امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں 3 ماہ کے دوران 14 پوائنٹس کی نمایاں کمی۔ مہنگائی، بھاری ٹیرف اور معاشی بے چینی نے عوامی اعتماد کمزور کردیا، سوئنگ ریاستیں بھی مخالف سمت جھکنے لگیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں گزشتہ 3 ماہ کے دوران تاریخی کمی ریکارڈ کی گئی۔ بین الاقوامی جریدے ’اکنامسٹ‘ کے مطابق ٹرمپ کی عوامی مقبولیت میں 14 پوائنٹس کی کمی آئی، جو ان کے سیاسی کیریئر میں اب تک کی سب سے بڑی گراوٹ تصور کی جا رہی ہے۔

نومبر 2024 کے صدارتی انتخابات میں معمولی برتری حاصل کرنے والے ٹرمپ اس وقت سخت عوامی تنقید کا سامنا کر رہے ہیں، بالخصوص ان کی معاشی پالیسیوں پر۔ تازہ ترین YouGov سروے کے مطابق امریکی معیشت کے حوالے سے ٹرمپ کی کارکردگی پر عوامی درجہ بندی منفی 7 فیصد تک گر چکی ہے، جبکہ ان کے اپنے 20 فیصد ووٹرز بھی مہنگائی سے سخت نالاں ہیں۔

مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ کی ایرانی جوہری مقامات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی کی مخالفت

ماہرین کے مطابق، وفاقی ملازمتوں میں کٹوتی، کسانوں کے لیے مالی امداد میں کمی اور بھاری تجارتی ٹیرف نے معیشت میں غیر یقینی صورتحال پیدا کی، جس کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ میں 19 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ہسپانوی نژاد اور نوجوان ووٹرز میں ٹرمپ کی مقبولیت شدید گراوٹ کا شکار ہے، ہسپانوی ووٹرز میں مقبولیت منفی 37 اور نوجوانوں میں منفی 25 فیصد تک جا پہنچی ہے۔

اسی دوران امریکا کی 6 سوئنگ ریاستوں میں بھی رائے عامہ ٹرمپ کے خلاف جھک رہی ہے، جو ریپبلکن پارٹی کے لیے 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں تشویش ناک علامت سمجھی جا رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگرچہ یہ کمی ریپبلکنز کے لیے خطرہ ہے لیکن امریکی جمہوریت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے کہ ووٹرز ناقص پالیسیوں پر سیاستدانوں کا احتساب کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ٹرمپ کی مقبولیت مقبولیت میں کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-4

 

معوذ اسد صدیقی

ممکن ہے ممدانی منافقت کر رہے ہوں، یا جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں اس پر خود پورا یقین نہ رکھتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی سوچ کو عملی جامہ پہنانا ان کے بس کی بات نہ ہو۔ ممکن ہے کہ شور دریا میں ہو اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نیویارک کے ناکام ترین میئر ثابت ہوں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج وہ مقبولیت کا دوسرا نام بن چکے ہیں۔ بلکہ دنیا کے مقبول سیاستدانوں میں ان کا شمار ہونے لگا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں کئی روز تک اس مقبولیت کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہا۔ 31 سالہ رکن اسمبلی ممدانی کو مختلف مواقع پر خطاب کرتے دیکھا، تو ہمیشہ ایک سنجیدہ، باشعور اور باوقار انداز نمایاں نظر آیا۔ خاص طور پر جب بھی فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے، ظہران ممدانی نے اپنی سیاسی حیثیت کی پروا کیے بغیر کھل کر اسرائیل کے جرائم کے خلاف آواز بلند کی۔ اْس وقت بہت کم لوگوں نے ان کے اس جرأت مندانہ مؤقف پر توجہ دی۔

مجھے بخوبی یاد ہے کہ ایک موقع پر ان کے حلقے کی ایک مسجد میں ہمیں اسکول بیگ تقسیم کرنے تھے۔ میں نے اس سلسلے میں ممدانی کے دفتر سے رابطہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ وہ بھی اس مہم میں شریک ہوں۔ وہ فوراً رضامند ہوگئے۔ لیکن جب میں نے مسجد کی انتظامیہ کو بتایا کہ میں ظہران ممدانی کو مدعو کر رہا ہوں، تو ابتدا میں اْنہوں نے کچھ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ ممدانی کے چند خیالات مین اسٹریم مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ میں نے وضاحت کی کہ میں اْن سے بات کر چکا ہوں۔ میں انہیں ذاتی طور پر دعوت دے چکا ہوں، اور دوسرا یہ کہ فلسطین کے مسئلے پر اْن کا مؤقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔

آخرکار، مسجد کی انتظامیہ نے وسعت ِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اْن کا خیرمقدم کیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اْس وقت بہت کم لوگ اْنہیں پہچانتے تھے، حالانکہ وہ اسی علاقے کے منتخب نمائندہ تھے۔ ہم دونوں نے مل کر اسکول بیگ تقسیم کیے، اور اْس لمحے کوئی خاص ہجوم یا میڈیا کی توجہ نہیں تھی۔ ان سے میری ملاقات مسجدوں، مسلم کمیونٹی کے اجتماعات کے علاوہ کہیں نہیں ہوئی اس لیے سوچتا رہا کہ ان کی مقبولیت کی بنیاد صرف مسلمان ہونا، سوشلسٹ ہونا، پرکشش شخصیت یا خوبصورت مسکراہٹ نہیں ہے۔ مگر گزشتہ روز کے جلسے نے میری تمام سابقہ تشریحات بدل دیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ میرے گھر سے صرف دو میل دور جس اسٹیڈیم میں خطاب کرنے جا رہے تھے وہ بہت بڑا نہ ہوگا؛ کیونکہ میں بھی کبھی وہاں نہیں گیا تھا۔ مگر جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ درحقیقت تیرہ ہزار افراد گنجائش رکھنے والا اسٹیڈیم تھا۔ دیکھا کہ لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں آرہے ہیں ہزاروں لوگ داخل ہونے سے قاصر رہ گئے۔ جلسے میں جانے سے قبل میرا خیال تھا کہ وہاں شرکاء کی اکثریت بنگلا دیشیوں پر مشتمل ہوگی، اس کے بعد پاکستانی، پھر گورے، ہسپانوی اور دیگر قومیتوں کے افراد ہوں گے۔ یہ اندازہ اس لیے تھا کہ اس انتخابی مہم میں بنگلا دیشی کمیونٹی نے غیر معمولی طور پر سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو منظر بالکل مختلف تھا۔ توقعات کے برعکس، سامعین میں نسل، رنگ اور قومیت کا ایسا حسین امتزاج تھا جو نیویارک کے بدلتے سیاسی مزاج کا آئینہ دار تھا۔ جلسے میں خطاب کے لیے گورنر ہوگو اور اسپیکر کارل یسٹی کی طرح کی روایتی سیاسی شخصیات بھی تھیں، مگر جب انہوں نے خطاب کیا تو سامعین نے ان کا خیرمقدم نہیں کیا؛ ان کے نعروں سے بڑھ کر ایک ہی صدا بلند ہوئی: ’’امیروں پر ٹیکس لاؤ‘‘۔

یہ منظر واضح کر گیا کہ ممدانی کی مقبولیت خود ممدانی کی نہیں؛ بلکہ اس نظام کے خلاف ایک اجتماعی نفرت، ایک ناخوشگوار بے چینی ہے۔ ہم جیسے بہت سے مہاجرین اور وہ لوگ جو ماضی میں نسبتاً کم توقعات کے ساتھ یہاں آئے تھے، معمولی بہتری پر خوش ہوجاتے ہیں؛ مگر جن نوجوانوں نے یہاں جنم لیا، جنہوں نے خواب دیکھے، ان کی زندگی مشکلات میں پھنستی جا رہی ہے۔ مہنگائی، روزگار کے مسائل، بے بسی، درمیانی طبقے کا خاتمہ اور امیروں کا مزید امیر بننا یہ وہ کیفیات ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو ناراض کیا ہے۔ یہ غم و غصہ اور بے چینی زبانی شکل میں ظہران ممدانی کے نعروں کے ذریعے نمودار ہوئی۔ وہ تبدیلی کا نعرہ دے رہے ہیں۔ ایسا نعرہ جو نسل، مذہب اور رنگ سے بالاتر ہو کر لوگوں کو متحد کر رہا ہے۔ نوجوان ڈیموکریٹک سوشلسٹ کے ورکرز کے ساتھ کھڑے ہیں اور روایتی سیاست دان پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض روایتی پارٹی لیڈرز مجبور ہو کر ممدانی کی حمایت کرنے پر راغب ہوئے یا انہیں انڈورس نہ کرنے کی صورت میں ممکنہ مقابلے کا خدشہ لاحق ہوا۔

یہ معاملہ مسلمانوں یا سوشلسٹس کا نہیں؛ معاملہ تبدیلی کا ہے۔ اس تبدیلی کا جو امتیازی، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ ایسا رجحان ہم نے دنیا کے مختلف حصوں میں بھی دیکھا ہے۔ نوجوان نسل کی بغاوت، مطالباتِ انصاف اور نظام سے ناپسندیدگی۔ شاید یہ وہی جذبہ ہے جس نے کہیں یا دیگر مقبول تحریکوں کو جنم دیا، نعرہ دیا گیا اور لوگوں نے اس نعرے کے پیچھے کھڑا ہونا شروع کر دیا۔ یقینا اس راستے میں مشکلات اور غیر یقینی کا پہلو موجود ہے۔ انتخابات میں کامیابی بسا اوقات ایک آزمائش بنتی ہے اور ناکامی بھی سامنے آ سکتی ہے۔ آنے والا وقت سخت بھی ہو سکتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ مگر فی الحال حقیقت یہی ہے کہ لوگ نظام سے نالاں ہیں اور ممدانی نے اْن جذبات کو زبان دی ہے۔ یہ جنگ مذہب یا نظریے کی نہیں؛ یہ ایک سماجی و اقتصادی تبدیلی کی جنگ ہے اور اس میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔

معوذ اسد صدیقی

متعلقہ مضامین

  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے مالی سال 2026ء کیلئے تارکین وطن کو ویزا دینے کی حد مقرر کر دی
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • وزارت خزانہ کے اہم معاشی اہداف، معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا امکان
  • ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار
  • ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی کروا کر لاکھوں جانیں بچائیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • مہنگائی میں کمی اور شرح سود میں تاریخی کمی سے معیشت میں بہتری، عالمی اعتماد بحال، شزا فاطمہ
  • ایران کا امریکا پر جوہری دوغلا پن کا الزام، ٹرمپ کے جوہری تجربات کے اعلان کی مذمت