Islam Times:
2025-09-18@06:56:30 GMT

احمق حکمران سے درپیش مصیبتیں

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

احمق حکمران سے درپیش مصیبتیں

اسلام ٹائمز: کیتھرین ریمپل نے گذشتہ ہفتے واشگنٹن پوسٹ میں ایک مقالہ شائع کیا جس میں یہ سوال پیش کیا گیا تھا کہ کون ٹرمپ کو یہ سمجھا سکتا ہے کہ وہ درست عمل نہیں کر رہا اور بہت ہی سطحی انداز میں مسائل کو دیکھتا ہے؟ جب سے ٹرمپ نے کئی محاذوں پر تجارتی جنگ کا آغاز کیا ہے اس وقت سے دوسری عالمی جنگ کے بعد منڈی اور عالمی تجارت کو شدید ترین نقصان پہنچا ہے۔ ٹرمپ کے قریبی ترین مشیر اور اتحادی بھی اس کے ان اقدامات کی حمایت نہیں کر رہے اور اسے اس کام سے روک بھی نہیں رہے۔ یوں عالمی سطح پر ایک حد تک انارکی اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ زندگی کا مزہ کم ہو گیا ہے اور گویا ایک احمق برسراقتدار آ چکا ہے۔ ایسا شخص جو شور شرابہ مچاتا ہے، غصہ دکھاتا ہے لیکن اس کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔ یہ احمق اس وقت امریکہ کا حکمران ہے اور اس کے نالائق ساتھیوں نے حکومت سنبھال رکھی ہے۔ تحریر: والٹر کالمینز (پروفیسر سیاسیات بوسٹن یونیورسٹی)
 
جدید سیاسی مفکرین میں سے ایک تھامس ہابز ہے جس نے مشہور کتاب "لویاتھن" لکھی تھی جس کی اشاعت 1651ء میں ہوئی تھی۔ اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ عوام ایک طاقتور حکمران کے محتاج ہیں تاکہ انہیں "فطری صورتحال" جس میں جنگل کا قانون حکمفرما ہے اور زندگی گوشہ نشینی اور مشکلات کے ہمراہ ہونے کے ساتھ بے رحم اور مختصر ہے، سے نجات دلائے۔ ہابز کا خیال تھا کہ ایک طاقتور حکومت کے بغیر انسان انتہائی درجہ انارکی کی حالت میں زندگی گزاریں گے اور اس میں "سب سب کے خلاف جنگ" کی حالت میں ہوں گے۔ فطری صورتحال میں زندگی دراصل جنگل کے قوانین کے تحت زندگی بسر کرنے کے مترادف ہے جس میں افراد اپنی بقا کے لیے ہر قسم کا ہتھکنڈہ بروئے کار لاتے ہیں چاہے وہ شدت پسندی اور لاقانونیت پر مبنی ہی کیوں نہ ہو۔
 
ایسے حالات میں بقا کی منطق انسانوں کو ایک اقتدار اعلی کی حکمرانی قبول کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خوف سے ایک قسم کا سماجی معاہدہ انجام دے دیتے ہیں اور معاشرے میں برتر قوت کی حکمرانی قبول کر لیتے ہیں۔ ایسے حالات میں سیاسی جواز زیادہ تر اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ کیا حکمران مختلف مواقع پر اپنی رعایا کی حمایت اور حفاظت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر حکمران ایسا کرنے کے قابل نہ ہو تو نتیجے کے طور پر عوام بھی اس کی اطاعت نہیں کرتی اور حکومتی نظام ٹوٹ جانے اور فطری صورتحال کی جانب واپس چلے جانے سے بچنے کے لیے اقتدار اعلی کے طور پر اپنی حکمرانی برقرار کر لیتے ہیں۔ خدا عوام کی ایسی غلطیوں پر ان کی بازپرس نہیں کرے گا جو انہوں نے حکمرانوں کے غلط احکامات کے باعث انجام دی ہیں۔
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات میں ہابز سے اتفاق رائے رکھتا ہے کہ حکمران کو اقتدار اعلی کا مالک ہونا چاہیے اور حکمران کی طاقت نہ تو ٹوٹنی چاہیے اور نہ ہی محدود ہونی چاہیے۔ ٹرمپ اپنے عمل کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ دانا اور اقتدار اعلی کا مالک حکمران ہے۔ وہ آئین، پارلیمنٹ یا عدالتوں کی جانب سے کسی قسم کی محدودیت محسوس نہیں کرتا۔ گویا جو اقدام یا اقدامات وہ انجام دیتا ہے وہی قانون اور جائز ہے۔ ٹرمپ ازم اور نئی امریکی حکومت کی وزارت افادیت نے امریکی معاشرے کو فطری صورتحال یا سب کی سب کے خلاف جنگ والی حالت کی جانب واپس لوٹا دیا ہے۔ توجہ رکھیں کہ جب ایک عقل مند اور ہمدرد حکمران برسراقتدار نہیں ہوتا تو معاشرے پر انارکی کا غلبہ ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ ہابز نے خبردار کیا ہے نظم و نسق کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔
 
