حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے خط میں کہا گیا ہے کہ ایسے رہنما کو خوش آمدید کہنا جس پر ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہریوں کے قتل، بھوک اور جبری ہجرت کے الزامات ہیں، ہنگری کو عالمی انصاف کی تحریک سے دور اور اپنی تاریخی اقدار سے منحرف کر سکتا ہے، ہنگری حکومت نہ صرف اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے بلکہ فلسطینی عوام اور دنیا بھر میں غزہ میں نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے معافی بھی مانگے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے ہنگری کے پاکستان میں سفیر بیلا فازیکاس کو خط لکھا ہے جس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو مدعو کرنے اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) سے ہنگری کی علیحدگی پر احتجاج اور گہری مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت ہنگری کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا خیرمقدم کرنے کا فیصلہ انتہائی افسوسناک ہے، کیونکہ نیتن یاہو پر آئی سی سی میں سنگین الزامات عائد ہیں، جن میں جنگی جرائم، بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا، انسانیت کے خلاف جرائم، قتل، ظلم اور غیر انسانی سلوک شامل ہیں۔ یہ الزامات عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والے ہیں۔

امیر جماعت نے ہنگری کے روم اسٹیچیو (Rome Statute) سے علیحدگی اور ICC سے لاتعلقی کے فیصلے کو بھی افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب عالمی سطح پر انصاف اور احتساب کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے اور ایسے اقدامات نہ صرف بین الاقوامی اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ غزہ جیسے تنازعات میں عام شہریوں کے تحفظ کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ ہنگری خود تاریخ میں ناانصافیوں کا شکار رہا ہے، جیسا کہ ٹریٹی آف ٹریانون کے بعد سرزمین، شناخت اور وقار کے نقصان کی صورت میں ہوا۔ ڈینیوب دریا کے کنارے برونز جوتوں کی یادگار اور میوزیم آف ٹیرر جیسے مقامات ظلم اور قبضے کے خلاف ہنگری کی جدوجہد کی علامت ہیں، جو آج فلسطین جیسے مظلوم اقوام کے ساتھ ہمدردی کا تقاضا کرتے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ایسے رہنما کو خوش آمدید کہنا جس پر ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہریوں کے قتل، بھوک اور جبری ہجرت کے الزامات ہیں، ہنگری کو عالمی انصاف کی تحریک سے دور اور اپنی تاریخی اقدار سے منحرف کر سکتا ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا کہ ہنگری حکومت نہ صرف اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے بلکہ فلسطینی عوام اور دنیا بھر میں غزہ میں نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے معافی بھی مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام اور بہت سے ہنگری کے شہری اس فیصلے سے دلی طور پر رنجیدہ ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہنگری ایک بار پھر انصاف، آزادی اور انسانیت کے اصولوں پر کھڑا ہوگا اور تاریخ کے درست رخ پر اپنا نام رقم کرے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نیتن یاہو ہنگری کے کے خلاف گیا ہے

پڑھیں:

ٹرمپ کی اطلاع کے بغیر ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات

اسلام ٹائمز: ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کیلئے جو اقدام ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے امکان کے بارے میں متعدد اطلاعات سامنے آئی ہیں اور ساتھ ہی کئی اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے یہ خبریں بھی دی ہیں کہ امریکا نے ان تنصیبات پر حملے کے منصوبے پر اسرائیل کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اسں نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے، جس سے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں خلل پڑے۔

کیا اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا؟
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا واقعہ حملے کی سطح پر منحصر ہے۔ اسرائیل کی طرف سے امریکہ کے تعاون اور یہاں تک کہ اس کی عوامی یا نجی شرکت کے بغیر بڑے اور وسیع پیمانے پر حملے کا امکان بہت کم ہے۔ تاہم، اسرائیل کی طرف سے "محدود حملے" کے دو امکانات ہیں۔ پہلا، امریکہ کو بتائے یا ہم آہنگی کے بغیر اور دوسرا، دونوں فریقوں کے علم اور ہم آہنگی کے ساتھ۔ ٹرمپ نیتن یاہو کے تعلقات کے نتائج پر غور کرتے ہوئے پہلا منظر نامہ اس وقت پیش آسکتا ہے، جب نیتن یاہو کو مکمل یقین ہو جائے کہ ایران اور امریکہ ایک ایسے معاہدے پر پہنچ جائیں گے، جو اسرائیل کے نقطہ نظر سے "ناگوار" ہوگا تو وہ اس صورت حال میں خلل ڈالنے اور دوسرے طریقوں سے مایوس ہونے کے بعد حملہ کرسکتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ’’عارضی اور جزوی‘‘ معاہدے تک پہنچنے کے بعد بھی اس طرح کے حملے کا امکان موجود ہے۔

بلاشبہ، نیتن یاہو ایسا شخص نہیں ہے، جو بغیر حساب کتاب اور صرف غیر ضروری خطرات مول لے کر حملے کا رسک لے گا۔ ٹرمپ کے رویئے اور انتقام کے بارے میں اس کی تشویش کو دیکھتے ہوئے وہ کسی بھی غیر اعلانیہ حملے کا فیصلہ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کا نتیجہ اسے غزہ کے تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ غزہ کی جنگ سے نیتن یاہو کا سارا سیاسی مستقبل وابستہ ہے اور اس کا اقتدار اس جنگ سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان ایران کے ساتھ تصادم کی نوعیت اور دیگر مسائل کے بارے میں اختلاف رائے اور "معمولی تناؤ موجود ہے، جس کے بارے میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ آرائی ہے، کیونکہ اس طرح کے تناؤ کا ابھی تک کوئی قابل ذکر عملی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔"

لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں غزہ کی صورتحال کے تناظر میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان ایک طرح سے سمجھوتہ اور سودے بازی کی صورت حال موجود ہے۔ ہعنی اسرائیل، ٹرمپ کی درخواست کی تعمیل کے بدلے میں ایران کے ساتھ مذاکرات میں خلل ڈالنے کے لیے کوئی اقدام نہ کرے گا اور ٹرمپ غزہ کی جنگ کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام انجام نہ دے۔ اس کی ایک ٹھوس مثال وتکاف کی طرف سے جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے منصوبے میں دیکھی جا سکتی ہے، جو اسرائیل کے مطالبات کو مکمل طور پر پورا کرتا ہے اور یہی چیز نیتن یاہو کو فوری طور پر اس معاہدے کے خلاف کچھ اقدام سے روکے ہوئے ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بالآخر کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ چاہے ایران کے ساتھ ہو یا دوسرے علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ۔ امریکہ اسرائیل کے "بڑے مفادات" کو مدنظر رکھے بغیر کوئی مستقل اقدام نہیں کرے گا۔ البتہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وٹکوف نے بظاہر ٹرمپ کی مذاکراتی پالیسی سے متاثر ہو کر ایرانی فریق کے ساتھ مذاکرات میں ایسا مبہم اور متضاد رویہ اپنایا ہے۔ غزہ پر نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان کچھ دو اور کچھ لو کا عمل اس بات کا باعث بنے گا کہ اسرائیل امریکہ کے علم میں لائے بغیر ایران کی جوہری تنصیبات پر کسی قسم کا محدود حملہ بھی نہیں کرے گا۔ مجموعی طور پر، ایران کے خلاف کسی بڑے حملے کا فیصلہ امریکی گرین لائٹ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

اس طرح کے مفروضے کو درست مانتے ہوئے، ممکنہ محدود حملے کو مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک قسم کا دباؤ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایران پر مشترکہ حملے کے لیے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان ہم آہنگی کے خاتمے کے بارے میں کچھ رپورٹس اور تبصرے سامنے آئے ہیں۔ ایک محدود اسرائیلی حملے پر تہران کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے اور خطے میں امریکی مفادات کو کسی ممکنہ فوجی تنازع سے دور رکھنے کے لیے جو اقدام  ضروری ہے، ٹرمپ اس میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مختلف منظرنامہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی ایران مخالف دھمکیوں کو مذاکرات میں اپنی بات منوانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دنوں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہوتا کون ہے، جو ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ افزودگی ہونی چاہیئے یا نہیں۔ رہبر انقلاب کے اس موقف نے ٹرمپ کو ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ اب کس انداز سے نیتن یاہو کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرتی ہے یا نیتن یاہو ٹرمپ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مفادات کی اس جنگ میں ضامن کوئی نہیں۔ یہ دنگل کون جیتے گا، اس کے لئے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم سیاسی بحران کا خاتمہ اولین ترجیح بنائیں: لیاقت بلوچ
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف سیاسی بحران کا خاتمہ اولین ترجیح بنائیں: لیاقت بلوچ
  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • مودی سرکار منی پور میں امن برقرار رکھنے میں ناکام، پرتشدد احتجاج کے بعد انٹرنیٹ بند، کرفیو نافذ
  • سندھ حکومت کا بڑا فیصلہ: 4 سیٹر رکشوں پر پابندی
  • نیتن یاہو ہر مسئلے میں جھوٹ بولتا ہے، اسرائیلی صحافی کا اعلان
  • نیتن یاہو ہر مسئلے میں جھوٹ بولتا ہے، اسرائیلی صحافی
  • نیتن یاہو کا اعتراف: حماس کو کمزور کرنے کے لیے غزہ میں مسلح گروہوں کو فعال کیا
  • معیشت کی بہتری، مہنگائی پرقابو پانے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی
  • ٹرمپ کی اطلاع کے بغیر ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات