو پتھر میں بدل دیا، سی آئی اے
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
فائل کے مطابق یہ واقعہ سرد جنگ کے دور میں پیش آیا، جب روسی فوجیوں نے ایک مشق کے دوران اڑن طشتری کو دیکھا، ایک سپاہی نے اس پر میزائل فائر کیا، جس سے وہ زمین پر گر گیا، 5 چھوٹے قد کی خلائی مخلوق، جن کے بڑے سر اور سیاہ آنکھیں تھیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ فائل میں ایک حیران کن دعویٰ سامنے آیا ہے کہ خلائی مخلوق نے سوویت فوجیوں کو پتھر میں بدل دیا۔ حالیہ دنوں میں ایک پرانی سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ فائل نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1989ء یا 1990ء کے دوران یوکرین میں تعینات سوویت فوجیوں کا ایک دستہ ایک اڑن طشتری (UFO) سے ٹکرا گیا، جس کے بعد خلائی مخلوق نے مبینہ طور پر 23 فوجیوں کو پتھر میں تبدیل کر دیا۔
فائل کے مطابق یہ واقعہ سرد جنگ کے دور میں پیش آیا، جب روسی فوجیوں نے ایک مشق کے دوران اڑن طشتری کو دیکھا، ایک سپاہی نے اس پر میزائل فائر کیا، جس سے وہ زمین پر گر گیا، 5 چھوٹے قد کی خلائی مخلوق، جن کے بڑے سر اور سیاہ آنکھیں تھیں، ملبے سے باہر نکلیں، انہوں نے آپس میں مل کر ایک کرہ (گیند نما روشنی) کی شکل اختیار کی اور وہ کرہ اچانک ایک تیز روشنی کے ساتھ پھٹ گیا۔ جیسے ہی وہ کرہ پھٹا، وہاں موجود 23 فوجی پتھر جیسے ستونوں میں تبدیل ہو گئے، 2 فوجی بچ گئے کیونکہ وہ سائے میں کھڑے تھے اور روشنی سے کم متاثر ہوئے۔
فائل کے مطابق جس کے بعد پتھر میں تبدیل ہوئے فوجیوں کو اور تباہ شدہ یو ایف او کو ایک خفیہ اڈے پر منتقل کیا گیا۔ سائنسی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ فوجیوں کے خلیات کو چونے کے پتھر جیسے مادے میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اگر یہ سب سچ ہے تو خلائی مخلوق کی ٹیکنالوجی انسانوں کی سوچ سے کہیں آگے ہے۔ یہ فائل 2000ء میں ڈی کلاسیفائی ہوئی اور سب سے پہلے 1993ء میں Canadian Weekly World News اور یوکرینی اخبار Holos Ukrayiny میں رپورٹ کی گئی۔
سی آئی اے کو یہ رپورٹ 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ملی، جو 250 صفحات پر مشتمل رپورٹ تھی۔ یہ واقعہ Joe Rogan Experience جیسی مقبول پوڈکاسٹس پر بھی زیرِ بحث آیا۔ سابق سی آئی اے اہلکار مائیک بیکر نے فوکس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی تھا تو جو کہانی اب ہمارے سامنے ہے وہ شاید اصل رپورٹ سے کافی مختلف ہو، شاید وقت کے ساتھ کہانی میں بہت کچھ بڑھا دیا گیا ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خلائی مخلوق فوجیوں کو میں تبدیل سی آئی اے پتھر میں کے مطابق
پڑھیں:
غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-2
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