بدامنی کا نتیجہ غیر یقینی صورتحال ہے جس میں کسی قسم کی ثقافت، بین الاقوامی کشتی رانی، علم، آرٹ، اچھا معاشرہ وغیرہ کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ایسے حالات میں جس چیز کا غلبہ ہوتا ہے وہ خوف، خطرہ اور وحشت ناک حالات کے سوا کچھ نہیں۔ امریکی اور یورپی شہریوں کی نظر میں حکومت صرف زندگی کو آسان بنانے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ معاشرے میں آزادی اور خوشحالی کو فروغ دینا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ امریکہ کی رپبلکن پارٹی کے بانی ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ حکومت کا جائز مقصد انسانی معاشرے کے لیے ہر وہ کام انجام دینا ہے جس کی انہیں ضرورت ہے لیکن وہ خود شخصی طور پر اور اپنی ذاتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسے انجام دینے سے قاصر ہیں یا اچھی طرح انجام نہیں دے سکتے۔
 
امریکہ میں خانہ جنگی کے زمانے سے اب تک حکومت نے تمام امریکی شہریوں میں مساوات کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر 1865ء میں قانون سازی کے ذریعے ایسے افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمت دینے کا مطالبہ کیا گیا جو جنگ میں شامل ہو چکے ہوں یا قتل ہونے والے فوجیوں کی بیوائیں ہوں۔ اسی طرح خانہ جنگی کے بعد امریکہ کے آئین میں 13، 14 اور 15 ترمیمی بل منظور کیے گئے جن میں شہری حقوق پر زور دیا گیا اور ووٹنگ کا حق دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ میں انسانی حقوق کو فروغ حاصل ہوا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد انسانی حقوق کو بڑا دھچکہ لگا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر جمہوری عہدیدار ایلن ماسک نے امریکی عوام کی فلاح و بہبود بڑھانے کی بجائے ان کی فلاح و بہبود کو نقصان پہنچایا ہے۔
 
کیتھرین ریمپل نے گذشتہ ہفتے واشگنٹن پوسٹ میں ایک مقالہ شائع کیا جس میں یہ سوال پیش کیا گیا تھا کہ کون ٹرمپ کو یہ سمجھا سکتا ہے کہ وہ درست عمل نہیں کر رہا اور بہت ہی سطحی انداز میں مسائل کو دیکھتا ہے؟ جب سے ٹرمپ نے کئی محاذوں پر تجارتی جنگ کا آغاز کیا ہے اس وقت سے دوسری عالمی جنگ کے بعد منڈی اور عالمی تجارت کو شدید ترین نقصان پہنچا ہے۔ ٹرمپ کے قریبی ترین مشیر اور اتحادی بھی اس کے ان اقدامات کی حمایت نہیں کر رہے اور اسے اس کام سے روک بھی نہیں رہے۔ یوں عالمی سطح پر ایک حد تک انارکی اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ زندگی کا مزہ کم ہو گیا ہے اور گویا ایک احمق برسراقتدار آ چکا ہے۔ ایسا شخص جو شور شرابہ مچاتا ہے، غصہ دکھاتا ہے لیکن اس کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔ یہ احمق اس وقت امریکہ کا حکمران ہے اور اس کے نالائق ساتھیوں نے حکومت سنبھال رکھی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فطری صورتحال اقتدار اعلی ہے اور اس نہیں کر ٹرمپ کے تھا کہ کے بعد بھی اس

پڑھیں:

بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔

اہم جماعتیں کون سی ہیں؟

شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔

ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

(جاری ہے)

آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یونس کی پوزیشن کیا ہے؟

ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔

‘‘

یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔

فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔

گروپ کیوں منقسم ہیں؟

اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔

یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔

سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔

نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔

‘‘

بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔

دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔

جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔

‘‘

این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔

انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘

جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟

شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔

جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔

بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔

بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

‘‘

یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔

آگے کیا چیلنجز ہیں؟

عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔

انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • ماں کا سایہ زندگی کی بڑی نعمت‘ اس کا نعم البدل کوئی نہیں: عظمیٰ بخاری
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • برطانوی حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کا اسرائیل میں داخلہ بند
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • میئر کراچی کی گھن گرج!
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • حکومت سیلاب اور ہنگامی صورتحال میں ہرممکن ریلیف کی فراہمی کیلیے کوشاں ہے، شرجیل میمن
  • وزیراعظم  اور سعودی ولی عہد کی اہم ملاقات، خطے کی تازہ صورتحال اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال