احمق حکمران سے درپیش مصیبتیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کیتھرین ریمپل نے گذشتہ ہفتے واشگنٹن پوسٹ میں ایک مقالہ شائع کیا جس میں یہ سوال پیش کیا گیا تھا کہ کون ٹرمپ کو یہ سمجھا سکتا ہے کہ وہ درست عمل نہیں کر رہا اور بہت ہی سطحی انداز میں مسائل کو دیکھتا ہے؟ جب سے ٹرمپ نے کئی محاذوں پر تجارتی جنگ کا آغاز کیا ہے اس وقت سے دوسری عالمی جنگ کے بعد منڈی اور عالمی تجارت کو شدید ترین نقصان پہنچا ہے۔ ٹرمپ کے قریبی ترین مشیر اور اتحادی بھی اس کے ان اقدامات کی حمایت نہیں کر رہے اور اسے اس کام سے روک بھی نہیں رہے۔ یوں عالمی سطح پر ایک حد تک انارکی اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ زندگی کا مزہ کم ہو گیا ہے اور گویا ایک احمق برسراقتدار آ چکا ہے۔ ایسا شخص جو شور شرابہ مچاتا ہے، غصہ دکھاتا ہے لیکن اس کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔ یہ احمق اس وقت امریکہ کا حکمران ہے اور اس کے نالائق ساتھیوں نے حکومت سنبھال رکھی ہے۔ تحریر: والٹر کالمینز (پروفیسر سیاسیات بوسٹن یونیورسٹی)
جدید سیاسی مفکرین میں سے ایک تھامس ہابز ہے جس نے مشہور کتاب "لویاتھن" لکھی تھی جس کی اشاعت 1651ء میں ہوئی تھی۔ اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ عوام ایک طاقتور حکمران کے محتاج ہیں تاکہ انہیں "فطری صورتحال" جس میں جنگل کا قانون حکمفرما ہے اور زندگی گوشہ نشینی اور مشکلات کے ہمراہ ہونے کے ساتھ بے رحم اور مختصر ہے، سے نجات دلائے۔ ہابز کا خیال تھا کہ ایک طاقتور حکومت کے بغیر انسان انتہائی درجہ انارکی کی حالت میں زندگی گزاریں گے اور اس میں "سب سب کے خلاف جنگ" کی حالت میں ہوں گے۔ فطری صورتحال میں زندگی دراصل جنگل کے قوانین کے تحت زندگی بسر کرنے کے مترادف ہے جس میں افراد اپنی بقا کے لیے ہر قسم کا ہتھکنڈہ بروئے کار لاتے ہیں چاہے وہ شدت پسندی اور لاقانونیت پر مبنی ہی کیوں نہ ہو۔
ایسے حالات میں بقا کی منطق انسانوں کو ایک اقتدار اعلی کی حکمرانی قبول کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خوف سے ایک قسم کا سماجی معاہدہ انجام دے دیتے ہیں اور معاشرے میں برتر قوت کی حکمرانی قبول کر لیتے ہیں۔ ایسے حالات میں سیاسی جواز زیادہ تر اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ کیا حکمران مختلف مواقع پر اپنی رعایا کی حمایت اور حفاظت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر حکمران ایسا کرنے کے قابل نہ ہو تو نتیجے کے طور پر عوام بھی اس کی اطاعت نہیں کرتی اور حکومتی نظام ٹوٹ جانے اور فطری صورتحال کی جانب واپس چلے جانے سے بچنے کے لیے اقتدار اعلی کے طور پر اپنی حکمرانی برقرار کر لیتے ہیں۔ خدا عوام کی ایسی غلطیوں پر ان کی بازپرس نہیں کرے گا جو انہوں نے حکمرانوں کے غلط احکامات کے باعث انجام دی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات میں ہابز سے اتفاق رائے رکھتا ہے کہ حکمران کو اقتدار اعلی کا مالک ہونا چاہیے اور حکمران کی طاقت نہ تو ٹوٹنی چاہیے اور نہ ہی محدود ہونی چاہیے۔ ٹرمپ اپنے عمل کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ دانا اور اقتدار اعلی کا مالک حکمران ہے۔ وہ آئین، پارلیمنٹ یا عدالتوں کی جانب سے کسی قسم کی محدودیت محسوس نہیں کرتا۔ گویا جو اقدام یا اقدامات وہ انجام دیتا ہے وہی قانون اور جائز ہے۔ ٹرمپ ازم اور نئی امریکی حکومت کی وزارت افادیت نے امریکی معاشرے کو فطری صورتحال یا سب کی سب کے خلاف جنگ والی حالت کی جانب واپس لوٹا دیا ہے۔ توجہ رکھیں کہ جب ایک عقل مند اور ہمدرد حکمران برسراقتدار نہیں ہوتا تو معاشرے پر انارکی کا غلبہ ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ ہابز نے خبردار کیا ہے نظم و نسق کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔
بدامنی کا نتیجہ غیر یقینی صورتحال ہے جس میں کسی قسم کی ثقافت، بین الاقوامی کشتی رانی، علم، آرٹ، اچھا معاشرہ وغیرہ کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ایسے حالات میں جس چیز کا غلبہ ہوتا ہے وہ خوف، خطرہ اور وحشت ناک حالات کے سوا کچھ نہیں۔ امریکی اور یورپی شہریوں کی نظر میں حکومت صرف زندگی کو آسان بنانے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ معاشرے میں آزادی اور خوشحالی کو فروغ دینا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ امریکہ کی رپبلکن پارٹی کے بانی ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ حکومت کا جائز مقصد انسانی معاشرے کے لیے ہر وہ کام انجام دینا ہے جس کی انہیں ضرورت ہے لیکن وہ خود شخصی طور پر اور اپنی ذاتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسے انجام دینے سے قاصر ہیں یا اچھی طرح انجام نہیں دے سکتے۔
امریکہ میں خانہ جنگی کے زمانے سے اب تک حکومت نے تمام امریکی شہریوں میں مساوات کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر 1865ء میں قانون سازی کے ذریعے ایسے افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمت دینے کا مطالبہ کیا گیا جو جنگ میں شامل ہو چکے ہوں یا قتل ہونے والے فوجیوں کی بیوائیں ہوں۔ اسی طرح خانہ جنگی کے بعد امریکہ کے آئین میں 13، 14 اور 15 ترمیمی بل منظور کیے گئے جن میں شہری حقوق پر زور دیا گیا اور ووٹنگ کا حق دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ میں انسانی حقوق کو فروغ حاصل ہوا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد انسانی حقوق کو بڑا دھچکہ لگا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر جمہوری عہدیدار ایلن ماسک نے امریکی عوام کی فلاح و بہبود بڑھانے کی بجائے ان کی فلاح و بہبود کو نقصان پہنچایا ہے۔
کیتھرین ریمپل نے گذشتہ ہفتے واشگنٹن پوسٹ میں ایک مقالہ شائع کیا جس میں یہ سوال پیش کیا گیا تھا کہ کون ٹرمپ کو یہ سمجھا سکتا ہے کہ وہ درست عمل نہیں کر رہا اور بہت ہی سطحی انداز میں مسائل کو دیکھتا ہے؟ جب سے ٹرمپ نے کئی محاذوں پر تجارتی جنگ کا آغاز کیا ہے اس وقت سے دوسری عالمی جنگ کے بعد منڈی اور عالمی تجارت کو شدید ترین نقصان پہنچا ہے۔ ٹرمپ کے قریبی ترین مشیر اور اتحادی بھی اس کے ان اقدامات کی حمایت نہیں کر رہے اور اسے اس کام سے روک بھی نہیں رہے۔ یوں عالمی سطح پر ایک حد تک انارکی اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ زندگی کا مزہ کم ہو گیا ہے اور گویا ایک احمق برسراقتدار آ چکا ہے۔ ایسا شخص جو شور شرابہ مچاتا ہے، غصہ دکھاتا ہے لیکن اس کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔ یہ احمق اس وقت امریکہ کا حکمران ہے اور اس کے نالائق ساتھیوں نے حکومت سنبھال رکھی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فطری صورتحال اقتدار اعلی ہے اور اس نہیں کر ٹرمپ کے تھا کہ کے بعد بھی اس
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا