وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟
VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بحال صحافی وائس ا ف امریکا وائس آف امریکا امریکا کی
پڑھیں:
امریکی صدر ٹرمپ نے ایران، افغانستان اور یمن سمیت 12 ممالک کے عوام پر امریکا میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 جون ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران، افغانستان اور یمن سمیت 12 ممالک کے عوام پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقدام کولوراڈو میں یہودی احتجاج پر کیے گئے حملے کے بعد اٹھایا گیا ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سفری پابندیوں کے ایک نئے حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کا اطلاق ایران، افغانستان اور یمن سمیت12 ممالک پر ہوگا، یہ اقدام ان متنازع پالیسیوں میں سے ایک کی واپسی ہے جو ان کے پہلے دورصدارت میں بھی متعارف کی گئی تھیں.(جاری ہے)
ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقدام کولوراڈو میں یہودی احتجاج پر کیے گئے عارضی فلیم تھروور حملے کے بعد اٹھایا گیا ہے جس کا الزام امریکی حکام نے ایک مصری شہری پر عائد کیا ہے جو ان کے مطابق ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تھاتاہم سفری پابندیوں کی فہرست میں مصرشامل نہیں ہے نئی پابندی کے تحت افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر امریکا آنے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے اس کے علاوہ سات ممالک کے شہریوں پر جزوی پابندی بھی عائد کی گئی ہے جن میں برونڈی، کیوبا، لاﺅس، سیرالیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں تاہم ان ممالک کے بعض شہریوں کو عارضی ورک ویزوں کی اجازت دی جائے گی. وائٹ ہاﺅس کے مطابق یہ پابندیاں پیر سے نافذ العمل ہوں گی صدر ٹرمپ نے ” ایکس“ پر جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ کولوراڈو میں حالیہ دہشت گرد حملے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ غیر ملکی شہری جن کی درست طریقے سے جانچ نہ کی جائے امریکا کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم انہیں یہاں نہیں چاہتے. ٹرمپ کے نئے حکم نامے کے مطابق یہ پابندی 2026 کے فیفا ورلڈ کپ (جسے امریکا، کینیڈا اور میکسیکو مشترکہ طور پر منعقد کر رہے ہیں) یا 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں شرکت کرنے والے ایتھلیٹس پر لاگو نہیں ہوگی صدر ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کو ویزے دینے پر بھی پابندی عائد کر دی یہ اقدام ان کی اس مہم کا حصہ ہے جس میں وہ امریکا کی لبرل تعلیمی اداروں پر تنقید کرتے آئے ہیں. صدر ٹرمپ نے نئے اقدامات کا موازنہ اپنے پہلے دورحکومت میں لگائی گئی متنازع مسلم ممالک کی سفری پابندی سے کیا جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر سفر میں رکاوٹیں پیدا ہوئی تھیں ٹرمپ نے کہا کہ 2017 میں عائد کردہ پابندی نے امریکا کو ان دہشت گرد حملوں سے محفوظ رکھا جو یورپ میں پیش آئے تھے انہوں نے کہا کہ ہم امریکا کا یورپ جیسا حال نہیں ہونے دیں گے ہم کسی ایسے ملک سے کھلی ہجرت کی اجازت نہیں دے سکتے جہاں سے آنے والے افراد کی محفوظ اور قابل بھروسا جانچ ممکن نہ ہو ادھر وینزویلا نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خود امریکا ایک خطرناک جگہ بن چکا ہے وینزویلا کے وزیر داخلہ دیوسدادو کابیو نے اعلان کے بعد کہا کہ امریکا میں ہونا اب ہر کسی کے لیے خطرہ ہے صرف وینزویلا کے شہریوں کے لیے نہیں. وائٹ ہاﺅس نے نئی سفری پابندی کسی پیشگی اطلاع کے بغیر اچانک نافذ کر دیں یہ اعلان صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنی رہائش گاہ کی بالکونی سے تقریباً 3 ہزار کارکنوں سے خطاب کے چند منٹ بعد کیا گیا اس بار کسی صحافی کو مدعو نہیں کیا گیا جسے ایک غیر معمولی اقدام قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اس سے قبل ٹرمپ اپنے بڑے اور متنازع فیصلے اکثر اوول آفس میں دستخط کی تقاریب میں میڈیا کے سامنے کیا کرتے تھے. وائٹ ہاﺅس کی نائب پریس سیکرٹری ابیگیل جیکسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم” ایکس“ پر کہا کہ صدر ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کر رہے ہیں کہ وہ امریکیوں کو ان خطرناک غیر ملکی عناصر سے بچائیں گے جو ہمارے ملک آ کر نقصان پہنچانا چاہتے ہیں صدر ٹرمپ کے جاری کردہ اعلامیے میں ہر ملک کے لیے سفری پابندیوں کی مخصوص وجوہات بیان کی گئی ہیں اس اعلامیے کا مقصد امریکا کو غیر ملکی دہشت گردوں اور دیگر قومی سلامتی کے خطرات سے محفوظ رکھنا بتایا گیا ہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ کولوراڈو حملہ کے ملزم محمد صابری سلیمان کا ملک مصر ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جن پر نئی سفری پابندیاں لگائی گئی ہیں اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان جنگ زدہ لیبیا، سوڈان، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں موثر مرکزی حکومتیں یا پاسپورٹ اور شناختی نظام موجود نہیں اس لیے ان کے شہریوں کی ویزا اسکریننگ قابل اعتماد نہیں سمجھی جاتی ایران کو فہرست میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کیونکہ وہ ریاستی سطح پر دہشت گردی کی حمایت کرنے والا ملک ہے حالانکہ امریکا اس کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے. نیشنل ایرانی امریکن کونسل کے صدر جمال عبدی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس پابندی کے اثرات ایک بار پھر ان امریکیوں پر پڑیں گے جو اپنے پیاروں کو شادیوں، جنازوں یا بچوں کی پیدائش جیسے لمحات میں دیکھنے سے محروم ہو جائیں گے باقی کئی ممالک کے بارے میں حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک کے شہریوں کے ویزا ختم ہونے کے بعد امریکا میں رک جانے کی شرح اوسط سے زیادہ ہے جو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جا رہا ہے.