ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں تاریخی کمی، معاشی پالیسیاں عوامی غصے کی زد میں
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں 3 ماہ کے دوران 14 پوائنٹس کی نمایاں کمی۔ مہنگائی، بھاری ٹیرف اور معاشی بے چینی نے عوامی اعتماد کمزور کردیا، سوئنگ ریاستیں بھی مخالف سمت جھکنے لگیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں گزشتہ 3 ماہ کے دوران تاریخی کمی ریکارڈ کی گئی۔ بین الاقوامی جریدے ’اکنامسٹ‘ کے مطابق ٹرمپ کی عوامی مقبولیت میں 14 پوائنٹس کی کمی آئی، جو ان کے سیاسی کیریئر میں اب تک کی سب سے بڑی گراوٹ تصور کی جا رہی ہے۔
نومبر 2024 کے صدارتی انتخابات میں معمولی برتری حاصل کرنے والے ٹرمپ اس وقت سخت عوامی تنقید کا سامنا کر رہے ہیں، بالخصوص ان کی معاشی پالیسیوں پر۔ تازہ ترین YouGov سروے کے مطابق امریکی معیشت کے حوالے سے ٹرمپ کی کارکردگی پر عوامی درجہ بندی منفی 7 فیصد تک گر چکی ہے، جبکہ ان کے اپنے 20 فیصد ووٹرز بھی مہنگائی سے سخت نالاں ہیں۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ کی ایرانی جوہری مقامات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی کی مخالفت
ماہرین کے مطابق، وفاقی ملازمتوں میں کٹوتی، کسانوں کے لیے مالی امداد میں کمی اور بھاری تجارتی ٹیرف نے معیشت میں غیر یقینی صورتحال پیدا کی، جس کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ میں 19 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ہسپانوی نژاد اور نوجوان ووٹرز میں ٹرمپ کی مقبولیت شدید گراوٹ کا شکار ہے، ہسپانوی ووٹرز میں مقبولیت منفی 37 اور نوجوانوں میں منفی 25 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
اسی دوران امریکا کی 6 سوئنگ ریاستوں میں بھی رائے عامہ ٹرمپ کے خلاف جھک رہی ہے، جو ریپبلکن پارٹی کے لیے 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں تشویش ناک علامت سمجھی جا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگرچہ یہ کمی ریپبلکنز کے لیے خطرہ ہے لیکن امریکی جمہوریت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے کہ ووٹرز ناقص پالیسیوں پر سیاستدانوں کا احتساب کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹرمپ کی مقبولیت مقبولیت میں کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کا باراک اوباما پر غداری کا الزام، سابق صدر نے ردعمل میں کیا کہا؟
سابق امریکی صدر باراک اوباما نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2016 کے صدارتی انتخابات سے متعلق غداری اور دھاندلی کے الزامات پر سخت ردعمل دیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق بارک اوباما کے دفتر کے ترجمان پیٹرک روڈن بش نے ایک بیان میں کہا کہ صدر کے منصب کا احترام کرتے ہوئے ہمارا دفتر عام طور پر وائٹ ہاؤس سے آنے والی مسلسل بے بنیاد باتوں اور غلط معلومات پر کوئی ردعمل نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ کی اصلاحات، امریکی محکمہ صحت سے ہزاروں ملازمین کو برطرف کردیا گیا
انہوں نے مزید کہا کہ یہ الزامات اتنے بے بنیاد اور حیران کن ہیں کہ ان پر جواب دینا ضروری ہو گیا ہے۔ یہ عجیب و غریب دعوے مضحکہ خیز ہیں اور توجہ ہٹانے کی کمزور کوشش ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز جنسی جرائم میں ملوث متوفی جیفری ایپسٹین سے متعلق سوالات کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے سابق صدر اوباما پر تبصرہ کیا اور انہیں غداری کا مرتکب قرار دیا۔
صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اوباما اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے 2016 کے انتخابات چوری کیے۔
یہ بھی پڑھیے: یوکرین جنگ پر معاہدہ نہ ہوا تو روس پر سخت ٹیرف نافذ کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جو کچھ انہوں نے 2016 اور 2020 میں کیا وہ انتہائی مجرمانہ تھا۔ یہ اعلیٰ ترین سطح پر مجرمانہ عمل تھا۔ یہ غداری تھی۔ جو بھی لفظ آپ سوچ سکتے ہیں، وہ سب اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ انہوں نے انتخابات چرانے کی کوشش کی۔ انہوں نے انتخابات کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔
یہ تنازعہ اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب گزشتہ ہفتے قومی انٹیلیجنس ڈائریکٹر ٹلسی گیبارڈ اور سی آئی اے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے دعویٰ کیا کہ اوباما انتظامیہ نے 2016 کے انتخابات جیتنے کے لیے انٹیلیجنس میں چھیڑ چھاڑ کی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر بارک اوباما ڈونلڈ ٹرمپ