وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے اس موقع پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رائیکوٹ تا خنجراب شاہراہ قراقرم توسیعی منصوبے کے زمینوں کے متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی آئندہ 15 دنوں میں یقینی بنائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے وفاقی وزیر مواصلات عبد العلیم خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رائیکوٹ تا خنجراب شاہراہ قراقرم توسیعی منصوبے کی زمینوں کے متاثرین کو ابھی تک معاوضے نہ ملنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ عرصہ دراز سے متاثرین اپنی زمینوں کے معاوضوں کے حصول کیلئے مختلف دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ لہٰذا شاہراہ قراقرم متاثرین کو زمینوں کے معاوضوں کی ادائیگی کا مسئلہ حل کیا جائے تاکہ جائز حق ان کو مل سکے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جگلوٹ سکردو روڈ دفاعی اور جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس اہم شاہراہ کے مختلف مقامات پر پتھروں کے گرنے کی وجہ سے کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اہے۔ مستقبل میں مزید حادثات سے بچاؤ اور ٹریفک کی روانی کیلئے اہم مقامات پر حفاظتی اقدامات کے تحت اوپن ٹنلز تعمیر کئے جائیں۔ محدود وسائل کی وجہ سے پہلے مرحلے میں انتہائی خطرناک مقامات کو محفوظ بنایا جائے، جس کی تائید کرتے ہوئے وفاقی وزیر عبد العلیم خان نے پہلے مرحلے میں 4 مقامات کو محفوظ بنانے کے احکامات دیئے۔ گلگت بلتستان میں سیاحت کا سیزن شروع ہوا ہے جس کی وجہ سے سیاحوں کی بڑی تعداد اس شاہراہ سے گز رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ شاہراہ قراقرم پر ٹریفک حادثات میں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے بھی بہت سے قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے ریسکیو 1122 کا دائرہ کار شاہراہ قراقرم کے مختلف مقامات تک بڑھانے کیلئے 3 ارب 14 کروڑ کا ایک PC-1 وفاقی حکومت کو منظوری کی سفارش کی ہے تاکہ شاہراہ قراقرم کے مختلف مقامات پر ریسکیو 1122 سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جاسکے، کسی بھی ٹریفک حادثے میں زخمیوں کو بروقت طبی امداد کی فراہمی کیلئے یہ منصوبہ انتہائی اہم ہے۔ وفاقی سطح پر جلد اس منصوبے کی منظوری میں آپ سے گزارش ہے کہ اپنا کردار ادا کریں۔ وزیر اعلیٰ نے گلگت بلتستان شندور ایکسپریس وے پر جاری کام کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے زمینوں کے معاوضوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی سفارش کی۔ جس پر وفاقی وزیر مواصلات عبد العلیم خان نے یقین دہانی کرائی کہ گلگت چترال ایکسپریس وے کے زمینوں کے معاوضوں کی ادائیگی کے عمل کو تیز کیا جائے گا۔

وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے اس موقع پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رائیکوٹ تا خنجراب شاہراہ قراقرم توسیعی منصوبے کے زمینوں کے متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی آئندہ 15 دنوں میں یقینی بنائیں گے۔ تمام متاثرین کے زمینوں کے معاوضوں کی رقم متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو 15 دنوں میں منتقل کئے جائیں گے۔ جگلوٹ سکردو روڈ کے 9 مقامات کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ اس اہم شاہراہ کو محفوظ بنانے کیلئے 13 ارب روپے لاگت کے منصوبے کی فزیبلٹی تیار کی گئی ہے۔ ان حساس مقامات پر پہاڑوں سے پتھر گرنے سے ہونے والے نقصان کی روک تھام کیلئے اوپن ٹنلز تعمیر کئے جائیں گے۔ جگلوٹ سکردو روڈ کو مسافروں کیلئے محفوظ بنانے کے حوالے سے بہت جلد کام شروع کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں انتہائی خطرناک 4 مقامات کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے تا کہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر مواصلات نے چیئرمین این ایچ اے اور سیکریٹری مواصلات کو اپریل کے آخر تک گلگت بلتستان کا دورہ کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی میں خصوصی تعاون پر وفاقی وزیر مواصلات عبد العلیم خان کا شکریہ ادا کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: وفاقی وزیر مواصلات عبد زمینوں کے معاوضوں کی معاوضوں کی ادائیگی عبد العلیم خان شاہراہ قراقرم العلیم خان نے گلگت بلتستان کے زمینوں کے محفوظ بنانے متاثرین کو مقامات کو مقامات پر کرتے ہوئے وزیر اعلی کی وجہ سے کو محفوظ بنانے کی کہا کہ

پڑھیں:

اسلام آباد: سرسبز خواب کی بکھرتی تعبیر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) قدرتی حسن سے مالا مال اس پارک میں 48 غیر قانونی ہوٹل اور دکانیں قائم ہو چکی ہیں۔ جو روزانہ 576 کلوگرام سے زائد ٹھوس کچرا پیدا کر رہی ہیں اور ان میں سے 27 جگہوں پر نکاسی اب کا بھی کوئی نظام موجود نہیں یعنی یہ گندہ پانی اور فضلہ نا صرف قدرتی ماحول کو متاثر کر رہا ہے بلکہ راول جھیل کو بھی آلودہ کر رہا ہے۔

کبھی سر سبز کہلانے والا شہر اقتدار آج تیزی سے بلند عمارتوں، کمرشل پلازوں اور غیر قانونی ہاوسنگ سوسائٹیز میں بدل رہا ہے۔ 1960 کی دہائی میں پاکستان کا واحد شہر جسے منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا اور یہ شہر تقریبا 5 لاکھ کی آبادی کے لیے بنایا گیا تھا لیکن 2023 کی مردم شماری کے مطابق اسلام آباد کی شہری آبادی 23 لاکھ ہو چکی ہے اور اگر سلسلہ یونہی جاری رہا تو سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2050 تک یہ آبادی 44 لاکھ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔

(جاری ہے)

سوال یہ ہے کہ کیا اس بڑھتی آبادی کو سہارا دینے کے لیے انفراسٹرکچر، منصوبہ بندی اور ماحولیاتی تحفظ کہیں دکھائی دے رہا ہے؟

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک کے اکثر شہروں کی طرح "اسلام آباد دی بیوٹی فل" بھی بوسیدہ عوامی انفراسٹرکچر، غیر قانونی اور بے ترتیب تعمیرات اور بڑھتی ہوئی کچی آبادیوں جیسے مسائل کا شکار ہو کر اپنے قدرتی مناظر سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

یہ پاکستان کا وہ شہر تھا جس کی پہچان اس کا سبزہ ، ہریالی اور قدرتی مناظر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں اربن پلاننگ کا فقدان اس وقت واضح نظر آیا جب 2008 کے بعد شہر میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعداد میں 200 فیصد تک اضافہ ہوا۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق اس وقت شہر میں 140 سے زائد غیر قانونی ہاوسنگ اسکیمز موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر زرعی یا جنگلاتی زمین پر بنائی گئ ہیں اور گمان ہے کہ کسی کے پاس بھی اینوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی جانب سے اپرول بھی موجود نہیں ہو گا۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک تحقیق کے مطابق 2010 سے 2023 کے دروان شہر کا قدرتی سبزہ کافی تیزی سے ختم ہو چکا ہے۔ وہ شہر اقتدار جس کا درجہ حرارت گرمیوں میں بھی کبھی 30 سے بلند نہیں ہوتا تھا اب شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ شدید موسمیاتی تبدیلیوں نے اسلام آباد شہر کو بھی مٹی کے جھکڑوں، بڑے بڑے اولوں اور طوفانی بارشوں کی نظر کر دیا ہے۔ یہ شہر کبھی مٹی اور گرد سے پاک تصور کیا جاتا تھا۔

سہولیات کے حوالے سے دیکھا جائے تو تناسب قدرے بہتر نظر آتا ہے۔شہر اقتدار میں 97 فیصد گھروں میں بجلی موجود ہے جبکہ شرح خواندگی 87 فیصد ہے لیکن شہر شدید گرمی، بدترین فضائی آلودگی اور پانی کے بڑھتے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ دسمبر 2024 اسلام آباد کی تاریخ میں الودہ ترین مہینہ رہا۔ جب پی ایم 5۔2 کی سطح 250 تک پہنچ گئی جو انتہائی آلودہ یا غیر صحت بخش تصور کی جاتی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق 2015 سے 2024 کے دوران اسلام آباد کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ مونال ریسٹورنٹ جو مارگلہ نیشنل پارک میں قائم کیا گیا تھا سپریم کورٹ کے حکم پر اسے بند تو کر دیا گیا لیکن ایسے بہے سے اور ریسٹورنٹ آج بھی ان پہاڑوں کے قدرتی حسن کو دھوئیں اور پلاسٹک آلودگی سے شدید متاثر کر رہے ہیں۔ 1989 سے 2019 کے دوران اسلام آباد کے جنگلاتی علاقوں میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

اسلام آباد کی بدلتی ہوئی شکاری پتھروں، عمارتوں اور سڑکوں کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ اس اجتماعی بےحسی کی عکاس ہے جو ہم نے فطرت اور سماجی انصاف کے ساتھ روا رکھی ہوئی ہے۔ یہ شہر جسے کبھی پرسکون پہاڑوں سبز میدانوں اور شفاف فضاوں کی علامت سمجھا جاتا تھا آج شور، دھوئیں اور بے ربط تعمیرات کے درمیان اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ مارگلہ کی خاموشی اب احتجاج کی صورت اختیار کر چکی ہے مگر یہ نوحہ کون سنے۔

یہ محض زمین کے رنگ بدلنے اور سبزے سے سیمنٹ میں بدلنے کا معاملہ نہیں بلکہ اس تہذیب کا زوال ہے جس نے قدرت کے ساتھ ہم آہنگی کو ترقی پر فوقیت دی۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر وہ سکون اب ناپید ہے جہاں صرف پرندوں کی کی چہکار اور پیٹروں کی چھاوں تھی اب صرف گاڑیوں کا شور اور دھواں ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پانی کے چیلنجز کم کرنے کیلئے فعال منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار
  • گلگت بلتستان، اساتذہ کی ڈگریوں کی تصدیق کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی گئی
  • عید کی چھٹیوں میں موسم کیسا رہے گا؟ محکمہ موسمیات نے خبر دار کر دیا
  • وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی امت مسلمہ اور قوم کو عید الاضحیٰ کی مبارکباد
  • عید کی چھٹیوں میں کن مقامات پر سیروتفریح کے لیے جایا جا سکتا ہے؟
  • اسلام آباد، ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی علامہ سید زاہد حسین کاظمی سے ملاقات، بھائی کی وفات پر اظہار افسوس 
  • اسلام آباد میں جانوروں کے سری، پائے جلانے پر 7 دن کیلئے پابندی
  • چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت سیف سٹی ہیڈکوارٹرز میں اعلی سطح کے اجلاس،صفائی سمیت دیگر انتظامات کا جائزہ
  • فہد ہارون کی وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے ملاقات، ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے علاقائی ترقی پر زور
  • اسلام آباد: سرسبز خواب کی بکھرتی تعبیر